• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام کی ہوا میں کوئی پراسرار سرگوشی ہے — جیسے کسی پرانے خواب کی کرچیاں گرتی ہوں۔ دمشق کی گلیوں سے لے کر درعا کے زیتون کے باغات تک، اور گولان کی سنگلاخ چٹانوں سے لے کر الحسکہ کے کرد دیہات تک، ایک خاموشی ہے جو چیخ بننے سے پہلے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ یہ وہ خاموشی ہے جو کسی نقشے کے کناروں پر پیدا ہوتی ہے، جہاں قومیں تولی جاتی ہیں اور زمینیں تقسیم ہوتی ہیں — جیسے کسی خفیہ سودے کے کاغذات پر کسی نامعلوم قلم سے لکھی گئی عبارت۔

کہا جاتا ہے اسرائیل کے نقشہ ساز، جو سائیکز پیکو کے جانشین ہیں اور جن کی انگلیاں خفیہ کوریڈورز کے دھاگےبُننے میں ماہر ہیں، اب ایک نئی راہداری کا خواب بُن رہے ہیں — ’’ڈیوڈ کوریڈور‘‘۔ ایک ایسا راستہ، جو کسی بادشاہ کے تاج کی مانند گولان کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور شام کے بدن میں ایک افقی زخم کی طرح شمال کی طرف رینگتا ہے، یہاں تک کہ کرد آبادیوں سے جا ملتا ہے۔ لیکن یہ کوئی عام زخم نہیں — یہ وہ زخم ہے جسے خون کی جگہ مفادات سے سی دیا گیا ہے۔ترکی کے ذرائع ابلاغ نے اس خواب کو ’’منصوبہ‘‘ کہا ہے اور اس پر وہی لرزتی ہوئی تنقید کی ہے جیسے کوئی چرچ قدیم اناجیل کے صفحات کو دہراتے ہوئے کسی نئی آسمانی کتاب سے خوفزدہ ہو۔ ان تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ راہداری محض اسرائیل کے جغرافیائی خواب کی تعبیر نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی وحدت کے چہرے پر ایک اور چوٹ ہے۔

اس راہداری کا تصور یوں ہے جیسے حضرت داؤدؑ کی چھاؤں میں ایک سیاسی سایہ کھڑا ہو، جس نے تلوار کی جگہ ائیر اسٹرائیک تھام رکھی ہو اور جالوت کی جگہ سیاسی توازن کو نشانہ بنایا ہو۔ یہ منصوبہ اسرائیل کو جنوبی شام کے دروز علاقوں اور شمالی شام کے کرد اکثریتی علاقوں سے ملانے کی کوشش ہے — دو ایسی قومیں جو خود صدیوں سے اپنی پہچان کے کرب میں مبتلا ہیں۔اس منصوبے کا مقصد واضح نہیں — یا شاید جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے، تاکہ ہر قاری اپنی تعبیر گھڑ لے۔ لیکن جو منظر ابھر رہا ہے، وہ خطرناک حد تک ترتیب یافتہ ہے: شام کو اس طرح ٹکڑوں میں بانٹنا جیسے کوئی زخم دار نقشہ ہو، جسے سفید پوش سفارتکار اپنے نیلے پن سے نشان زد کرتے جا رہے ہوں۔

ترکی کی تشویش بے جا نہیں۔ وہ دمشق کی مرکزی حکومت کا حامی ہے کیونکہ مرکز کا وجود ہی اس کیلئے شام کی وحدت کا نشان ہے۔ ترکی جانتا ہے کہ وفاقی طرزِ حکومت یا ڈی سینٹرلائزڈ نظام کی آڑ میں جو کچھ پروان چڑھایا جا رہا ہے، وہ دراصل ایک سیاسی ’کینسر‘ ہے — جو جغرافیے کی ہڈیوں کو چاٹ جاتا ہے۔

’’ڈیوڈ کوریڈور‘‘، نام کی حد تک معصوم، مگر مطلب کی حد تک مہلک — وہ راہداری ہے جو اسرائیل کو صرف زمین نہیں، اثر و رسوخ کی لامحدود چوڑائی فراہم کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی انگلی ہے جو شام کے سینے پر رکھ دی گئی ہے — دھیرے دھیرے دباتی ہوئی، جب تک کہ سانسیں رک نہ جائیں۔اگرچہ اسرائیل نے اس منصوبے کی سرکاری تصدیق نہیں کی، لیکن اسکی فوجی سرگرمیوں کی ترتیب، جنوبی شام میں اثرورسوخ کی تہیں، اور گولان کے گرد اسرائیلی موجودگی اس خاموش نقشہ کشی کو زندہ کرتی ہیں۔ یہ خاموشی وہی ہے جو سفیروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے — نہ گولی کی آواز، نہ ٹینکوں کی گھن گرج — صرف سرحدوں کی چپ چاپ تراش خراش۔لیکن ایک سوال اَور بھی ہے: اس منصوبے کا انجام کیا ہوگا؟ کیا یہ راہداری صلح کے دروازے کھولے گی یا فتنے کی کھڑکیاں؟ کیا یہ خطہ جو پہلے ہی خانہ جنگی، بمباری، اور بیرونی مداخلت سے ریزہ ریزہ ہو چکا ہے، اب ایک نئی تقسیم کیلئے تیار ہے؟ کیا ہر قوم، ہر گروہ، ہر زبان اب کسی نہ کسی کوریڈور کی تلاش میں ہے؟

کہا جاتا ہے کہ شام ایک شاعرانہ زمین ہے — یہاں زیتون بھی روتے ہیں اور گندم بھی آہستہ آہستہ اُگتی ہے۔ لیکن اب، زیتون کے پتوں پر سیاسی نشان ثبت کیے جا رہے ہیں، اور گندم کے کھیتوں میں خفیہ رن وے بنائے جا رہے ہیں۔ قوموں کی وحدت اب ایک قصہ لگتی ہے، اور ہر نیا نقشہ پرانے رشتوں کی گردن پر چھری چلاتا ہے۔

ایسے میں اگر کوئی سوال باقی رہتا ہے تو وہ یہ ہے: کیا تاریخ ہمیں معاف کرے گی؟ یا ہم وہ نسل بن جائیں گے جو تقسیم کے منصوبے بنا کر خود بھی تقسیم ہو گئی؟شام، جو کبھی تہذیبوں کا چوراہا تھا، آج ایک کوریڈور کا مسافر ہے۔ ’’ڈیوڈ کوریڈور‘‘ … جس کا آغاز خاموشی سے ہوتا ہے اور انجام کسی غیر لکھے ہوئے المیے پر۔

شاید آئندہ نسلیں پوچھیں گی:’’یہ راہداری کس لیے تھی؟‘‘ اور شاید ہم جواب نہ دے سکیں، کیونکہ ہم نے راستے بنائے … رشتے نہیں۔

تازہ ترین