اُس کا جسم شرابور تھا، لیکن یہ فیصلہ مشکل تھا کہ اِس کی وجہ جُون کی حبس زدہ رات تھی یا ہونے والی بےعزتی کا ڈر، یا وہ دھمکی، جو وہ بین السطورمحسوس کررہی تھی یا پھر وہ گھٹن، جواب تک کی گزری زندگی کا نتیجہ تھی۔ اُس کے حلق میں کانٹے پڑرہے ہیں۔ خوف کی لہر ریڑھ کی ہڈی میں چلتی محسوس ہو رہی تھی، ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔
وقت کے اِس مختصر سے وقفے میں ہزاروں وسوسے، سیکڑوں خدشے اور بیسیوں واقعات ذہن میں کوند گئے۔ اندھیرا عمیق، ہر چیز پر سکوت طاری تھا۔ وقت جیسےتھم چکا تھا۔ اُس پر سکتے کا عالم تھا، صرف گالوں پر بہتے آنسو زندگی کا پتا دے رہے تھے یا اُس کا متحرک دماغ۔
ہرچند کہ اُس کےاجداد ہجرت کر کے یہاں پہنچے تھے، مگروہ خُود اور اُس کے والدین یہیں پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے زخم مندمل نہ سہی، مدھم ضرور ہوگئے تھے۔ ستر، پچھتر سالوں میں یہاں بسنے والے ایک دوسرے سے واقف ہوچُکے تھے۔ تین پیڑھیاں ایک دوسرے پر اعتبار جمانے میں کام یاب ہو چلی تھیں۔ اِس چھوٹے سے قصبے میں غربت کے باوجود سفید پوشی کا بھرم قائم تھا۔ محلے میں تقریباً سب ہی کے معاشی حالات ایک جیسے تھے، سب اپنا وقت خاموشی اورعزت سے کاٹ رہے تھے۔
مگر اِس خاموشی میں شور، بےعزتی کا ڈر اُس وقت پیدا ہوا، جب علاقے میں بڑی ٹیکسٹائل مل لگی۔ تین چار سال کے عرصے میں، ہزاروں کی تعداد میں نئے لوگ یہاں آبسے۔ نئے آنے والوں میں زیادہ تر اکھڑ مزاج، اجڈ، چھڑے چھانٹ دیہاتی تھے، جن کا یہاں گھر بار تھا، نہ بیوی بچّے۔ وہ ہمہ وقت دنگا فساد پر تیار رہتے، اُن کی آنکھوں میں واقفیت کی شرم تھی نہ محلے کی مروت۔ دراصل وہ بھی مشکل حالات، دربدری کا شکار تھے اور مستقبل کی بے یقینی، اندر کا تنائو بد زبانی، بدلحاظی کی صُورت باہر آتا۔
بھرے بازار میں دو گالی دینا یا کھا لینا اُن کے نزدیک بڑی بات نہ تھی۔ وہ دراصل مسافر تھے، جن کو کچھ عرصہ قسمت کا دانہ دنکا چن کر یہاں سے چلے جانا تھا، وہ ایک دوسرے کے ساتھ تو تھے، مگر ساتھی نہ تھے، لیکن اس فیکٹری نے تو پرانے باسیوں میں بھی معاشی تفاوت پیدا کردی تھی، جسے دُور کرنے کے لیے ہر کوئی ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ خُود زینب کے ابا نے، جو گھرکے ایک کمرے میں پرچون کی دکان چلایا کرتے تھے، کسی سے کہہ سُن کر فیکٹری میں حاضری منشی کی ملازمت حاصل کر لی۔
فیکٹری میں آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تین شفٹیں چلتی تھیں۔ انہوں نےدوسرے منشی کے ساتھ فیکٹری میں اوقاتِ کار ایسے طے کیے کہ اُنہیں زیادہ تررات یا صُبح کی شفٹ پرجانا ہوتا۔ اِس کا فائدہ یہ تھا کہ اُنہیں دکان پر بیٹھنے کا زیادہ موقع مل جاتا، مگر اصل مسئلہ صُبح کی شفٹ والے دن، سویرے بِکری کے وقت دکان بند کرنے کا تھا۔
