نعمان اسحاق
کہتے ہیں، انسان اپنوں کے ساتھ ہی سجتا ہے، مگر مَیں اپنوں میں ہمیشہ گھٹن محسوس کرتا۔ میرانام مُراد ہے۔ تین بہن بھائیوں میں میرا آخری نمبر ہے۔ عموماً چھوٹے گھر بھر کے لاڈلے ہوتے ہیں، لیکن مَیں نے ہوش سنبھالتے ہی خُود کو نظر انداز ہوتے پایا۔ امّی کو ہم تینوں میں سے طلحہ سے سب سے زیادہ محبت تھی۔ ’’طلحہ! پوری روٹی کھاؤ۔‘‘ ’’طلحہ! تمہیں پٹھ کا گوشت پسند ہے، اِسی لیےتو مَیں نے یہ بوٹی ڈالی ہے۔‘‘ طلحہ کی رکابی بوٹیوں سےبَھری رہتی۔ آپا سے بھی امّی کی محبّت بس یوں ہی سی تھی، لیکن مَیں نے آپا کو اس معاملے میں بے فکر دیکھا۔
وہ ناولوں کی شوقین تھیں۔ اُن کی گفتگو بھی ناولوں کےگرد گھومتی۔ مَیں، طلحہ کے مقابلے میں امّی کا خُود سے برتاؤ دیکھتا، تو گمان ہوتا کہ شاید مَیں اُن کی اولاد ہی نہیں۔ اور جب آپا سے ذکر کیا، تو وہ ہنس دیں۔’’ایسی باتیں تو مَیں ناول میں پڑھا کرتی ہوں۔‘‘ ہمارے ابّو کو بس پیساجمع کرنے، جائیداد خریدنے سے رغبت تھی۔ خُوب چلتا ہوا کریانہ اسٹور تھا، لیکن امّی کے ہاتھ میں ہمیشہ نپی تُلی رقم رکھتے۔
شروع میں، مَیں نے امّی کو قناعت کرتے دیکھا، لیکن جیسے جیسے ہر سال جائیداد بڑھنے لگی، تو ابو کے جھوٹ کُھلنے اور خرچے کے لیے امّی کا مزید پیسوں کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ تیرا میرا سے ہوتے ہوتے نوبت جھگڑوں تک آگئی اور اِن جھگڑوں میں طلحہ ہمیشہ امّی کا حمایتی ہوتا، جب کہ مَیں اور آپا خاموش تماشائی۔
امّی کی حمایت کا فائدہ یہ ہوتا کہ امّی، طلحہ پر نچھاور رہتیں۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا تھا۔ اکثر سوچتا۔ ’’کیا مَیں بھی طلحہ کو کسی کنویں میں پھینک آؤں؟‘‘مگر محبّت تو پھر بھی نصیب نہ ہوگی، اُلٹا’’یعقوب‘‘ کی بینائی جائے گی اور مجھے یہ بھی منظور نہ تھا۔
آپا کے سالانہ پرچے ختم ہوئے، تو اُنہوں نے دل میں پنپتی خواہش سے آگاہ کیا۔ ’’مَیں ناول نگار بننا چاہتی ہوں۔ رضیہ بٹ جیسے خُوب صُورت ناول لکھوں گی۔‘‘ سب نے چونک کے دیکھا۔ ’’لیکن، ایک تو کوئی کہانی ہی ذہن میں نہیں اور جو ذہن میں ہے، اُس پر پہلے سے کسی نہ کسی نے لکھ رکھا ہے۔‘‘ آپا کی اس بات پر امّی اور مَیں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
طلحہ اوسط درجے کا، جب کہ مَیں ایک ہونہار طالبِ علم تھا۔ کبھی کبھار پوزیشن بھی آجاتی تھی، لیکن پہلی پوزیشن پہلی بار آئی اور مجھے ایک خُوب صُورت ٹرافی انعام میں ملی۔ گھر واپسی پر مَیں بہت خوش تھا، جب کہ طلحہ کے چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ ’’ذرا دِکھاؤ۔‘‘ اُس نے ہاتھ بڑھا کر ٹرافی پکڑ لی اور پھر اگلے ہی لمحے وہ زمین بوس ہو چُکی تھی۔ ’’سوری!جان بوجھ کرنہیں گرائی، ہاتھ سے گر گئی۔ سوری۔‘‘ وہ بولا، لیکن چہرے پرمعذرت کا شائبہ تک نہ تھا۔ پل کے پل مجھے ایسا غصّہ آیاکہ مَیں اُس پر چڑھ دوڑا۔
