بھارت کے پروردہ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے دہشت گرد ویسے تو ایک عرصے سے پاکستان میں بم دھماکوں، خود کش حملوں اور قتل و غارت کی دوسری مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہیں مگر مقبوضہ کشمیر میں پہلگام واقعہ کے بعد ایک منظم منصوبے کے تحت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انہوں نے تخریب کاری کی وارداتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اس سلسلے میں ان کا خصوصی نشانہ ہے جہاں کے چند شرپسند سردار زادے بیرون ملک بیٹھ کر بھارت سے وصول کئے جانے والے سرمائے اور اسلحے سے ان کی مدد کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی وزارت داخلہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے 6ماہ کے دوران دہشت گردی کے ایسے 501واقعات میں 133اہلکاروں سمیت 257بے گناہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ 238 اہلکاراور 492 عام شہری زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں 45فیصد اور آبادکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اعدادوشمار 30 جون تک کے ہیں جبکہ ژوب کے قریب دو بسوں پر حملے میں 9مسافروں کا قتل انکے علاوہ ہے جن کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد ان کا پنجاب سے تعلق ثابت ہونے پر انہیں اغوا کرکے پہاڑوں میں لیجایا گیا اور گولیاں مار کر ان کی لاشیں وہیں پھینک دی گئیں۔ بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں یہ اپنی نوعیت کا سب سے لرزہ خیز واقعہ ہے۔ عام طور پر ایسا صرف بلوچ علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف زیادہ سرگرم ہیں جبکہ پشتون علاقوں میں لوگ پرامن اور تخریب کاری سے دور ہیں۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ عوام خصوصاً آباد کاروں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے سیکورٹی کے انتظامات مزید موثر بنائے جائیں۔