9 مئی کے حملوں سے متعلق فیصلے آخرکار دو سال گزرنے کے بعد آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان حملوں میں شریک دیگر افراد کے علاوہ تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو دس دس سال قید کی سزائیں دی جا چکی ہیں، البتہ شاہ محمود قریشی اور کچھ دیگر افراد کو عدالت نے باعزت بری کر دیا۔
تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ یہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث مجرموں کو بہت پہلے سزا مل جانی چاہیے تھی۔ اس وقت بھی 9 مئی سے متعلق کئی مقدمات زیر سماعت ہیں، جن میں عمران خان، تحریک انصاف کے دیگر کئی رہنماؤں اور سینکڑوں کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے چند ماہ قبل تمام متعلقہ عدالتوں کو ان مقدمات کے فیصلے چار ماہ میں کرنے کی ڈیڈلائن دی تھی، جو 8 اگست کو پوری ہو رہی ہے۔ اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران 9 مئی سے متعلق اکثر مقدمات کے فیصلے سامنے آ جائیں گے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ان میں اکثریت کو سزائیں سنائی جائیں گی، جس کے نتیجے میں نہ صرف عمران خان کو طویل عرصے کے لیے جیل میں رکھا جا سکے گا بلکہ پارٹی کو سیاسی طور پر بھی شدید نقصان پہنچے گا، کیونکہ اس کے کئی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی ان مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قائدِ حزبِ اختلاف گزشتہ روز عدالتی فیصلے کے بعد سزا یافتہ قرار دیے گئے اور اُنہیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کو بھی 9 مئی کے مقدمات کا سامنا ہے۔
اگر اُنہیں بھی سزائیں سنائی جاتی ہیں تو پارلیمنٹ کے اندر تحریک انصاف کو مزید نقصان ہوگا۔ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی مقدمات کا سامنا ہے، اور اگر اُنہیں سزا ہوئی تو صوبے میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں اور پارلیمانی ارکان کو ان خطرات کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسی لیے اُن کا خیال تھا کہ گزشتہ تین سالوں میں جاری تحریک اور احتجاج، جس نے پارٹی کو نقصان اور مشکلات کے سوا کچھ نہیں دیا، کی بجائے حکومت سے مذاکرات کیے جائیں۔
لیکن خان صاحب نے اس رائے کو مسترد کر دیا۔ پہلے تو اُنہوں نے کہا کہ مذاکرات صرف فوج سے ہوں گے، اور جب فوج کی طرف سے کسی دلچسپی کا اظہار نہ ہوا تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ اب کسی سے بھی مذاکرات نہیں ہوں گے، صرف اور صرف احتجاج ہوگا اور تحریک چلائی جائے گی۔
اُنہوں نے اپنی جماعت کے کسی بھی رہنما کی بات نہ سنی اور واضح طور پر کہا کہ احتجاج اور تحریک کا نقطۂ عروج 5 اگست کو ہوگا آج کی صورتحال یہ ہے کہ نہ احتجاج نظر آ رہا ہے نہ تحریک کا کوئی وجود دکھائی دے رہا ہے، اور کسی کو یہ اندازہ نہیں کہ 5 اگست کو کہاں سے اور کیسے انقلاب لایا جائے گا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف مسلسل غلطیوں پر غلطیاں کر رہی ہے، اور اس کے نتیجے میں نہ تو اسے کچھ حاصل ہو رہا ہے اور نہ ہی اس کی مشکلات میں کوئی کمی آ رہی ہے۔ بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ تحریک انصاف بتدریج غیر متعلقہ اور بے اثر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کو اس وقت نہ ادھر کی رہی نہ اُدھر کی رہی والی صورتحال کا سامنا ہے۔