اُن کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ ان کی غیرموجودی میں، کہیں کوئی دوسری دکان نہ کھل جائے۔ فیکٹری سے پیسے تو اچھے ملتے تھے، مگر نوکری کی ضمانت مالک کی خوش نودی سے مشروط تھی۔ اوپر سے مینیجر یہ کہہ کر دباتا رہتا کہ کچھ دنوں میں کمپیوٹر آجائے گا، پھر اِس حاضری رجسٹر کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
امّاں کے مشورے پراس مسئلےکا حل یہ نکالا گیا کہ گھر میں موجود امّاں اور ایک بن بیاہی پھوپھی دکان دیکھ لیں گی، کچھ دیر ہی کی تو بات ہے۔ حل تو بہت آسان تھا، لیکن عملی طور پر اتنا سہل نہ تھا۔ پھوپھی کے بقول، پوری رات وہ ٹانگوں کے درد کے سبب جاگتی ہیں، صُبحِ دم تو آنکھ لگتی ہے، دوسرے اُن سے روپے پیسے کا حساب نہ ہوپاتا۔ ڈیڑھ دو ماہ میں کام کی یہ شکل بنی کہ امّاں اور زینب ہی کو دکان کا خیال رکھنا پڑا۔
زینب نہ صرف حساب کتاب میں تیزتھی بلکہ پُھرتی سے گاہکوں کو اُن کا مطلوبہ سودا بھی دے دیا کرتی۔ بڑی سی چادرکی بکّل مارے وہ دو تین گھنٹوں میں ہلکان ہو جاتی، مگر ابّا کا ساتھ دینے کی خواہش میں لگی رہتی۔ پرانے اہلِ محلہ کے ساتھ توکوئی مشکل پیش نہ آتی، مگر فیکٹری کے نئے مزدوروں کے ساتھ لین دین دشوار ہوتا۔ اب تک کی زندگی میں جو باتیں وہ جان نہیں پائی تھی، کچھ ہی عرصے میں سب سمجھ میں آنے لگیں۔
لوگوں کی نظریں، اُن کی باتوں کے مطلب، ذومعنی گفتگو، وہ سب جھیلنا سیکھ گئی تھی۔ مشکل اُس وقت پیش آتی، جب تین چار مزدور ایک ہی وقت میں دکان پر پہنچ جاتے اور آپس میں زور زور سے بات کرتے، بظاہر وہ سرسری باتیں کررہے ہوتے، مگر اُسے لگتا کہ اصل موضوع وہی ہے۔ ہر چند کہ اماں بھی ہروقت موجود ہوتیں، مگر شاید وہ اَن جانی مصلحتوں کے تحت جان بوجھ کر اَن جان بن جاتیں۔ کبھی ڈیپریشن حد سے بڑھتا، تو اُسے لگتا کہ اِس دنیا پر بس مَردوں کی حاکمیت ہے۔
عورتوں کے لیے فرماں برداری، فرائض کی بجا آوری ہی لکھی ہے، تو پھرعورت کےجسم میں دماغ کیوں رکھا گیا، اُسےعقل کیوں دی گئی۔ دل، احساسات وجذبات کیوں عطا کیےگئے؟ پھر وہ سوچتی کہ اللہ نے تو عورت و مرد کو بہترین نظامِ عدل پر پیدا کیا، لیکن معاشرے نے سب بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
کبھی اُسے لگتا کہ مرد دنیا کی مظلوم ترین مخلوق ہے، کم زور اور بےبس، جسے دنیا کے مقابلے کے لیے ظاہراً اپنے اوپر سختی کا خول چڑھانا پڑتا ہے، دوسروں پر رعب جمانا، دکھاوا کرنا پڑتا ہے اور پھر یہ اداکاری کرتے کرتے وہ واقعی پتھر بن جاتا ہے۔ وہ جب اپنے ابّا کو دیکھتی۔
اُن کی عُمر، محنت، ذمّےداریوں، مجبوریوں کا احساس کرتی تو دل بیٹھنے لگتا۔ اُن مزدوروں کا سوچ کر بھی کبیدہ خاطر ہوتی، جو پردیس میں اکیلے دن گن گن کر گزاررہے تھے۔ وہ اپنی امّاں کے لیے آزردہ ہوتی، جن کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کوخوش رکھنا تھا۔