میرے مُکّے کے جواب میں اُس نے بھی گھونسا مارا۔ ہم باقاعدہ لڑنے لگے۔ ایک پڑوسی گزرے، تو اُنہوں نے بیچ بچاؤ کروا کے گھر تک چھوڑا۔ ٹرافی کئی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ چُکی تھی۔ مَیں نے چند ٹکڑے اُٹھالیے۔ گھر آکر امّی کو وہ ٹکڑے دکھائے۔ ’’مَیں کلاس میں فرسٹ آیا تھا، مجھے ٹرافی ملی تھی۔ طلحہ نے توڑ دی۔‘‘ ’’ہاتھ سے گر گئی تھی، جان بوجھ کرنہیں توڑی۔‘‘ وہ فوراً بولا۔ ’’اور طلحہ، تمہارا رزلٹ؟‘‘
امّی کاسوال تھا۔’’مَیں بھی پاس ہوں۔‘‘ ’’بہت بہت مبارک ہو تم دونوں کو۔ اور مُراد! طلحہ تمہارا بھائی ہے، وہ تمہارا انعام کیوں توڑے گا؟‘‘’’امّی!طلحہ نے ٹرافی جان بوجھ کے توڑی ہے۔ آپ کو کبھی میری بات پر یقین نہیں آتا، کیوں کہ آپ کو طلحہ زیادہ اچھا لگتا ہے۔‘‘ مَیں نےاحتجاج کیا۔ ’’تم دونوں میرے بیٹے ہو، مَیں تم دونوں سےایک جتنا پیار کرتی ہوں۔‘‘ امّی آہستگی سے وضاحت دے رہی تھیں۔
مَیں چُپ چاپ سر جُھکائے بیٹھا رہا۔’’اچھا مُراد! پہلی بار اوّل آئے ہو، امّی سے انعام نہیں لوگے۔‘‘ آپا ماحول کی کشیدگی کم کرنے لگیں۔ امّی نے دوپٹےکے پلّو سے بندھے سو روپے میری ہتھیلی پر رکھ دیے۔ ’’رہنےدیں امّی۔ آپ کے پاس پہلے ہی پیسے نہیں ہوتے۔‘‘میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’چل چل رکھ، میرا بیٹا پہلی بار اوّل آیا ہے۔ مَیں اُسے انعام بھی نہ دوں۔‘‘ امّی نے زبردستی میری مُٹھی بند کردی۔
دن اِسی طرح گزر رہے تھے کہ اچانک آپا کی شادی کا ہنگامہ جاگ اُٹھا۔ ’’آپا! آپ کی ناول لکھنے کی خواہش…؟؟‘‘مَیں نے معصومیت سے پوچھا۔ ’’بس مُراد! کیا بتاؤں۔ مصنّفین بہت تیز ہیں۔ میرے لکھنے کے لیے کوئی موضوع ہی نہیں چھوڑا۔‘‘ آپا نے بہت سہولت سے ہتھیار ڈال دیئے۔ محلے میں شادی کارڈ بانٹنے کا کام میرے ذمّے لگا۔
ابتدا ساتھ والے زاہد صاحب کے گھر سے کی۔ ’’مَیں ہوں مُراد۔‘‘ زاہد صاحب کی زوجہ نے دستک کے جواب میں کہا۔ ’’لو، تم تو اپنے بچّے ہو، اندر آجاؤ۔ بہت بہت مبارک ہو۔ چائے پی کر جانا۔‘‘’’نہیں خالہ! پھر کبھی…‘‘الفاظ میرے حلق ہی میں اٹک گئے۔
سامنے سے اُن کی بیٹی کرن کو آتا دیکھ کر میرا دل بہت زورسےدھڑکا۔ حالاں کہ مَیں اُسے پہلی بار نہیں دیکھ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کرن اپنا دوپٹا درست کرنے لگی۔ انتہائی سُرخ شلوار قمیص، چہرے پر بالوں کی بےترتیب سی لٹیں اور کلائیوں میں چند ایک کانچ کی چوڑیاں۔ اس نےدُور سے مجھے سر کی جنبش سے سلام کیا، تو مجھے ہوش آیا۔
بمشکل تمام اپنے آپ کوسنبھالتا باہر آیا۔ ایسا لگا، جیسے میری کوئی چیز اُن کے گھر ہی رہ گئی۔ کرن کاسراپا میری نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ بمشکل تمام کارڈ بانٹے اور گھرآتے ہی چارپائی پر ڈھے گیا۔ میرا پورا بچپن کرن کے ساتھ کھیلتے کُودتے گزرا تھا۔ تو پھر آج یہ ایسا کیا ہوگیا…مَیں عجیب حواس باختہ سا تھا۔
شادی کی تقریبات میں بھی میری نگاہیں کرن ہی کوتلاشتی رہیں اور پھر آپا کی وداعی تک مَیں فیصلہ کر چُکا تھا۔’’میری دلہن کرن ہی بنے گی۔‘‘میری سکینہ خالہ بھی اپنے بچّوں کے ساتھ شادی میں شرکت کے لیے آئی تھیں، تو نہ جانے کیوں، اُن کی بیٹی رقیہ جاتے ہوئے کپکپاتے ہاتھوں سے مجھے ایک کاغذ تھما گئی۔
