• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عقیدہ پختہ ! مملکت خدادادکے تین ستون،’’حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ‘‘ ۔ تکلف برطرف ستون ایک ہی ، باقی دو خانہ پُری ، آرائش و زیبائش کیلئے کہ ضرورتاً نمائش جاری رہے ۔ اگرچہ آئین موجود مگر عزتِ سادات سے محروم ، نتیجتاً پارلیمان اور عدلیہ کا انحصار’’ایک ستون ‘‘ کے مضبوط کندھوںپر ہے ۔’’ایک ستون‘‘ قابلِ رشک کہ ’’ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘ ۔ جنرل باجوہ کا اعزاز کہ بغیر مارشل لا آئین و جمہوریت کی موجودگی میں وہ کچھ حاصل کیا جوپیشرو جرنیل مارشل لا کے باوجود حاصل نہ کر پائے ۔

بلاشبہ سانحہ 9 مئی ایک سیاہ باب ، پُرہجوم اشتعال انگیزیوں ( Mob Violance ) ، قتل و غارت ، جلاؤ گھیراؤ ، توڑ پھوڑ جیسے پُرتشدد واقعات سے وطنی تاریخ بھری ہے ۔ 9 مئی منفرد کہ پہلی دفعہ فوجی تنصیبات اور چھاؤنیوں پر حملہ ہوا ۔ کلی ذمہ داری عمران خان پرعائد کہ ڈیڑھ سال اپنی تقریروں و بیانات میں عسکری قیادت کو نشانے پر رکھا ۔ درجنوں جلسے کئے ، کارکنان کو اُکسایا بھڑکایا حلف لئے، ’’امر بالمعروف‘‘ کے نام پر جہاد اکبر کا اعلان ہوا ، مقصد ! راولپنڈی پہنچ کر ایک لیفٹیننٹ جنرل کی ممکنہ آرمی چیف تعیناتی رُکوانا تھی ۔ 9 مئی انصافی کارکنان کا فطری ردِعمل تھا ۔ خبر ملتے ہی فریفتگی وارفتگی میں PTI کارکنان دیوانہ وار چھاؤنیوں اور فوجی تنصیبات کی جانب پلک جھپکتے لپکے ۔ مزید خرابی ! 13 مئی عمران خان لاہور پہنچے تو احمقانہ اقراری بیان دے ڈالا ،’’ اچھا گرفتار تم ( فوج ) کرو اور ہم احتجاج وزیراعظم ہائوس کے باہر کریں‘‘،’’ تم ( فوج ) پھر گرفتار کرو گے تمہارے ( فوج ) ساتھ پھر یہی سلوک ہوگا‘‘ ۔ عمران خان کا’’ بعد ازخرابی نیک خیال‘‘ کہ سب کچھ ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے ، ’’دیر کردی مہرباں آتے آتے‘‘ ۔ 70 کی دہائی میں بنفس نفیس بھرپور سیاسی ایکٹوسٹ رہا ہوں ، کبھی غلط فہمی نہ تھی کہ خفیہ ایجنسیاں بقدرجُثہ قدم بقدم ہماری صفوں میں موجود تھیں ۔ ایسے موقع پر ایجنسیاں موجود نہ ہوں تو یہ انکی نااہلی اور کوتاہی ہوگی ۔ ہمارے وقت بھی جب کبھی جلاؤ گھیراؤ ، توڑ پھوڑ میں کوئی کمی بیشی رہ جاتی تو کمال مہارت سے ایجنسیاں پورا کر دیتیں ، اسکے عوض پولیس سے نہ صرف ہڈیاں ٹوٹتیں بلکہ جیل بھی نصیب بنتی ۔عمران خان کا عسکری قیادت پر تنقید میں ہر حد پھلانگنا اضطراری یا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ، مجھے معلوم نہیں۔ 9مئی باقاعدہ کسی پلاننگ کا شاخسانہ یاPTIورکرز کا لااُبالی پن اور نالائق حکمت عملی ، دونوں صورتیں ناقابل یقین ہیں ۔ قرین ازقیاس ! بہت کچھ جنرل فیض حمید کے فیوض و برکات ، دامے درمے سخنے دستیاب رہے ہونگے ۔ ایک سچ اور بھی ، مملکت خداداد کی موجودہ ناگفتہ بہ حالت زار ، سیاسی عدم استحکام اور عدالتی ابتری کی کلی ذمہ داری آج کے ستون پر ڈالنی صریحاً زیادتی ہوگی ۔وطنی حالات زندگی 7 دہائیوں کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہیں ۔