اپنی پھوپھی کا خیال رنجور کرتا، جنہیں زندگی نے مسرت سے زیادہ دُکھ دیئے تھے اور…اُسے اپنے اوپربھی ترس آتا، جو اپنی زندگی اور خوشیوں کے لیے دوسروں کی محتاج تھی۔ اُسے لگتا، انسان اپنی جگہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی، جہاں بس چلتا ہے، ظالم بن جاتا ہے اور جہاں مجبور ہوتا ہے، مظلوم بن کرہم دردیاں سمیٹنے لگتا ہے۔
اُن دنوں جب وہ اپنی زندگی کےمشکل ترین وقت سے گزررہی تھی، ایک عرصے بعد شبانہ کی اچانک آمد بہت خوش گوار محسوس ہوئی۔ جب سے شبانہ اُسے اپنی منگنی کا بلاوا دے کر گئی تھی، اُسے خیال آرہا تھا کہ مجھ سے اچھی تو شبانہ ہی رہی۔ دونوں نے ساتھ ساتھ بی۔اے کیا تھا اور آگے بی۔ ایڈ کرکے ٹیچر بننے کا ارادہ تھا، مگر زینب کےابّا نے اجازت ہی نہ دی کہ خاندان کے لوگ باتیں بنائیں گے اور مجھے بیٹی سے نوکری تھوڑی کروانی ہے۔
وہ تو اُس کی، حمید سے شادی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ابّا کی بھی غلطی نہ تھی، اُن کی دلی خواہش اور تایا کے ذومعنی جملوں نے کہ’’زینب تو میری بیٹی ہے‘‘، ’’زینب کو تو اللہ نے ہمارے گھر رحمت کے لیے بھیجا ہے‘‘ اُن کے تخیّل میں مجسّم صُورت اختیار کرلی تھی، مگر جب تایا اچانک حمید کی شادی طے ہونے کی مٹھائی لے کر آئے، تو یہ بتاتے ہوئے خُوشی سے پھولے نہ سمائےکہ اُن کے واقف کار ٹھیکےدار بہرام کی بیٹی ناہید تو اُن کے گھر رحمت بن کر آرہی ہے۔ پڑھی لکھی، بینک میں نوکری کرنے والی۔
ساتھ اپنےسمدھی کا یہ عزم بھی دہرایا کہ ’’وہ اپنی بیٹی کی شادی ایسی دھوم دھام سے کرے گا کہ ساری بستی کو پتا چلے گا کہ شادی کہتے کسے ہیں۔ اُس نےحمید کو سیمنٹ، سریے کی ڈیلرشپ دلانے کا بھی وعدہ کیا ہے کہ فیکٹری کی برکت سے تعمیراتی کام بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘ امّاں، اُن کےجانےکےبعد ابّا کے سامنے تو صرف ’’شیخ چلی کہیں کے‘‘ کہہ کر چُپ ہوگئیں، اصل دل ہلکا تو اُنہوں نے رات کو بیٹی کے سامنے کیا۔ بےچارے ابّا تو دل کی دل ہی میں لےکررہ گئےتھے۔ سو، ایسی چُپ لگی کہ ڈھے سے گئے۔
واقعہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وقت گزرنے کے ساتھ صبرآہی جاتا ہے، مگر شاید ابّا اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہے تھے، تب ہی تو اُس سے نظر نہیں ملا پارہے تھے۔ وہ سمجھتی تھی کہ فیکٹری کی نوکری بھی اِسی کا ردِعمل ہے۔ ایک تو ابّا کو پیسے کی اصل اہمیت کا اندازہ اب ہوا تھا۔ دوم، وہ مصروفیت میں راہِ فرار ڈھونڈ رہے تھے۔ اُس نے سوچا کہ اِس پورے قضیے میں وہ کہاں کھڑی ہے کہ وہ تو بغیر کچھ کیےچور سی بن گئی ۔ حمید سےکوئی تعلقِ خاطر تو نہ تھا، مگراُسےحمید سے متعلق باتوں سے دل چسپی ضرور تھی۔ وہ شہزادہ گل فام نہ سہی، مگرٹپ ٹاپ میں رہتا۔