وہ میرے نام خط تھا۔ ’’مُراد! ایک لڑکی ہوتے ہوئے یہ کہنا تھوڑا عجیب تو ضرور ہے، لیکن کہے بغیر چارہ نہیں کہ مَیں تم سے بےحساب محبّت کرتی ہوں۔ مَیں نے تمہیں اللہ سے دُعاؤں میں مانگا ہے۔ جواب کی منتظر، رقیہ۔‘‘ اگر یہ خط مجھ پر واردِ محبّت سے پہلےکا قضیہ ہوتا، تو اور بات ہوتی۔ مَیں نے رقعہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے کُوڑے دان میں ڈال دیا۔
بی اے کے بعد طلحہ نے ابّو کے ساتھ اسٹور پر بیٹھنا شروع کر دیا اور وہ کچھ پیسے ابّو سے چُھپ کر امّی کو بھی دینے لگا۔ امّی کے پاس پیسے کی تھوڑی فراوانی ہوئی تو امّی، ابّو کے جھگڑے بھی کم ہونے لگے۔ میرا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہوا تو مَیں پڑھائی میں سخت مصروف ہوگیا۔ ایک دن طلحہ مُسکراتے ہوئے امّی سے بولا۔’’مَیں اپنی پیاری امّی کے لیے ایک چاند سی بہو پسند کرچُکا ہوں۔‘‘ ’’کون، کِسے؟‘‘ امّی بہت پُرجوش تھیں۔ ’’کرن…‘‘طلحہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میرے اللہ، مَیں ہمیشہ سے کرن کو تمہاری دلہن کے رُوپ میں دیکھتی ہوں۔‘‘
’’مُراد! کرن تمہاری بھابھی کے رُوپ میں کیسی لگے گی؟‘‘طلحہ مجھ سے پوچھ رہا تھا اور میرے چہرے پر کچھ ایسی کرختگی تھی کہ اُس کے مُسکراتے لب بھنچ گئے۔ ’’مُراد! تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ امّی کو تشویش ہوئی۔’’امّی! مَیں کرن کو پسند کرتا ہوں اور اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ مَیں نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔ امّی یک دَم خاموش ہوگئیں۔ ’’لیکن…نہ صرف مَیں بلکہ کرن بھی مجھے پسند کرتی ہے۔
اب سے نہیں، کئی سالوں سے۔‘‘طلحہ بہت اطمینان سے بولا، تو مَیں نے بےیقینی سے اُس کی طرف دیکھا۔’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔’’ ٹھیک ہے، کرن خُود تصدیق کر دے گی۔‘‘ طلحہ کا لہجہ بہت سرد تھا۔ مَیں مزید کچھ کہے بغیر اُٹھ کر کمرے کی طرف چل پڑا۔ ’’مُراد! میری بات سنو۔‘‘طلحہ پیچھے سے پکارا۔ ’’مجھے کچھ نہیں سننا۔ ہاں، یہ ضرور بتانا ہے کہ مجھے تم سے شدید نفرت ہے۔‘‘
کمرے میں آکر مَیں نے دروازہ مقفل کیا اور بستر پر آڑا ترچھا لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کیں، تو ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں آنکھوں میں چُبھنے لگیں۔ ’’کرن…بھابھی۔‘‘مَیں بلک بلک کر رو دیا۔ بستر پر کروٹیں بدلتے مجھے ہابیل، قابیل کا قصّہ یاد آرہا تھا۔ اگر مَیں ہابیل ہوں، تو اللہ کا محبوب کیوں نہیں۔ آنکھوں سے نمکین پانی بہتا رہا اور مَیں نے بہنے دیا۔
مَیں سنبھلتے سنبھلتے سنبھل ہی گیا۔ امّی، ابّو نے کرن کے لیے زاہد صاحب کے گھر کے چکر لگانے شروع کردیئے۔ اور پھر چند ماہ بعد کرن، مسز طلحہ بن کر ہمارے گھر آگئی۔ اُنہی دنوں مجھے کالج کے پتے پر رقیہ کا خط موصول ہوا، جس کا مضمون پچھلے سے چنداں مختلف نہ تھا۔ میرے دل کے زخم تازہ تھے، مَیں نے وہ خط بھی کُوڑے دان کے حوالے کر دیا۔ چند سال گزرے تو سکینہ خالہ کا عدم سے بلاوا آگیا۔ سوئم پر امّی نے رقیہ کو پاس بٹھا کر سمجھایا۔ ’’اب جو رشتہ آئے، ہاں کردینا۔‘‘ اور وہ میری طرف دیکھ کر بلک بلک کےرونے لگی۔
