میرے آبا کہ تھے نا محرمِ طوق و زنجیر/وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم/ نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر/ روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم/سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر
( فیض احمد فیض )
ہم جتنے بھی پریشان ہوں ،کچھ معاملات واقعتاً انسانی بس سے باہر ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک عنصر وقت ہے جو مسلسل حرکت سے اپنی اتھارٹی قائم کرتا ہے ۔ صبح سے شام اور رات سے طلوع آفتاب تک ، یہ مسلسل حرکت ہے جو زندگی اور اس سے وابستہ چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ اس حقیقت سے جڑا عنصراس حرکت کو منفرد بناتا ہے ۔ ٹی ایس ایلیٹ اس تعلق کے جوہر کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں :’’حال اور ماضی شاید مستقبل کے ہم سفر ہیں /اور مستقبل گئے وقتوں کی گود میں ہے۔‘‘
ماضی کے ملبے سے مستقبل کے عروج کے لمحے تک کے سفر کو حال کی اذیت زندگی کے منظر نامے کو تنوع سے بھر دیتی ہے ۔ ہم زندگی کے چکر میں ان تینوں عناصر کے ممکنہ اثرات سے غافل نہیں ہوسکتے ۔ ہم نے ماضی میں جو کچھ کیا ہو گا وہ کبھی غیر متعلقہ نہیں ہوتا کیونکہ نہ صرف یہ ہمارے حال اور مستقبل کو تشکیل دیتا ہے ،یہ ہمیں پریشان کرنے کیلئے بھی واپس آ سکتا ہے۔ قوموں کی زندگی کے دورانیے میں بھی ایسا ہی ہوتاہے کیونکہ وقت انکے ماضی کو انکے حال اور مستقبل سے جوڑتا ہے۔ آج ہمیں جن حالات کاسا منا ہے، اسے، ماضی میں ہم نے جو کچھ کیا ، سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے موجودہ دور کےبیج بیتے برسوں اور دہائیوں میں بوئے گئے تھے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات، آج ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہمارے مستقبل کو متاثر کرے گا اور اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا ہم اس مرحلے سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا اپنے اعمال کے نتائج بھگتتے ہیں۔جیسا کہ میں نے کہا، زندگی ہمہ وقت محو گردش ہے۔ رنگوں اور سایوں اور مدہم اور گہرے امتزاج سے زیست کی تصویر بنتی ہے۔ ہم کبھی بلندیوں پر سرفراز ہوتے ہیں، کبھی پستی میں جا گرتے ہیں ، لیکن یہ مراحل یکسانیت سے عاری ہیں۔ اور یہی اس کا حسن ہے جو ہمیں تمام تر رجائیت کے ساتھ جینے کی تاب وتواں بخشتا ہے۔ ماضی کی تکالیف کے باوجود مستقبل کی امید ہمیں اپنے حال کو برقرار رکھنےکیلئے لچک فراہم کرتی ہے۔ اور یہ زندگی کا چکر آگے بڑھتا رہتا ہے ، قطع نظر اس کے کہ اس میں ہمارے لیے کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
جب کہ وقت ہمیں اپنی بداعمالیوں کی اصلاح کے مواقع فراہم کرتا ہے، لیکن حتمی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کی ذمہ داری ہماری ہی ہے ۔ موجودہ دور کی تصویر بہت خوش آئند نہیں ۔ معاشرے کے بے سہارا طبقات کیلئے معاشی حالات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تکلیفیں ناقابل برداشت ہیں۔ا ن کی اذیت کا احاطہ کرنے کیلئےالفاظ نہیں ملتے ۔ ایسے وقت میں زندگی ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے اور مستقبل کا وعدہ حال کے چیلنجوں میں کھو جاتا ہے۔جس دوران ہم ماضی میں اپنے کیے کے نتائج بھگت رہے ہیں،یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوںکیلئے کیا چھوڑ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سےوہ ایسے وقت میں زندہ ہیں جو انکے خوابوں پر تاریک سائے ڈال رہا ہے۔ جوانی کے دھڑکتے جذبے کے ساتھ وہ اپنی معصوم امنگوں کو حقیقت میں بدلنے کیلئےباہر نکلتے ہیں تو دور تک پھیلی ہوئی تاریکی ان کا استقبال کرتی ہے ۔ اپنی نظم،’’ انتساب ‘‘میں فیض صاحب اس صورت حال کا دل خراش احوال رقم کرتے ہیں :
پڑھنے والوں کے نام / وہ جو اصحاب طبل و علم / کے دروں پر کتاب اور قلم / کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے / پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے / وہ معصوم جو بھولپن میں / وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن / لے کے پہنچے جہاں / بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی موجودہ حالت بلکہ اس وراثت کا بھی جائزہ لیں جو ہم اپنی آنے والی نسلوں کے کیلئےچھوڑنے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے جبر کے سامنے سرنگوں کردیاہے ۔ خوابوں کو پروان چڑھانے اور تصورات کو برقرار رکھنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ ہم گویا بے یقینی کی دھند میں کھوچکے ۔ ہم چند لقموںکیلئے لڑتے ہوئے بے حال ہیں جب کہ قریب ہی اقتدار کی دھن دولت سے لطف اندوز ہونے والے بھی موجود ہیں ۔ وہ عوام کے دکھ درد سے بے نیاز ،اپنی ذاتی سلطنتوں کو مزید بڑھانے کے ذرائع تلاش کرنے میں مگن ہیں جو اسی صورت ممکن ہے جب پسماندہ عوام کی تکالیف بلا روک ٹوک جاری رہیں۔ جن کا خون نچوڑ کر یہ متاع اکٹھی کی جا رہی ہے ، انکے احتجاج کی راہیں بھی مسدود کر دی گئی ہیں۔
پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ عوام اس وقت خوش حال ہوتے جب ان کی سوچوں پر پہرے نہ ہوں ، جب ان کے افعال پابند سلاسل نہ ہوں۔ جس دوران دنیا زنجیروں کو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے، ہم انہیں مزید مضبوط کرنےکیلئے قانون سازی کررہے ہیں۔ دنیا شہری آزادیوں کے کینوس کو وسعت دیتی ہے، ہم انھیں بنیادی حقوق سے محروم کرنے کیلئے رجعت پسند قوانین بناتے ہیں۔ دنیا انصاف کے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے، ہم آزاد عدلیہ کی عمارت کو منہدم کرنےکیلئے 26ویں آئینی ترمیم جیسی سنگین رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ عدالتی کمیشن میں اپنی عددی اکثریت کا استعمال کرتے ہوئے پسندیدہ افراد کو ججوں کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے تاکہ موصول ہونے والی ہدایات کے مطابق فیصلے صادر ہوں۔ دنیا میڈیا کی آزادی کا احترام کرتی اور اصلاحی اقدامات کو اپناتی ہے، ہم سنسرشپ کی انتہائی حدوں کا سہارا لے کر تقریر و تحریر پر پہرے لگا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت پر تنقید کرنے والے یوٹیوب چینلز پر پابندی لگانے کیلئے عدالتی حکم امتناع بھی حاصل کرتے ہیں۔ہم نے ایک ایسا راستہ چنا ہے جو سیاسی، معاشی اور سماجی نجات کی طرف نہیں لے جاتا ۔وقت آگیا ہے کہ ہم تاریکی کے اس گڑھے سے نکلیں اور روشنی کی کرن کو موقع دیں کہ ہماری درست راستے کی طرف راہنمائی کرسکے ۔ وہ جو آزادی اور انصاف کا راستہ ہے ۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)