• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تازہ بہ تازہ ، PTI کے 108رہنماؤں کو 10,10 سال کی سزائیں سنا دی گئیں ، دورائے نہیں کہ سزائیں سیاسی جماعت کی سپورٹ کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گی ، مقبولیت میں اضافہ ہی ہونا ہے۔

509 ق م اطالوی بادشاہ لوسیئس سپربس کا تختہ الٹا تو انسانی تاریخ پہلی بار ریپبلکن ریاست سے متعارف ہوئی جو باقاعدہ آئین، عدالتی نظام اور منتخب سینیٹ پر مبنی تھی۔ طاقت کا سرچشمہ بجائے تلوار ، عوامی نمائندہ سینیٹ قرار پائی ۔ صدیوں بعد، اسی ریپبلک کی کوکھ سے ایک غیرمعمولی شخصیت گائیس جولیئس سیزر ( 100 BCE – 44 BCE) شعلہ بیان مقرر، چالاک سیاستدان اور عظیم فوجی جرنیل اُبھرا ، عوامی مقبولیت، اور سویلین بیوروکریسی و اشرافیہ سے گٹھ جوڑ بدولت رومن ریپبلک کو ہتھیانے میں کامیاب ہوا ۔49 ق م روم پر قبضہ جمایا اور 10سال کیلئے اپنے آپکو ڈکٹیٹر مقرر کیا ۔ چند سال بعد ہی خود کو تاحیات حکمران قرار دینے کا قانون بنوایا کہ ’’ریاست کو مستحکم اور جمہوریت کو حقیقی بنانا چاہتا ہوں‘‘۔ سیزر نے اگرچہ جمہوری پردہ برقرار رکھا، درحقیقت بدترین ڈکٹیٹرشپ نافذ تھی ۔ تاریخ کی مقبول عام ، رومانوی اور ناقابلِ فراموش شخصیت تاحیات حکمران کیا رہتا ، 6سال بعد 15مارچ 44ق م اپنی سینیٹ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ یہ سہرا ، سیزر کے سر کہ رومن ریپبلکن کو دوبار ایمپائر کیطرف دھکیل دیا ۔ جولیس سیزر کا ریپبلکن سے ایمپائر کا سفر ایک مثال ملتی جلتی کیفیت سے مملکتِ خداداد 75 سال سے نبرد آزماء ہے۔

ایسا وقت بھی آنا تھا کہ مقتدرہ کے پاس چوائسز تو کیا کوئی دوسری چوائس ہے ہی نہیں کہ اسی سیٹ اَپ پر گذارہ کرئے۔ HOBSON's CHOICE ہی ، موجودہ سیٹ اَپ تاحد نگاہ برقرار رہیگا ۔ شہباز حکومت کو دور دور تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ موجودہ سیٹ اَپ میں تبدیلی کا سوچا بھی گیا تو نئی قیادت کو آزمایا جائیگا ۔ البتہ یہ ضروری کہ مملکت کسی غیر متوقع واقعے سے دوچار نہ ہو اور کہیں HOBSON's CHOICE بھیانک نہ ہو ۔ دوسری طرف مقتدرہ کو للکارنے والوں کیلئے پیغام کہ قید و بند ’’پلس‘‘ بھگتنی ہوگی ۔ PTI کی آج کی نئی نویلی سزائیں ، قومی لیڈر کو توجہ دلاؤ نوٹس ہی ہے ، اللہ تعالیٰ خان صاحب کو ’’پلس‘‘ سے محفوظ رکھے ۔ زمانہ قدیم سے مقتدرہ کے اندر گروہی سیاست جزو لاینفک یعنی کہ عقابی ارواح اور فاختہ کی کُوک شانہ بشانہ موجود، عقابی روح کے رہنماء اصول، ’’ڈنڈا پیر ہے بگڑوں کا ’’اور‘‘ جب یہ لاٹھی میری تو بھینس کیوں تمہاری‘‘۔سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ، نظام کے بناؤ بگاڑ اور وطنی سیاسی مستقبل کا زائچہ مرتب کرنے میں جو چند کتابیں میری رہنماء ، میجر جنرل خادم راجہ کی کتاب

"A STRANGER IN MY OWN COUNTRY" ،

نمایاں ہے ۔ بطور GOC مشرقی پاکستان الیکشن 1970ء منعقد کروائے ۔ 25مارچ 1971 ء کا ملٹری آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ کی پلاننگ، تزئین و آرائش میں جنرل ٹکا کے مددگار رہے۔ آج کے سیاسی حالات کی مشرقی پاکستان سے مطابقت نے مجھے جنرل خادم راجہ کی کتاب سے بار بار رجوع کرنے پر مجبور رکھا ہے ۔ جنرل خادم راجہ نے ساری کتاب میں مجھے ایک ہی سبق اَزبر کرایا کہ مملکت کی سلامتی سیاسی استحکام میں اور سیاسی بحرانوں کا حل صرف اور صرف سیاستدانوں کے پاس ہے ۔ جنرل خادم یہی باور کرواتے رہے مگر اپنے ’’مدار المہام‘‘ تک بات پہنچا نہ سکے کہ درمیان میں عقاب حائل تھے ۔

جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل مشرف ، جنرل باجوہ کو کسی حد تک بعذریعہ سیاسی سپورٹ میسر رہی ۔ جنرل یحییٰ کا عوام الناس سے رابطہ نہ ہی جنرل یحٰی کو رابطہ میں دلچسپی تھی ۔ 8دسمبر 1970ءکی صبح انتخابی نتائج دیکھ کر جنرل یحییٰ سکتے میں آنا بنتا تھا کہ ڈکٹیٹر کو بھی کم از کم سیاسی عوامی حمایت چاہئے جو یحییٰ خان کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ برسبیل تذکرہ جنرل یحییٰ نے فوری طور میجر جنرل عمر کو نتائج روکنے اور تبدیل کرنے کا حکم بھی صادر فرما دیا ، تفصیل کسی اور موقع پر ۔

یہ بحث فضول کہ موجودہ سیٹ اَپ سے کون کتنا راضی اور کس حد تک نا راض ، حالات کا جبر اور تقاضا یہی کہ اسی ’’حکومتی کمپنی‘‘ پر گزار اوقات کے علاوہ کوئی چارہ ہے نہیں کہ مقتدرہ کے پاس کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں ۔ درست کہ جیل میں موجود قومی رہنماء کی احتجاجوں کی ناکامی کا بدلہ مقتدرہ سے لینے میں دلچسپی ہے ۔ اس سلسلے میں مارشلاء لگوانا پسند فرمائیں گے ۔ پاکستان کی بھارت سے شکست پر آس اُمید بندھی مگر پاکستان کی شاندار فتح نے اُمیدوں پر اوس ڈال دی ۔ عمران خان کی ہمشیرہ پچھلے کئی مہینوں سے جو بیانیہ اور حقی سچی وطنی ’’مدار المہام‘‘ کیخلاف جو زبان استعمال کر رہی ہے وہ حماقت اور سیاسی جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایسی زبان پاکستان کے بدترین دشمن بھی استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ 5اگست کو جس احتجاج کا نقطہ عروج ، آج کی تاریخ میں دور دور تک آثارموجود نہیں ہیں ۔ عمران خان کے دائیں بائیں دو اقسام کے حواری موجود ، چوم چوم کر مارنے والے اور باقی پیٹھ پیچھے خنجر مار کر ہلکان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ میرا دھڑکا اور خدشہ مختلف کہ لگڑ بھگڑ احتجاج پر PTI کو اس بار 26؍نومبر 2024ءسے بھی زیادہ بھیانک قیمت نہ چکانی پڑ جائے ۔ عمران خان کے بیٹوں کی آمد کا شو شہ بھی سیاسی ناپختگی اور عمران خان کیلئے مسائل میں اضافہ ہوگا ۔ سیاسی ناپختگی ہی کہ بغیر تیاری سوچے سمجھے ترسیلات زر ، ہر دو ہفتے بعد ایسے احتجاجوں کی کال جو بن کھلے مرجھا گئے ۔

NICOP کا جب انکشاف کیا تو اِترائے ، بغلیں بجائیں گئیں کہ اس خبر پر مقتدرہ اور حکومتی حلقے سنتے ہی ڈھیر ہو جائیں گے ۔ مقبول رہنماء عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہے ، ہر انہونی بیتی ، کہیں بھی عوامی یا بین الاقوامی ہیجان برپاء نہیں ہوا تو بیٹوں کو آنے پر روکنے سے کونسا پہاڑ ٹوٹے گا ۔ اب جبکہ یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ NICOP کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے تو خواہ مخواہ کئی مدوں میں مزید شرمندگی سمیٹنے کی کیا ضرورت تھی ۔ تمام حواری عمران خان کی سیاست کو ہلکان رکھنے میں کیوں کمربستہ ہیں ، اللہ ہی جانے۔ بفرض محال اگر بیٹے پاکستان قدم رنجہ فرماتے بھی ہیں اور نامساعد حالات کا سامنا ہو بھی گیا تو ہماری بیدار عقابی ارواح کا پھر بھی کچھ نہ بگاڑ پائیں گے ۔ 5 اگست کو جہاں PTI کی احتجاجی صلاحیتوں کو مزید خاطر خواہ ضعف پہنچنا ہے وہاں مقتدرہ کیلئے بھی ایک پہلو باعث تشویش کہ عمران خان کی 3 سال سے مسلسل بڑھتی مقبولیت میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہونا ہے ۔ عرض کیا ہے عمران خان کو مرجع خلائق تسلیم نہ کرکے کوئی سیاسی حل نہ ڈھونڈنا ، وطنی سیاسی عدم استحکام شتر بے مہار رہیگا۔

بدقسمتی کہ عقابی روح جب بیدار اور متحرک ہو،آتش جواں ہو تو سقراطی سیاسی حکمت عملی اور لائحہ عمل اپنی دھاک بٹھاتا ہے، کسی اور حل کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اہل وطن ! فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی: یا تو اپنے طور ریاست کو مستحکم سیاسی جمہوری ، دستوری راستے پر ڈالنا ہوگا بچانا ہوگا یا پھر کسی ایسے انجام کے دہرائے جانے کا انتظار کریں جو کسی بھی وقت یکدم دبوچنے کو ہے۔

تازہ ترین