تائی اور بڑھاوا دیتیں کہ ’’میرا حمید توڈبل روٹی، مکھن کے بغیر ناشتا نہیں کرتا، انڈا ہاف فرائی کے بجائے فل فرائی ہوجائے، تو ہاتھ نہیں لگاتا، مجھے ہی سوارت کرنا پڑتا ہے۔‘‘ جب سے دبئی میں دو سال کے معاہدے پرکام کرکے پلٹا تھا، تو تایا نے اور سماں باندھا کہ ’’اُس کے جوتےتو ایسے چمکتے ہیں کہ شکل دیکھ لو، گھر سے نکلنے سے پہلے آدھا گھنٹہ اپنی موٹر سائیکل صاف کرتا ہے، نہا دھو کر چارلی پر فیوم لگائے بغیر صحن سے باہر نہیں جھانکتا، فضول لوگوں کے ساتھ وقت ضائع نہیں کرتا، کام سے کام رکھتا ہے۔ ماشاءاللہ! نظر نہ لگے۔‘‘ اوراُس نےاپنی بیان کردہ خصوصیات پر مُہر ثبت کر دی تھی۔ نظرٹھیک نشانے یعنی ٹھیکے دار بہرام کی بیٹی ناہید پرلگی تھی۔
اور اب جب حمید کو قصۂ پارینہ ہوئے پانچ ماہ ہو چُکے تھے۔ وہ سب سنبھل کرزندگی میں آگے بڑھنےکےجتن کررہے تھے، خصوصاً وہ اپنا دھیان بٹانے کے لیے صُبح کو دُکان میں مصروف رہتی یا پھر کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کرتی رہتی، تو شبانہ سے مل کرپرانی یادیں تازہ ہوگئیں، جب وہ اور شبانہ میٹرک میں تھیں اور امتحانات سے دو ماہ پہلے شبانہ کے بڑے بھائی نے ایک دن دونوں کو فزکس پڑھائی تھی اور خُوب ڈانٹا بھی تھا کہ اب خیال آیا ہے پڑھنے کا، اب تو اگر پاس بھی ہوجاؤ، تو بڑی بات ہوگی۔
زاہد بھائی نے تین چارگھنٹوں میں سارے اہم موضوعات مکمل کروادیئے تھے۔ اُس وقت اُن کے سخت رویے کی وجہ سے زینب سے زیادہ شبانہ کا مزاج برہم تھا، شاید اُسے دوست کی بےعزتی کا خیال ستا رہا تھا، لیکن سچ یہ ہے، اگر اُس دن زاہد بھائی اتنا نہ ڈانٹتے اورنہ پڑھاتے تو پاس ہونا ناممکن تھا۔ اُس دن زاہد بھائی کے کمرے سے جانے کے بعد شبانہ بولی۔ ’’یہ تو مسکرانے کے لیے ہونٹ بھی ورنیئر کیلیپر سے ناپ کر کھولتے ہیں۔‘‘ زینب نے کہا۔ ’’واقعی، اِن کارویہ تو روشنی کی دہری ماہیت یعنی ڈبل بی ہیویئرآف لائٹ کی طرح ہے، پتا چلانا مشکل ہے کہ موجوں کی صُورت میں ہے یا فوٹونز توانائی کے پیکٹس کی شکل میں سفرکررہے ہیں۔‘‘
دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئی جارہی تھیں۔ شبانہ بولی۔ ’’اور تو اور، جناب کی ساخت زمین کی طرح ہے۔ اوپر سے سخت ٹھوس اور سرد، جب کہ اندر سے پگھلا ہوا لاوا، جو کبھی کبھی ہم بےچارے شاگردوں پراُبلتا ہے۔‘‘ قہقہوں میں مگن وہ زاہد بھائی کے مخصوص انداز کی نقل کرتے ہوئے آئن اسٹائن کا نظریۂ اضافت دہرا رہی تھی کہ روشنی جو کائنات کی تیز ترین شےہے، اگر کوئی شےاس رفتارسے حرکت کرےتو کئی کلیے اس جسم پرناقابلِ عمل ہوجاتے ہیں، وقت رُک جاتا ہے، فاصلہ ختم ہوجاتا ہے، کمیت لامتناہی ہوجاتی ہے۔