امّی، بھانجی کاحالِ دل جان گئیں۔ ’’تمہارا رقیہ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ تم اُس سے شادی کر لو۔‘‘ امّی نے واپسی پر میری آنکھوں میں جھانکا۔ کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد مَیں نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک ہے، مَیں رقیہ سے شادی کرلوں گا، لیکن شادی کے بعد آپ لوگوں کے ساتھ نہیں رہوں گا۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’کیوں کہ مجھے طلحہ سے شدید نفرت ہے۔‘‘ میری آنکھوں کی وحشت نے امّی کو مزید کوئی سوال نہیں کرنے دیا۔
عمران سے میری دوستی ہاؤس جاب کے دوران ہوئی تھی۔ پتا نہیں کیوں، عمران پر اپنے اسکول جا کر پرانی یادیں تازہ کرنے کا جنون سوار ہو گیا تھا۔ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے آیا اور اسکول پہنچ کر تو بالکل بچّہ ہی بن گیا۔ ’’یہاں ہماری اسمبلی ہوتی تھی۔ مَیں اسکول کا ہیڈ بوائے تھا۔ میرا نام اندر لوحِ اعزار پر بھی لکھا ہوا ہے۔‘‘وہ مجھے ہاتھ پکڑکراندرلے گیا اور اپنا نام دکھاتے چہکنے لگا۔ ’’یہ وہ گھنٹا ہے، جسے درمیانی وقفے کے لیے چپراسی بجاتا تھا۔‘‘
وہ مجھے پچیس سال کا نوجوان ڈاکٹر نہیں، ہائی اسکول کا ٹین ایجر لگ رہا تھا۔ ہم آگے بڑھے، توعمران بولا۔ ’’مُراد! تم اس قدر پریشان کیوں رہتے ہو؟‘‘ ’’مَیں…نہیں تو…‘‘مَیں نے ٹالنا چاہا۔ ’’جھوٹ مت بولو۔ مجھے دیکھو، مَیں اپنے ماضی سے بھی محظوظ ہوتا ہوں، اور تم اپنے حال میں بھی خوش نہیں رہتے۔‘‘ مَیں چُپ چاپ سرجُھکائے کھڑا رہا۔ ’’یہاں پاس ایک ریسٹورنٹ ہے، وہاں کھانا کھاتے ہیں اور آج دل کی باتیں بھی کریں گے۔‘‘
اُس نے فیصلہ سُنایا اور چند لمحوں بعد ہم ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ ’’چلو، اب سناؤ، شروع سے آخر تک۔‘‘ ’’پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی مجھ سے پوچھ رہاہے کہ مَیں کیوں پریشان ہوں۔‘‘ مَیں نے اُس کی طرف دیکھا۔ ’’اب یہ خُود ترسی ہے یا کچھ اور، اِس کا فیصلہ مَیں تمہاری کہانی سُننے کے بعد ہی کروں گا۔‘‘
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد مَیں گویا ہوا، تو جیسے زندگی بھر کا جمع شدہ لاوا بہہ نکلا۔ وہ پوری توجّہ، انہماک سے میری رام کہانی سُنتا رہا۔ ’’بس یا مزید کچھ …؟‘‘وہ میرے لرزتے، کانپتے وجود کو سہارا دیتے ہوئے بولا تھا۔ ’’نہیں، مزید کچھ نہیں۔‘‘مَیں نےکہا، تو اُس نے جیسے تمہید باندھی۔ ’’مُراد! میرے دوست پہلے ہم بات کرتے ہیں، تمہارے ابّو کی، جن کی وجہ سے تم نے اپنا بچپن خواہشوں کو مارتے گزارا، تو یار! تم نہیں جانتے کہ اُن کی کیا مجبوریاں رہی ہوں گی۔ وگرنہ کوئی بھی باپ، خُود کو بیچ کر بھی اولاد کی ضروریات پوری کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ اور اُن کے اُس طرزِعمل ہی نے تو آج تمھیں اتنا اونچا، اِس قدر مضبوط تعمیر کیا ہے۔
