• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں خلافِ معمول ہونے والی بارشوں سے تباہی نے شہر، گوٹھ، گائوں، شہری اور دیہی علاقوں میں قیامت برپا کر رکھی ہے۔ اس سیلاب کے سامنے تہتر سال سے کسی نے بھی بندباندھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ماسوا آمر مطلق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جو قوم کو چند ایک گنے چنے ڈیم کا تحفہ دے گئے جن کی وجہ سے ملک کی زراعت چل رہی ہے اور پانی و بجلی کی ضروریات بھی کسی حد تک پوری ہورہی ہیں۔ بعد میں آنے والے تو کھربوں روپے پانی کے قدرتی بہائو کے علاقوں پر قبضے کرکے پانی کے راستوں کو محدود کیے بیٹھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں میں کھڑا گندا سیلابی پانی انسانی جانوں سمیت سارا غرور اور تکبر بہا لے جارہا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دو صوبوں نے بغض پنجاب میں ایکا کرلیا ہے اور کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کے خلاف ضد باندھ کر بیٹھے ہیں اور اگلے کئی سو سال کی وطن عزیز کی آبی و برقی ضروریات کو پورا کرنے میں رکاوٹ پیدا رکھی ہے ۔ کوئی منصوبہ بندی روز اول سے ہی نہیں کی گئی نہ ہی اب کی جارہی ہے۔ شمالی علاقہ جات میں چھ سات کلومیٹر کے علاقے میں شاہراہ ریشم بہہ گئی۔ متعدد لوگوں کو مقامی رضا کاروں نے ریسکیو کیا اور گلگت و بلتستان کی حکومت بھی متحرک نظر آئی، پنجاب میں تواکثر گلی محلے، اندرون شہر اور پوش علاقوں میںگھٹنوں پانی کھڑا ہے مجال ہےکہ نکاسی آب کا کوئی نظام ہو۔ اب تو سبزی فروش کھڑےپانی میںہی سبزیاں سجائے بیٹھے ہیں۔ پنجاب ہو، سندھ یا کے پی اور بلوچستان انکے وزرائے اعلیٰ و وزراکی تقریریں اور بیانات سنیں تو لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ان کی وجہ سے ملک بھر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی اسٹاک مارکیٹ ماشاء اللہ سے ترقی کرتے ہوئے اپنی بلندی کے سفر پر گامزن ہے۔ گیس کے ماہانہ بلوں میں سولہ سو روپے کے ماہانہ ٹیکے کی شنید ہے تو پٹرول اور ڈیزل بھی اونچی اڑان بھر رہا ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کے ہوش ربا بلوں نے نکال رکھی ہے۔ پی ٹی آئی کا خاتمہ بالخیر قریب ہے تو یک لخت راتوں رات نو مئی واقعات کے حاضر و غیر حاضر ملزمان کو دس دس سال قید کی سزائیں سنا کر انصاف کا بول بالا کردیا گیا ۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف امریکی صدر نے بھی بھارت کی مسلسل منجی ٹھونک رکھی ہے۔ وہ ایک بار پھر بھارتیوں کو بتانے میں کامیاب رہے ہیں کہ انہوں نے مداخلت کی اور بھارت کو ایٹمی جنگ کی ہولناکی سے بچایا۔ اس اقدام میں پانچ بھارتی جنگی جہازوں کا کام تمام ہوا تھا۔

بھارتی اپوزیشن نے مودی سرکار کے سیندور آپریشن کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں اور انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے اعتراف کرلیں کہ سیندور آپریشن کے پاگل پن میں ان کو اپنے پانچ مایہ ناز طیاروں سے ہاتھ دھونے پڑے اور اس بے کار مشقت میں انہوں نے اپنے سیکڑوں جوانوں کی خواہ مخواہ میں جانیں گنوائیں۔ اب انہیں توبہ تائب ہوکر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ جہاں بھی امریکی صدر کہیں سر نیہوڑا کر مذاکرات کرنے چاہئیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے کیے گئے وعدوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق آزادی و خود ارادیت دینے پر اصولی اتفاق کرلینا چاہیے۔ امریکی صدر کو لگے ہاتھوں اپنے یار خاص اسرائیلی مفرور اشتہاری اور بھیڑیا صفت وزیر اعظم کو بھی کہنا چاہیے کہ وہ فوری طور پر فلسطینیوں کے خلاف جنگ بند کرکے انہیں خوراک کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔ ایک طرف یہ عالمی و ملکی صورت حال ہے تو دوسری طرف ہماری اشرافیہ آئین و قانون اصول و ضوابط کو پامال کرکے سینیٹ کا الیکشن نما سلیکشن کرانے میں کامیاب ہوکر من پسند کے نتائج سے اکثریت حاصل کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی حقیقی اور غیر حقیقی کو ساتھ ملا کر دار الامراء کو مکمل کرچکی ہے، ساکھ تو حکومت کی جو عوام میں ہے وہ سب کے سامنے ہے ہی، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد کے پی میں کس نے کیا کھویا، کیا پایا؟ کیا ٹکڑوں میں بٹی پی ٹی آئی نے سیاسی طور پر کچھ حاصل کیا ہے یا اپنا نقصان کیا ہے؟ تو جو رد عمل سامنے آیا ہے اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو نقصان ہوا ہے۔ علی امین گنڈا پور اپنی ضد میں کامیاب ہوگئے۔ اُنہوں نے مرزا آفریدی کو جیتوا لیا مگر پارٹی میں جو پہلے ہی تقسیم تھی اب مزید بڑھ گئی ہے۔ اب دیکھا جائے تو سینیٹ میں حسب معمول مالی طور پر تگڑے ترین لوگوں کی اکثریت پھر آگئی ہے اگرچہ اس بار بریف کیس چلنے کا شور نہیں مچا لیکن طریقہ کار شاید کوئی اور اختیار کیا گیا۔ قوم کے نمائندوں کو دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینٹ و صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے ووٹ سے براہ راست آنا چاہیے۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم اور تعداد، کھینچا تانی سے لی گئی یہ اکثریت ملک میں بچے کھچے جمہوری نظام کے پنپنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کون سی ٹیکنو کریٹ، کون سے دوسرے ماہرین ایسے ہیں جو عوام کی بات کرتے ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کے نام پر آنے والے ٹیکنو کریٹس نہیں ہوتے۔ مختلف شعبوں کے اذہان آگے آئیں تو پالیسیاں درست بنیں مگر یہاں تو ساری گنگا ہی الٹی بہتی نظر آرہی ہوتی ہے ، ٹیکنو کریٹ دیکھنا ہے تو بنگلہ دیش میں دیکھ لیں ایک شخص نے ملک کے غریب عوام کو غربت کی چکی سے نکالا۔ ہمارے ہاں توحکومت یوٹیلیٹی بلوں سے چل رہی ہے، عوام کا رات دن لہو نچوڑا جارہا ہے آخر کب تک یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا؟۔

تازہ ترین