اُنہیں بہت دیر میں احساس ہوا کہ زاہد بھائی کھڑکی میں کھڑے اُنہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ شرمندگی کے مارے زینب کی توآئندہ اُن کا سامنا کرنےکی ہمّت ہی نہ تھی۔ اُس کےبعدجب بھی دونوں مل کر پڑھتیں تو اُس صورتِ حال پر، جواب مضحکہ خیز معلوم ہوتی تھی، خُوب ہنستیں۔ زاہد بھائی کا ہونّق زدہ چہرہ نگاہوں کے سامنے آجاتا۔ ہر دفعہ رزلٹ کے بعد شبانہ گہری مسکراہٹ لیے کہتی کہ ’’زاہد بھائی تمہارا نتیجہ پوچھ رہے تھے۔‘‘ وہ ہنس کر جواب دیتی کہ ’’میٹرک میں صرف ایک دن پڑھایا تھا اور ہر سال میرا نتیجہ پوچھتے ہیں، مجھے تو اُن کےخوف ہی سے پاس ہونا پڑتا ہے۔‘‘ اور دونوں مل کر ٹھٹھا لگاتیں۔
زاہد بھائی خُود بھی کالج میں پڑھاتے تھے، اِسی لیے شبانہ کو بھی استانی بننےکامشورہ دیا۔ آخری پرچے والے دن وہ اچانک امتحانی مرکزشبانہ کو لینے آئے تو خلافِ توقع اُسے بھی براہِ راست کہاکہ’’بی۔اے تو کرہی لیا ہے، ذرا سی ہمّت اورکرو،تم بھی شبانہ کے ساتھ دوڈھائی سال میں بی۔ ایڈ کر کے استانی لگ جانا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے سہارا بھی رہے گا اور زندگی کا مقصد بھی مل جائے گا۔‘‘ اور وہ سوچے گئی کہ زندگی کے مقصد سے کیا مطلب؟ جواب میں اُس نے نظریں نیچے کرلیں کہ اوّل تو گھر سے اجازت نہیں ملےگی، دوسرے وہ زاہد بھائی سے بات کرتے گھبرا رہی تھی۔ اب تو اِس بات کو بھی تقریبا ایک سال بیت گیا تھا۔
اُس رات شبانہ کی منگنی پر بےوقت مرغّن بازاری کھانا کھانے سے اُس کے سینے میں جلن ہو رہی تھی۔ نیند آنکھوں سےکوسوں دُور تھی۔ وہ مستقل بسترپر کروٹیں بدل رہی تھی۔ آج مدّت بعد زاہد بھائی کو دیکھا تھا۔ وہ اُسے دیکھ کر شوخی سے مسکرائے اور قریب آ کر اس کی خیریت دریافت کی۔ پوچھا کہ ’’آگے کا کیا ارادہ ہے؟‘‘
یقیناً شبانہ نے حمید کا قصّہ اُنہیں بتا دیا ہوگا۔ زینب کے پاس خاموشی کے سوا جواب ہی کیا تھا۔ زاہد بھائی نے مونچھیں رکھ لی تھیں، جو اُن پر بھلی لگ رہی تھیں۔ وہ خُود ہی بولے جارہے تھے کہ ’’مَیں جارہا ہوں، مجھے اسکالر شپ مل گئی ہے، دو سال بعد واپسی ہوگی۔‘‘ وہ سمجھ نہ سکی کہ یہ باتیں اُسے بتانے کا مقصد کیا ہے۔
یقیناً اُنہوں نےزینب کا دماغ پڑھ لیا ہوگا، جب ہی تو بولے کہ ’’ایک تو تم ہر بات دیر سے سمجھتی ہو۔‘‘ شبانہ نے زاہد بھائی کو اُس سے باتیں کرتا دیکھ لیا تھا، تب ہی تو آنکھ مارتے ہوئے اُس کی کمر میں چٹکی لی تھی۔ شبانہ کی امّاں نے مہمانوں کی مصروفیت میں بھی اُس کی بلائیں لیں۔
ابّا نے بھی کہا کہ ’’بیٹی! آتی رہا کرو، تم تو نظر ہی نہیں آتیں، بس تمہارا ذکرہوتا رہتا ہے۔‘‘ مگر ایک سبق مل جانے کے بعد وہ دوبارہ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو سکتی تھی بلکہ اور زیادہ رنجیدہ ہوگئی۔ احساسِ زیاں شدت اختیار کرگیا، لگا کہ سب آگے جا رہےہیں اور وہ پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ پژمردہ سی ہوگئی۔ اُسے ہر چیز سے چِڑ ہورہی تھی۔ جب سر درد سے پھٹنے لگا تو بستر پر اُٹھ بیٹھی۔
