• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ اگست: فیصلہ کن احتجاج یا وقتی مصلحت؟

تحریک انصاف، جو کبھی سڑکوں پر عوام کا سیلاب لا کر نظامِ وقت کو ہلا دینے کی طاقت رکھتی تھی، آج ایک ایسے دو راہے پر کھڑی ہے جہاں نہ وہ پیچھے ہٹ سکتی ہے، نہ آگے بڑھنے کا حوصلہ باقی ہے۔ پانچ اگست کا اعلان کردہ احتجاج، جو بظاہر اپنے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے ہے، حقیقت میں پارٹی کی اپنی بقا کی آخری کوشش معلوم ہوتا ہے۔

فیملی ذرائع کے مطابق عمران خان نے حالیہ دنوں اپنی بہن علیمہ خان سے ملاقات میں شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خیبرپختونخوا کی حکومت اور اسمبلیوں میں بیٹھے ان کے منتخب ارکان ان کی رہائی کے لیے عملی اقدامات نہیں کر سکتے تو ان سے استعفے لے لیے جائیں۔ یہ بات معمولی نہیں۔ یہ وہ صدا ہے جو ایک لیڈر اس وقت بلند کرتا ہے جب اسے اپنے ہی قریبی حلقے کی خاموشی چبھنے لگے، جب وہ محسوس کرے کہ جس کارواں کو وہ قافلہ سالار سمجھتا رہا، وہ بکھر چکا ہے۔پانچ اگست کے احتجاج کا مقام لاہور منتخب کیا گیا، ایک ایسا شہر جو تحریک انصاف کے لیے ماضی میں طاقت کا مظہر رہا ہے، مگر آج یہی شہر پارٹی کی آزمائش گاہ بننے والا ہے۔ کیا یہ احتجاج صرف عمران خان کی ناراضی کم کرنے کی ایک کوشش ہے؟ یا واقعی اس سے کچھ نتیجہ اخذ کرنے کی امید کی جا رہی ہے؟ اگر ماضی کی روشنی میں حال کا جائزہ لیں تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ احتجاج بھی اسی طرز پر کیا جا رہا ہے جسے ہم ’’فیس سیونگ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ایک ایسا احتجاج جو صرف یہ تاثر دینے کے لیے ہو کہ پارٹی متحرک ہے، چیئرمین کے ساتھ کھڑی ہے، مگر درحقیقت یہ کوئی مؤثر دباؤ پیدا نہیں کر سکے گا۔

پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت کئی سمتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اب بھی عمران خان کو دیوتا سمجھ کر پوجتے ہیں، اور دوسری طرف وہ رہنما ہیں جو یا تو پسِ پردہ معذرت خواہ ہیں، یا مفاہمت کی کوششوں میں لگے ہیں، یا مکمل خاموشی اختیار کر چکے ہیں تاکہ آنیوالے کسی ممکنہ سیاسی سیٹ اپ میں جگہ بچی رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کل تک ہر اسٹیج پر سب سے آگے کھڑے ہوتے تھے، اور اب گرفتاری کے خوف سے چھپے بیٹھے ہیں۔ ان کی موجودہ پوزیشن صرف ایک چیز کی وضاحت کرتی ہے: یہ سیاست اصولوں پر نہیں، مصلحتوں پر مبنی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت، جس سے عمران خان کی سب سے زیادہ امیدیں وابستہ تھیں، وہ بھی عملی طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔ وہ نہ عوامی سطح پر متحرک ہے، نہ مرکز سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہے۔ اب وہ ایک ایسی علاقائی حکومت بن چکی ہے جس کی تمام توانائیاں انتظامی معاملات اور اپنی بقا پر مرکوز ہیں۔ یہ حکومت عمران خان کے لیے کچھ نہیں کر سکی، اور اب احتجاج کا بوجھ بھی پنجاب پر ڈال دیا گیا ہے، جہاں پارٹی پہلے ہی زیرِ عتاب ہے۔ لاہور کا انتخاب اس تناظر میں دلچسپ ہے کہ جہاں پارٹی سب سے زیادہ کمزور ہے، وہیں سے احتجاج کی ابتدا کی جا رہی ہے۔ کیا یہ واقعی ایک سیاسی حکمت عملی ہے یا صرف ایک علامتی اعلان؟

حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کی اندرونی حالت دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ نظریاتی کارکنوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے، فیصلہ سازی کے تمام اختیارات چند ہاتھوں میں سمٹ چکے ہیں، اور جو باقی ہیں وہ صرف وقت گزاری میں لگے ہیں۔ ایسے میں احتجاج کس بنیاد پر کیا جا رہا ہے؟ نہ کارکن متحرک ہیں، نہ تنظیمی ڈھانچہ فعال ہے، نہ ہی کوئی بیانیہ باقی رہ گیا ہے جو عوام کو سڑک پر لا سکے۔

سوشل میڈیا پر ہنگامہ خیز مہمات، فرضی انقلابی ترانے، اور ٹرینڈز سے اب عوام متاثر نہیں ہوتے۔ لوگ اب زمینی حقیقت کو دیکھتے ہیں، نتائج مانگتے ہیں، اور سوال کرتے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت صرف نعرے بازی تک محدود ہے۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہے کہ احتجاج کی کال دینے والے خود کن کن محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صرف اس وقت میدان میں آتا ہے جب سب کچھ محفوظ ہو۔ اور جب وقت آتا ہے قربانی دینے کا، تو کارکنوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔

یہ احتجاج ایک اور وجہ سے بھی سیاسی خطرہ ہے۔ اگر یہ ناکام ہوا، اگر لوگ باہر نہ نکلے، اگر اس کا اثر میڈیا پر نہ آیا، تو یہ عمران خان کی قیادت کے لیے بھی ایک چیلنج بن جائے گا۔ سوال اٹھایا جائے گا کہ کیا عمران خان واقعی وہی رہنما ہیں جو ایک پوری قوم کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں؟ یا اب وہ صرف اپنے اردگرد کے چند مخصوص لوگوں کے نرغے میں قید ایک شخصیت بن چکے ہیں؟ یہ سوال پارٹی کے مستقبل کا تعین کرے گا۔اب آتے ہیں اس نکتے پر جس سے ہر کوئی گریز کرتا ہے۔ کیا واقعی عمران خان اب بھی ایک اجتماعی سیاسی تحریک کی قیادت کے اہل ہیں؟ کیا ان کی پالیسیز، فیصلے، اور طرزِ قیادت نے پارٹی کو آگے بڑھایا یا تنہائی کے گڑھے میں دھکیل دیا؟ ۔

اب جب وہ قید میں ہیں، تو پوری پارٹی بھی قید دکھائی دیتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی کبھی ادارہ بنی ہی نہیں، صرف ایک شخصیت کا سایہ رہی۔

پانچ اگست کا احتجاج صرف ایک دن کی سرگرمی نہیں، یہ تحریک انصاف کی مجموعی ساکھ، اس کی سیاسی حکمت عملی، اور اس کے مستقبل کا امتحان ہے۔ اگر یہ احتجاج محض ایک رسم بن کر رہ گیا، اگر یہ بھی سوشل میڈیا پر چند پوسٹوں اور یوٹیوب چینلز کے بیانات میں محدود ہو گیا، تو پھر یہ نہ صرف ایک احتجاج کی ناکامی ہو گی بلکہ اس تحریک کے اختتام کا آغاز بھی ہو سکتا ہے، جس نے کبھی ’’نیا پاکستان‘‘کا خواب بیچا تھا۔

تازہ ترین