7 دہائیوں سے جلاؤ گھیراؤ ، قتل و غارت میں ملوث ہجوم سے نبٹنے میں پولیس ہمیشہ کامیاب رہی۔ بالفرض محال ! ایسا ہجوم کنٹرول سے باہر ہو جائے تو آئین کا آرٹیکل 245 موجود ، وفاقی حکومت لا اینڈ آرڈر کیلئے فوج بلا سکتی ہے ۔ پہلی دفعہ ایسی بدعت کا سامنا بھی، جلاؤ گھیراؤ ، توڑ پھوڑ میں ملوث سویلین کی گوشمالی کا عدالتی نظام فوج کے حوالے کر دیا گیا ہو ۔سانحہ 9 مئی میں ملوث سویلین کوفوجی عدالت کے حوالے کرنا وطنی آئینی تاریخ کا ایک انہونا واقعہ ہے ۔ ورطہ حیرت ! 105 افراد کا ملٹری ٹرائل ہوا ، 1 سے10 سال تک کی سزائیں سنائی گئیں۔ ڈیڑھ سال سے لکھے فیصلے کی کاپی آج بھی دستیاب نہیں ۔ میرا بیٹا بیرسٹر حسان خان ایسے ہی ایک فوجی عدالت سے 10 سال قید بامشقت کی سزا پا چکا ہے ۔ قطع نظر کہ اس پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ جس کسی نے سزا سنائی ، ذاتِ باری تعالیٰ کے سامنے اسکو جواب دینا ہے ۔ پارلیمان اور عدلیہ کا 26ویں آئینی ترمیم کی آڑ میں آئین پاکستان کی ایسی درگت بنانا ، الامان الحفیظ! آرٹیکل 10(a) آج ابدی نیند سو چکا ۔

پُرہجوم ہنگاموں کی ایک وطنی تاریخ ، عرصہ دراز سے ملکی عدالتی نظام اس میں ملوث افراد کو انجام تک پہنچا چکا ہے ۔ سوال ! کیا سپریم کورٹ کا اپنے ماتحت عدالتی نظام سے اعتماد اُٹھ چکا ہے ؟ ہنگاموں میں ملوث ملزمان کیلئے ملٹری کورٹس کی خدمات کیونکر لی گئیں ؟ 10 ہزار افراد پر FIR میں ایک ہی قسم کی فردجرم عائد، 10ہزار میںسے105 ملزمان کا ملٹری ٹرائل کس اصول اور بنیاد پر کیا گیا ؟ بیرسٹر حسان خان کو تو کسی ماتحت عدالت میں کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا ، بھاڑ میں جائے مملکت کے شہری کا آئینی و قانونی تحفظ ؟ آرمی ایکٹ کی بنیادی ضرورت ریاست کیخلاف سازش یا جاسوسی ایکٹ ہے ،105 ملزمان پر کیسے فٹ ہوتا ہے؟ کسی طور آرٹیکل 245 کے تحت سویلین DISORDER میں آئین فوج پر انحصار کی اجازت دیتا ہے ، کیا کسی ایسے ہی DISORDER پر ماتحت عدالتی نظام کو بھی ناکافی سمجھا گیا کہ آئینی تجاوز ضروری جانا گیا ؟ جمہوری سبق ! ریاست کے چار ستون’’مقننہ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور آزاد پریس‘‘، میری زندگی کا مشاہدہ یکسر مختلف کہ ریاست کو ہمیشہ تین ستونوں پر کھڑے پایا ۔ 2 ستون ہمیشہ سے شکستہ و کمزور ، کئی دفعہ ڈھائے گئے ، نڈھال رہے مگر ریاست اس بنا قائم دائم کہ’’ایک ستون‘‘ماشاء اللہ بہت مضبوط بلکہ ناقابل تسخیر ، ہمیشہ ریاست کو محفوظ بنایا ۔ آج مجھے اس’’ایک ستون‘‘ کی فکر لاحق ، اسکی مضبوطی کو قائم رکھنا ہے کہ یہی’’ ایک ستون‘‘ریاست پاکستان کی بقاکی ضمانت ہے۔

72 سالہ وطنی تاریخ گواہ ، مملکت میں ہر نظام کی ایک شیلف لائف اور EXPIRY تاریخ رہی ہے ۔ جب کبھی اقتدار دھڑام ہوا ، مقتدرہ کو کانوں کان خبر نہیں تھی ۔ اسی پیرائے میں ایک مختصر تاریخی کمال واقعہ ! 22 اپریل 1986 کی رات میں اور جناب مجیب الرحمان شامی آرمی ہاؤس راولپنڈی میں صدر جنرل ضیاء الحق کی خدمت میں حاضر تھے ۔ گفتگو کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ شامی صاحب برجستہ گویا ہوئے ،’’ جنرل صاحب !کیا آپکو معلوم ہے کہ اب جبکہ آپکے اقتدار کا زوال شروع ہوچکا ہے ؟ آپ نے امابعد اقتدار کا بھی کوئی بندوبست سوچ رکھا ہے ؟‘‘جنرل ضیاء نے مخصوص انداز میں قہقہہ لگا کر شامی صاحب کو میوہ جات پیش کرتے ہوئے حسب معمول سنجیدہ گفتگو کو ہلکا پھلکا بنایا !’’ شامی صاحب ! تاریخ کا سبق !اقتدار میں بیٹھے شخص کو کبھی زوال کی نہ خبر نہ فکر ، بندہ ہمیشہ یہی سمجھتا ہے کہ ابھی مجھے عروج آنا باقی ہے‘‘ ۔ 70 سال سے جس ستون کے سہارے مملکت قائم دائم ہے ، مجھے اس ستون کی مضبوطی چاہیے کہ باقی دونوں ستون عملاًزمین بوس ہوچکے ہیں ۔ عزیز ہموطنو ! آؤ ہم سب ملکر دعا کریں ، اللّٰہ تعالیٰ اس’’ ایک ستون ‘‘ کو مضبوط و توانا رکھے کہ ’’ ایک ستون ‘‘باقی تو مملکت باقی ، الحکم للّٰہ! الملک للّٰہ!

تازہ ترین