بےزاری میں پانی پینے کا خیال آیا۔ شومئی قسمت! آج وہ اپنے خیالات میں گم پانی کا جگ اوپر لانا بھول گئی تھی۔ اس بات سےبھی جھنجھلا گئی کہ یہ گھر کتنا بےتُکا بنا ہے، نیچے تین کمرے تھے، جن میں سے ایک میں دکان، دوسرے میں امّاں، ابّا اور تیسرے میں وہ اور پھوپھی ہوتیں۔ گرمیوں میں جب نیچے کے کمرے تندور بنے ہوتے، تو وہ ہوا کی تلاش میں اوپر چھت پر بنے واحد کمرے میں آجاتی۔
وہ چھت سے گزر کر نیچےجانے کے لیے سیڑھیوں تک پہنچی، تو دُور سڑک پر مدقوق بلب کی پیلی پڑتی روشنی میں کوئی ہیولا سادکھائی دیا، کچھ صحیح اندازہ تو نہ تھا، مگر شاید چار ساڑھے چار کا وقت ہوگا۔ اماوس کی رات میں، چاند نے بھی دنیا سے گھبرا کر پردہ کرلیا تھا۔ اِس وقت کوئی کیوں یہاں سے گزرے گا؟ اس آدمی کے قریب آنے سے پہلے اُس کی آواز یہاں تک پہنچ گئی تھی۔ وہ بےفکرا اونچی آواز میں شاید کوئی پرانا گانا گا رہا تھا۔ زینب فوراً نیچے کو ہو کر سیڑھیوں ہی پردبک گئی کہ اُس مرد کی نظر زینب پر نہ پڑجائے۔
پہلا خیال تو یہ آیا کہ کوئی چور ہوتا تو اتنا شور مچاتے نہ گزرتا، مگر نہ جانے کیوں آواز دُور سے نزدیک آئی اور پھر وہیں ٹھہرگئی۔ ’’کیسا حسیں آسماں تاروں سے بھرا ہے… یہ عاشق تیری اداؤں پہ مَرا ہے۔‘‘ خیال کے ہلکے پن کو گمبھیر مردانہ آواز نے وزن دے دیا تھا۔ ایسا لگا کہ وہ راہ رو اُن کے گھر کے سامنے کھمبے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ کھمبے سے تال دینےلگا۔’’آسماں پرحسیں چاند اورتاروں کا جوڑا ہے…تجھے میرے لیے خدا نے نامکمل چھوڑا ہے۔‘‘
قافیے، ردیف کی ناپختگی کوسُراورسوز نے دبا دیا تھا۔ نہ جانےکس ترنگ میں وہ، اب یہ بےہودہ بول دہرائےجارہا تھا۔ ہر دفعہ الفاظ آگے پیچھے ہوجاتے، جیسے وہ خُود ہی شعرموزوں کر رہا ہو۔ زینب بری طرح پھنس گئی تھی۔ نہ واپس اوپر جا سکتی تھی اور نہ نیچے، اگر اپنی جگہ سے ہلتی تو یقیناً اُس آدمی کی نظراُس پر پڑجاتی۔
زینے کی بناوٹ ایسی تھی کہ سڑک پر موجود کوئی بھی شخص اُترنے یا چڑھنے والے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ یک بیک اُسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا کہ وہ اجنبی اُسے زینے پر دیکھ چُکا ہے، جب ہی تو ٹل نہیں رہا، پھر اِس خیال سے اُس کا دل بند ہونے لگا کہ یہ وہ آدمی تو نہیں، جس سے ہفتہ بھر پہلے ابّا کا فیکٹری میں جھگڑا ہوگیا تھا اور اُس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بڑے میاں! تمہارے گھر کا بھی پتا ہے اور دکان کا بھی۔‘‘ پھر یہ رُوح فرسا خیال آیا کہ شور سے پھوپھی یا امّاں، ابّا میں سے کوئی نہ جاگ جائے۔
