مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
مَیں 1963ء سے کراچی کے نواحی علاقے، لانڈھی میں مقیم اور ٹیلرنگ کے پیشے سے منسلک ہوں۔ میرے والد صاحب ایک مقامی کمپنی میں ملازم تھے۔ 1967ء میں میری شادی ہوئی، لیکن کئی سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔
اس حوالے سے ڈاکٹرز سے رجوع کیا، تو میڈیکل ٹیسٹس کے بعد بتایا کہ سارے ٹیسٹس مثبت ہیں، اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمادے گا۔ یہ جان کر مجھے اطمینان ہوگیا، لیکن میری والدہ نے کچھ قریبی رشتے داروں کے کہنے پر دوسری شادی کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا، تو مَیں نے صاف منع کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’یہ میری بیوی ہے، جو کسی کی بیٹی بھی ہے۔
اس کے والدین نے مجھ پر بھروسا کرکے ہی اس کی شادی مجھ سے کی ہے، مَیں اُنھیں دھوکا نہیں دے سکتا، اور پھر آپ خود ہی سوچیں کہ اگر مَیں نے ایسا کیا، تو میری بیوی کے دل پر کیا گزرے گی؟‘‘ والدہ نے میرے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے بیٹا، جیسی تمہاری مرضی، اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں بہتر کرے۔‘‘ والدہ تو مطمئن ہوگئیں، لیکن بچّوں کی قلقاریوں سے محروم گھر میں ہر وقت اُداسی کی فضا طاری رہتی۔
ایک روز غم کی کیفیت میں دکان سے گھر آیا اور دہلیز پر قدم رکھا تو ایک دم خیال آیا کہ گھر کا سُونا آنگن آباد کرنے کے لیے کیوں نہ کوئی بچّہ گود لے لیا جائے۔ اس حوالے سے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا، تو اُس نے بتایا کہ پرانی نمائش کے قریب ’’کاشانۂ اطفال‘‘ کے نام سے ایک ادارہ ہے، جہاں سے بچّہ گود لیا جاسکتا ہے۔
مَیں دوسرے ہی روز وہاں پہنچ گیا اور آفس کے منتظم سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ’’مَیں ایک بچّہ گود لینا چاہتا ہوں، اگر کوئی لڑکا ہو تو بتائیے۔‘‘ مَیں نے خاص طور پر ’’لڑکے‘‘ پرزور دیا، تو انھوں نے کہا۔’’اس وقت تو کوئی لڑکا نہیں، ایک ہفتے کے بعد آئیے۔‘‘
ہفتے بعد گیا، تو بولے۔’’لڑکا تو نہیں ہے، لڑکی ہے، آپ اسے ہی گود لے لیں، اور یہ سوچیں اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹی سے نوازتا، تو آپ کیا کرتے؟‘‘ اُن کی بات درست تھی، مگر میں مزید کچھ کہے بِنا وہاں سے اُٹھ گیا اور واپس جانے کے لیے ادارے کےگیٹ پر پہنچا، تو عین اُسی وقت ایک صاحب وہاں ایک بچّی کو لیے اندر داخل ہوئے۔ مجھ پرنظر پڑی تو منتظم سے متعلق دریافت کیا کہ کہاں بیٹھتے ہیں؟
مَیں نے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو بولے۔ ’’یہ میری بیٹی ہے، اس کی پرورش سے قاصر ہوں، لہٰذا مجبوراً اِسے یہاں داخل کروانے آیا ہوں۔‘‘بچّی بہت معصوم شکل و صُورت کی تھی، مَیں نے سوچا، کیوں نہ مَیں ہی اسے گود لے لوں، یہ سوچ کر مَیں نے اُن سے کہا۔ ’’مَیں بھی یہاں بچّہ گود لینے کی غرض سے آیا ہوں، اگر آپ چاہیں، تو یہ بچّی مجھے دے دیں۔‘‘
میری پیش کش سُن کر وہ صاحب چند لمحے مجھے بغور دیکھتے رہے، پھر اُداسی سےکہا۔ ’’میرا نام سلامت خان ہے، مَیں پاکستان کوارٹرز کے قریب رہتا ہوں۔ ایک ہفتے قبل میری اہلیہ دوسری بیٹی کو جنم دیتے وقت انتقال کرگئیں، بِنا ماں کے ان بچیوں کو پالنا میرے لیے ممکن نہیں۔ نومولود کو تو ہمارے ایک رشتے دار اپنے ساتھ لے گئے اور اپنی اس ڈھائی سالہ بچّی کو مَیں، یہاں داخل کروانے لایا ہوں تاکہ اس کی بہتر پرورش ہوسکے۔‘‘
بہرحال، سلامت خان نے چند ضروری تفصیلات اور معلومات حاصل کرنے کے بعد بچّی میرے حوالے کردی۔ بچّی کا نام عصمت جہاں تھا، لیکن مَیں نے اُس کا نام زرّیں ناز رکھ دیا۔ زرّیں کی آمد سے ہمارے گھر کا سُونا آنگن خوشیوں سے مہک اٹھا۔
1972ءمیں، مَیں بسلسلۂ روزگار بحرین چلا گیا۔ دو سال بعد واپس آیا، تو زرّیں ساڑھے چار برس کی ہوچُکی تھی، اُسے میں نے سگی اولاد سے بھی بڑھ کر پیار و محبّت دیا، جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بیٹیوں اور تین بیٹوں سے نوازا۔ میری اہلیہ نے بھی اُس سے کبھی سوتیلے پن کا مظاہرہ نہیں کیا، اپنے بچّوں سے بھی زیادہ اس کا خیال رکھا۔ خاندان میں بھی کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ زرّیں میری سگی بیٹی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت اچھا وقت گزر گیا اور جب اُس کی شادی کی عُمر ہوئی، تو رشتے کی تلاش شروع کردی۔ سلامت خان سے میرا رابطہ برقرار تھا، گاہے بگاہے ملاقات بھی ہوجاتی تھی، جب اُسے بچّی کی شادی کا بتایا، تو اُس نے بڑی مایوسی اور اداسی سے عذر پیش کیا کہ ’’زرّیں میری اولاد، میرا خون ہے، مگر مَیں بدقسمت انسان ہوں کہ اس کی پرورش کرسکا، نہ اب اُس کی رخصتی کے لیے میرے پاس کچھ ہے۔‘‘ مَیں نے دلاسا دیا کہ ’’مَیں آپ سے کچھ طلب بھی نہیں کررہا، زرّیں میری بیٹی ہے، اُس کی شادی کے تمام تر اخراجات مَیں خود ہی کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد ہی اپنے ایک قریبی عزیز کے بیٹے سے اُس کی دھوم دھام سے شادی کروادی۔
آج میری بیٹی، زرّیں کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیٹوں کی شادی کردی ہے اور ماشاء اللہ خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔ جب کہ مَیں بھی اپنے تمام بچّوں کے فرائض سے سبک دوش ہوکر ایک مطمئن زندگی گزار رہا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پراپنی عنایات کی گویا بارش کی۔ مَیں نےشروع میں اولاد نہ ہونے پر توکّل اور صبر کا مظاہرہ کیا، اور بعدازاں جب ایک بچّی گود لی، تو پھر تو مجھ پر جیسے رحمت کے دروازے کُھل گئے۔ اللہ نے مجھے چار بیٹیوں اور تین بیٹوں سے نواز دیا،جس پر اُس کا جتنا شُکر ادا کروں، کم ہے۔ (ظہور احمد، ایریا 36F، لانڈھی، کراچی)