• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔ ایسا پہلے بھی ہو چکاہے ۔ 22 ؍جولائی رات ساڑھے دس بجے کے قریب لاہور کی ایک عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو دس دس سال قید کی سزائیں سنائیں اور سراسیمگی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ مجھے ایک غیر ملکی ڈپلومیٹ نے رات گیارہ بجے فون کیا اور پوچھا کہ پاکستان کی عدالتیں اتنی رات گئے اپوزیشن کے رہنماؤں کو سزائیں کیوں سنا رہی ہیں ؟ سفارتکار نے پوچھا کہ اتنی بھی کیا ایمر جنسی ہے ؟ اس سوال کا ایک تفصیلی جواب میرے پاس موجود تھا لیکن میں نے سوچا کہ تفصیل میں چلا گیا تو مزید سوالات ہوں گے ، بات لمبی ہو جائے گی ۔ لہذا میں نے جان چھڑانے کیلئے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔ پاکستان کی عدالتیں ماضی میں بھی رات گیارہ بجے اور کبھی کبھی بارہ بجے کھولی جاتی رہی ہیں اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو سزائیں سناتی رہی ہیں ۔ یہ سُن کر سفارتکار چونک گیا ۔

اس نے انگریزی میں کہا ’ناقابل یقین ‘۔پھر کہنے لگا اسکی پاکستان میں پوسٹنگ صرف ڈیڑھ سال پہلے ہوئی ہے لہذا اُسے اس قسم کی غیر معمولی عدالتی تاریخ کا پتہ نہیں ہے ۔ اُس نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے ماضی کی کوئی مثال دے سکتے ہیں جب رات کے گیارہ بجے عدالت نے کسی سیاستدان کو دس سال قید کی سزا سنائی؟ اس سوال نے مجھے جھنجلا ہٹ کا شکار کر دیا کیونکہ میں اس سفارتکار سے لمبی بات کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔

وجہ یہ تھی کہ تھوڑی دیر پہلے بزرگ سیاستدان میاں محمد اظہر کے انتقال کی خبر ملی تھی اور میں کافی رنجیدہ تھا۔ گزرے وقتوں سے ان کیساتھ کافی اٹھنا بیٹھنا رہا تھا۔ ملال یہ تھا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی کرچکے تھے لیکن 9؍مئی 2023ء کے بعد جب ان کے برخوردار حماد اظہر کیلئے مشکلات شروع ہوئیں اور اسے فروری 2024ء کا الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تو میاں محمد اظہر سیاست میں واپس آگئے۔ الیکشن تو جیت گئے لیکن بیٹے کی مشکلات کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار رہنے لگے وہ قومی اسمبلی میں زیادہ نہیں بولتے تھے۔ اکثر خاموش رہتے۔ میئر لاہور اور گورنر پنجاب کے طور پر بہت اچھا وقت دیکھ چکے تھے۔ اب استقامت اور بہادری سے بُرا وقت گزارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر میں ماضی میں کھویا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایک بوڑھے شخص کو خاندان کی عزت بچانے کیلئے زندگی کے آخری دنوں میں پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑے۔ اس ملال کی کیفیت میں رات کے گیارہ بجے ایک سفارتکار کے ساتھ انگریزی میں گفتگو کرنا ذرا مشکل لگ رہا تھا لیکن وہ پوچھ رہا تھا کہ بتاؤ اس سے پہلے کسی سیاستدان کو رات کے دس گیارہ بجے عدالت نے سزا سنائی ہے یا نہیں۔ میں نے سفارتکار سے پوچھا کہ کیا تم حنیف عباسی کو جانتے ہو؟ اس نے کہا یس یس وہ وفاقی وزیر ریلوے ہے۔ میں نے کہا۔ اوکے۔ تو پھر سنو ۔ اس حنیف عباسی کو 2018ء کے الیکشن سے صرف چار دن قبل ہفتہ کی رات بارہ بجے راولپنڈی میں اینٹی نارکاٹکس کی ایک عدالت جج سردار محمد اکرم نے عمر قید (25) سال کی سزا سنا کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔ ہفتہ کی رات بارہ بجے سزا اسلئے سنائی گئی کہ اگلے دن اتوار تھا۔ اتوار کو عدالتیں بند ہوتی ہیں۔ جج صاحب نے پورا اہتمام کیا کہ حنیف عباسی کو سزا سے اگلے دن کسی عدالت سے ضمانت نہ ملے اور وہ 2018 ء کا الیکشن نہ لڑسکے۔ موصوف کو رات بارہ بجے عدالت سے گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا اور وہ الیکشن نہ لڑسکے۔ یہ سن کر مغربی سفارکار نے زور سے کہا ۔ ’’اوہ مائی گاڈ ‘‘ وہ فون بند کرنے کے موڈ میں نہ تھا لیکن میں نے بڑے مودبانہ انداز میں خود ہی اُس سے اجازت لے لی ۔ تحریک انصاف کی خاتون رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور سینیٹر اعجاز چوہدری سمیت دیگر ملزمان کو دس دس سال قید کی سزا میرے لئے کوئی نیا واقعہ نہ تھا لیکن میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد تو 9 مئی 2023ء کو اپنے کارکنوں کو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر جانے سے روک رہی تھیں ۔ اُنکی ویڈیو سارے زمانے نے دیکھی جس میں وہ کارکنوں کو پرامن رہنے کی اپیل کر رہی ہیں تو پھر انہیں دس سال قید کی سزا کیوں سنائی گئی ؟ شاہ محمود قرشی ۹ مئی کو کراچی میں تھے جس کے ثبوت موجود ہیں۔ انہیں سزا سنانے کا مطلب پورے مقدمے کو ایک مذاق بنانا تھا اس لئے انہیں بری کردیا گیا لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ گستاخی معاف! مجھے 2018ء میں حنیف عباسی کو سنائی جانے والی سزا اور 2025ء میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو سنائی جانے والی سزا میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔

میں مانتا ہوں کہ 9مئی کو تحریک انصاف والوں نےقومی اداروں اور شہدا کی یادگاروں پر حملہ کیا ۔۔ مجھے وہ ویڈیوز بھی یاد ہیں جب کور کمانڈر ہاؤس سے مور چرانے والےایک نوجوان سے ایک صحافی نےپوچھا کہ آپ یہ مور کیوں لےجا رہے ہیں تو نوجوان نے بڑے انقلابی اندازسےکہا کہ یہ عوام کا لوٹا ہوا مال ہے جو ہم واپس لےجا رہے، مجھے وہ خوش پوش خواتین بھی یاد ہیں جنہوں نے کور کمانڈر کے فریج سے اسٹرابریز چرائیں ۔ ایک خاتون رہنما نے تو وہاں کھڑے ہو کر اپنی فتح کا اعلان بھی کیا تھا ۔ اُنکی بھی ویڈیو موجود ہے ۔ وہ تو رہا ہو گئیں ۔ لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد کو سزا دیدی گئی ۔ 9؍مئی واقعی ایک سچ ہے لیکن جب آپ سچ میں جھوٹ ملائیں گے ، جس نے آپ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا اُسے چھوڑ دیں گے ۔ جو سمجھوتے سے انکار کرے اُسے سزا سنائیں گے تو پھر انصاف ایک مذاق بن جاتا ہے، انصاف ایک المیہ بن جاتا ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اپریل 2025ء میں حکم صادر فرمایا تھا کہ ٹرائل کورٹس چار ماہ کے اندر اندر 9؍مئی کے مقدمات کا فیصلہ کریں ۔ سرگودھا کی عدالت نے پنجاب سمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد پھجر اور لاہور کی عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت 4چارملزمان کو سزائیں سنادی ہیں ۔ چار ماہ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں لہذا مزید فیصلے آنیوالے ہیں ۔ مزید سزائیں سنائی جائیں گی ۔ عمران خان سے عمر ایوب تک اور مراد سعید سے حماد اظہر تک درجنوں رہنما ان سزاؤں کی زد میں آئینگے ۔ یہ سزائیں ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج ہونگی ۔ ایک فریق قانون کی بالا دستی قائم کرنے کے دعوے کریگا دوسرا فریق ناانصافی کا شور مچائے گا ۔ عدالتیں آئندہ بھی رات کے گیارہ بجے سزائیں سناتی رہیں گی ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو گا ۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے، 2018ءمیں جنہیں سزائیں سنائی گئیں وہ آج وزیر بن چکے ۔ 2025ء میں جنہیں سزائیں سنائی جا رہی ہیں انصاف تو انہیں بھی ملے گا ۔ ہر تاریک رات کے بعد اجالا ضرور آتا ہے…

تازہ ترین