وہ اس تصوّر ہی سے لرز اٹھی کہ اگر کسی محلےدارنےاِس وقت اُسے زینے پر دیکھ لیا توکیا ہوگا۔ جس طرح سُنا ہے کہ مرنے والے کے دماغ میں گزری زندگی کےاہم واقعات فلم کی طرح چلتے ہیں، ایسے ہی اس کا دماغ اس سمے گزرے، گزرتے اور آنے والے وقت پر مرتکز ہوگیا۔ ایک زمانہ اُس پر گزر گیا۔ اس کی بےبسی دُکھ، دُکھ، غصّے اور غصّہ، خوف میں بدلااورپھرخوف بےنیازی کی جانب گام زن ہوگیا۔
اِس سمے وہ زمان و مکان، عزت و ذلت، رسم و رواج کی حدود و قیود سے بے پروا ہوگئی تھی۔ وہ اپنی عزت، زندگی اور خوشی کے لیےدوسروں کے رحم وکرم پررہتے رہتے تھک گئی تھی۔ اُس کے دماغ میں وہ الفاظ گڈمڈ ہونے لگے، جو اُس نے آج صحن میں کپڑے دھوتے، جمعے کےخطبے میں سُنے تھے۔ آواز گو واضح نہ تھی، مگر کچھ جملے ہوا کے دوش پر سماعت سے ٹکرائے تھے، جن کا نیا مفہوم اِس لمحے اُسے سوجھا تھا۔
علاّمہ صاحب سورۂ احزاب کی آیت ستّر کی تشریح فرما رہے تھے، جس میں انسان کو ظالم اور جاہل بتایا گیا ہے کہ اُس نے’’امانت‘‘ کی ذمّے داری اُٹھا لی، جس کو اُٹھانے سے پہاڑوں، آسمانوں نے معذوری ظاہر کر دی تھی۔ خطیب صاحب نے کہا تھا کہ مختلف علماء نے امانت کی مختلف تشریح کی ہے۔ قرآن کے ہر لفظ اور ہر آیت کے سوسو معنی ہیں۔ ہر کوئی اپنی توفیق اورعقل کے مطابق مفہوم نکال سکتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ امانت سے مراد خلافت ہے، یعنی انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے،اِس میں عورت و مرد کی تخصیص نہیں۔
کہیں پڑھا ہوا یہ نکتہ ذہن میں آیا کہ وہ قدرت رکھنے والی ذات بےنیاز بھی ہے۔ باری تعالی نے اپنی صفات انسانوں کوبھی ودیعت کی ہیں۔انسان اُس کی دی ہوئی استطاعت کےمطابق حُکمِ الہی سےاُس کی صفات کا مظہر بن سکتا ہے۔ اس لحظہ یہ خیال اُس کےدماغ میں جاگزیں ہوا کہ اللہ نے اُسے اپنی صفات عطا کرکے اپنا خلیفہ بنا کر جو امانت سونپی ہے، وہ امانت وہ خُود ہے، جس کی ذمّے داری اُٹھانے کا عہد اُس نے کیا ہے۔
روشنی کا ایک جھماکا سا ہوا، کوئی رَو بہتی چلی گئی اوراُس لمحے وقت رُک گیا، فاصلہ صفر تھا، اُس کی ذات پوری کائنات پر محیط تھی، وہ منقلب ہوچُکی تھی۔ اِس لطیف فضا میں اس کا تشنّج زدہ جسم پُرسکون ہوگیا، وہ یک سُو ہوکر فیصلے پر پہنچ چُکی تھی۔ وہ نااُمیدی وناکامی کے خلاف مزاحم ہونے کی طاقت پاچُکی تھی۔ اماوس کی تاریک رات کے بعد ٹھنڈی پھوار اُس کے دل اور رُوح کو قرار بخش رہی تھی، جسے اُس نے تائیدِ ایزدی جانا۔ کچّی مٹی کی فرحت انگیز خوشبو نے جیسے اُس کے خوابیدہ دماغ کو بےدارکردیا تھا۔ ہولے ہولے چلتی بادِ صبا اُس کا شانہ ہلا کر اُسے اُمید کے ایسے چمن زارتک لےآئی تھی، جہاں سیاہ آسمان پراُفق سےامڈتی رُوپہلی سپیدی نے گگن کوایک البیلا نیلا رنگ دیا تھا۔