• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم ہاؤس کا شاندار کمرہ، گہرے نیلے رنگ کا قالین، کشادگی کا احساس دینے والی کھڑکیاں اور میز مکمل آلہ جات سے آراستہ، دیوار پر لگے قومی پرچم اور قائد اعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھے وزیراعظم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ میرے سامنے سنگاپور میں مقیم ملک کی ایک معروف کاروباری شخصیت نے چیک بک نکالی اور ایک لاکھ ڈالر کا چیک وزیراعظم کو انکے چیریٹی مقاصد کیلئے پیش کیا۔ وزیراعظم مسکرائے، چیک کو بغور دیکھا اور بڑے فخر سے بولے:یہی وجہ ہے کہ میں اوورسیز پاکستانیوں سے محبت کرتا ہوں، وہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

محفل میں موجود وہ اوورسیز کاروباری شخصیت، سنگاپور سے آئے عبداللطیف صدیقی تھے —ایک خاموش، نفیس اور پروفیشنل انداز میں بولنے والے شخص، جو شپنگ انڈسٹری میں ایک معتبر نام رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا:جی عبداللطیف صاحب، آپ بھی بتائیں، آپ پاکستان کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

یہ سوال صرف رسمی نہیں تھا —یہ وہ لمحہ تھا جب اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، ایک بوسیدہ شعبے کی بحالی، اور ہزاروں نوجوانوں کو روزگار دینے کا دروازہ کھل سکتا تھا۔عبداللطیف صدیقی نرم لیکن پر اعتماد لہجے میں بولےمیں سنگاپور میں سولہ مرچنٹ نیوی کے جہاز مینج کرتا ہوں۔ کم عملہ، مؤثر نظام، اور کامیاب منافع بخش آپریشن۔ لیکن جب میں پاکستان کے PNSC کو دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے۔ صرف نو جہاز، ہزاروں ملازمین، اور مستقل خسارہ۔لطیف صدیقی نے بتایا اس وقت پاکستان صرف سی فریٹ کی مد میں سالانہ پانچ ارب ڈالر غیر ملکی شپنگ کمپنیوں کو ادا کرتا ہے اگر پاکستان کے پاس اپنے جہاز ہوں تو پانچ ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔کمرے میں خاموشی تھی۔ عبداللطیف صدیقی نے اپنی بات جاری رکھی:میرے پاس ایک منصوبہ ہے —پاکستان کے لیے پچاس مرچنٹ نیوی کے جہاز، تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، ہزاروں افسران اور ٹیکنیکل اسٹاف کے لیے باعزت روزگاراور پاکستانی فلیگ شپ کی عالمی سطح پر واپسی۔

لیکن جیسے ہی یہ بات اختتام کو پہنچی، وزیراعظم اچانک فون کی طرف متوجہ ہوئے فون اٹھایا اور بولے میری سول خفیہ ادارے کے چیف سے بات کرائیں، بات چیت کے دوران وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایم این اے کے حوالے سے خفیہ رپورٹ طلب کررہے تھے، تھوڑی دیر بعد جب فون بند ہوا، تو وزیراعظم نے نرمی سے کہا:جی لطیف صاحب، پلیز آپ جاری رکھیں۔

لطیف صدیقی نے دوبارہ اپنی بات شروع کی ہی تھی کہ کچھ ہی لمحے بعد ایک اور کال آگئی اس دفعہ وزیر اعظم صاحب نے کے پی کے ایک ایم پی اے کے حوالے سے خفیہ رپورٹ طلب کی اور بات ختم کرتے ہی لطیف صدیقی سے اپنی بات جاری رکھنے کا کہا، یہ منظر بار بار دہرایا گیا —ہر بار جب بات پاکستان کی معیشت، سرمایہ کاری اور روزگار پر آتی، وزیراعظم کا دھیان کسی اور طرف چلا جاتا۔ کبھی کسی ایم این اے کی رپورٹ، کبھی کسی مخالف پر دھیان، اور جب آخرکار ملاقات کا وقت ختم ہوا، تو بس رسمی جملے رہ گئے:جی لطیف صاحب یہ شاندار پروپوزل ہے اسکو آپ شپنگ کے وزیر سے آگے بڑھائیں۔لیکن نہ وزیر نے آگے بڑھایا، نہ لطیف صدیقی کو دوبارہ بلایا گیا، اور نہ ہی وہ خواب حقیقت بن سکا۔

یہ واقعہ وزیراعظم عمران خان کے دور کا ہے —ایک ایسا دور جہاں ملک کے معاشی ستونوں کو مضبوط کرنے کے بجائے اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ، خفیہ رپورٹس اور میڈیا بیانیہ کنٹرول کرنا ترجیح بن چکا تھا۔ اوورسیز پاکستانی بار بار وطن واپس آتے، خواب لے کر، سرمایہ لے کر، مگر نظام انہیں جذب کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ عمران خان، جو ہر تقریر میں اوورسیز پاکستانیوں کو ملک کا سرمایہ کہتے، دراصل انہیں عملی مواقع دینے میں ناکام رہے۔وقت گزرا، حکومت بدلی، اور اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔

اسی عبداللطیف صدیقی نے ایک بار پھر ہمت کی اور پاکستان لوٹے۔ اس بار ماحول مختلف تھا۔ وفاقی وزیر برائے بحری امور جنید انور نے نہ صرف ملاقات کی، بلکہ پورا پروپوزل سنا، سوالات کیے، اور فالو اپ کا وعدہ کیا۔ کچھ ہی ہفتوں میں وزیراعظم شہباز شریف نے شپنگ سیکٹر کی بحالی کے لیے نئی پالیسی گائیڈ لائنز جاری کر دیں۔

اب نہ صرف یہ منصوبہ فائلوں سے نکل کر عملی مراحل میں داخل ہو چکا ہے بلکہ متعلقہ ادارے اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ وزارت خزانہ، وزارت بحری امور اور اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کے درمیان کوآرڈنیشن بھی بڑھا ہے۔جہاں عمران خان کا دور سیاسی پولرائزیشن اور‘‘خفیہ رپورٹس’’کی نذر ہوا، وہیں شہباز شریف کی حکومت عملیت پسندی، ٹیم ورک اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو ترجیح دے رہی ہے۔

یقیناً، پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے پالیسی تسلسل، اعتماد، اور کاروباری طبقے کو اعتماد دینا ضروری ہے۔ اگر شپنگ سیکٹر میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ممکن ہو گئی، تو پاکستان نہ صرف فریٹ میں خودکفیل ہوگا بلکہ ہزاروں نوجوان جو بحری تعلیم کے بعد بے روزگار ہیں، انہیں نوکریاں ملیں گی اور ملک کا امپورٹ بل بھی کم ہوگا۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ قومی ترقی جلسوں، نعرے بازی، اور الزامات سے نہیں، بلکہ میٹنگ رومز میں کیے گئے فیصلوں، سنجیدہ رویے، اور کاروباری پیشکشوں کو عزت دینے سے ہوتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی ہوا، جو شہباز حکومت کے ساتھ آئی ہے، صرف امید ہے یا حقیقت کا آغاز۔

تازہ ترین