اب تم خُود برسرِروزگار ہو۔ اچھا کماتے کھاتے ہو۔ اور کیا چاہیے؟ رہی بات تمہاری والدہ کے طلحہ سے زیادہ لاڈ، دُلار کی، تو تم مجھے یہ بتاؤ کہ امّی طلحہ کے لاڈ اُٹھاتی تھیں یا وہ لاڈ اُٹھواتا تھا؟ کیا تم نے کبھی ویسے لاڈ اُٹھوانے کی کوشش کی؟ اب جہاں تک طلحہ سے تمھارے تعلق کا معاملہ ہے، تو مجھے لگتا ہے، تم دونوں نے ایک دوسرے کےحسد و رقابت میں بھائی اور دوست جیسا ایک بہت پیارا رشتہ کھودیا۔
کرن اب تمھاری بھابھی ہی نہیں، تمہارے بھتیجوں کی ماں بھی ہے۔ معاف کرنا، میرے دوست، لیکن یہ حقیقت ہے کہ تم خُود بھی قنوطی ہو۔‘‘ ’’قنوطی؟‘‘ مَیں نے حیرانی سے اُسے دیکھا۔ ’’ہاں قنوطی، تم عہدِ رفتہ کے مرثیے پڑھتے، ہر چیز میں منفی پہلو ڈھونڈتے رہتے ہو۔ تم رقیہ کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ کیا اُس لڑکی کی تمہارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، جس نے تم سے ٹوٹ کرمحبت کی۔‘‘ عمران بول رہا تھا اور میں یک ٹک اُسے تکے جارہا تھا۔
کہیں پڑھا تھا، اللہ ہرانسان کا،زندگی میں ایک بار’’حضرت خضر‘‘ سے سامنا ضرور کرواتے ہیں۔ مَیں نے عمران کو غور سے دیکھا، تو احساس ہوا، میرا ’’خضر‘‘ یہی ہے، جو میری کمیوں کی نشان دہی بھی انتہائی خلوص سے کررہا تھا۔ ’’میرے دوست! دل پرآئے زنگ کو ایک دفعہ صیقل تو کرو، پھر دیکھو زندگی کتنی خُوب صُورت ہے۔‘‘ اُس کے الفاظ تھے یا کوئی امرت دھارا، میرے تو دل کی دنیا ہی بدل گئی۔
رقیہ سےشادی کا وقت آیا، تواچانک مجھے پیٹ میں درد رہنےلگا، شدید قسم کا ناقابلِ برداشت درد۔ مختلف ٹیسٹس اور اسکیننگ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ ’’پولی سِسٹک کڈنی ڈیزیز‘‘ہے، جو ایک جینیاتی بیماری ہے، جس میں دونوں گُردے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ ڈائی لیسز سے چند مہینے تو گزارے جاسکتے ہیں، لیکن مکمل علاج انتقالِ گردہ ہی ہے۔ پورے گھر پر موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ امّی ابّو بوڑھے تھے، آپا بلڈ پریشر کی مریضہ اور طلحہ کےساتھ کراس میچنگ نہ ہوئی۔
مجھے موت کی دستک صاف سنائی دے رہی تھی۔ اور پھر وہ رقیہ ہی تھی، جس کا گُردہ نہ صرف میچ کیا، بلکہ کام یابی سے مجھے منتقل بھی کیا گیا۔ ٹھیک ایک سال بعد ہماری شادی ہوگئی۔ ’’آپ سے تو میری زندگی ہے۔ یہ آپ کی بار بار کی ممنونیت مجھے افسردہ کرتی ہے۔‘‘ یہ رقیہ کے الفاظ ہوتے تھے۔ وہ انتقالِ گردہ کے بعد بھی مکمل صحت مند تھی، لیکن ٹشو ریجیکشن سے بچنے والی ادویہ کے مستقل استعمال نے مجھے جسمانی طور پر کافی کم زور کردیا تھا۔
وہ جی جان سے میری خدمت کرتی، اپنی بےتحاشا محبّت لٹاتی۔ امّی، ابّو، آپی، طلحہ کسی نے بھی کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ میری طویل بیماری نے میرے دل کا سارا زنگ ہی صیقل نہیں کیا، میری آنکھیں بھی کھول دی تھیں۔ اب رہ رہ کے ایک ہی خیال آتا ہے کہ مَیں نے زندگی کے اتنے حسین سال ناحق ایک زنگ خوردہ دل کے ساتھ کیوں گزارے۔ اے کاش! پہلے ہی کوئی قلعی گر مل جاتا۔