راولپنڈی، سترہ جولائی کی وہ صبح کسی ناول کا تاریک باب تھی۔ آسمان، جو ہمیشہ خاموشی سے دنیا کو تکتا رہتا ہے، اس روز بےقابو ہو کر رو رہا تھا۔ ہر بوند میں کوئی حسرت، ہر کڑک میں کوئی آہ، اور ہر لمحے میں ایک ایسی داستان دفن تھی جو ابھی پوری نہیں ہوئی تھی، مگر اس کا انجام پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا۔ بارش، جیسے زمین پر سدرہ کیلئے نوحہ پڑھ رہی ہو۔ اور قبرستان... وہ پرانی ویران زمیں، جو ہر روز کئی سچائیوں کو مٹی میں چھپا لیتی ہے، آج کچھ زیادہ بےچین تھی۔ ایک بوڑھا گورکن، جو برسوں سے لاشوں کو دفناتا ارہا تھا، اچانک ایک اجنبی فون کال سے لرز گیا۔ ’’آدھے گھنٹے میں قبر چاہیے،‘‘ فون پر آواز میں نہ افسوس تھا، نہ دکھ، صرف جلدی تھی۔ جیسے کسی سودے کی بولی لگائی جا رہی ہو۔ گورکن نے بارش کی دیواروں کو دیکھا، پھر آسمان کی آنکھوں میں جھانکا، اور کہا، ’’مٹی گیلی ہے، مزدور نہیں، قبر اتنی جلدی کیسے...؟‘‘ دوسری طرف سے جواب میں فقط سوداگری تھی: ’’قبر کی جگہ بتا دو، باقی ہم خود کھود لیں گے۔کچھ ہی دیر بعد، ایک لوڈر رکشہ، جیسے کوئی بےنام جنازہ اٹھائے ہو، قبرستان کے دروازے پر رکا۔ رکشے پر ایک سرخ ترپال تنی تھی، جیسے لاش پر نہیں، سچ پر پڑی ہو۔ نیچے اتاری جانیوالی لاش نہ کاندھوں پر تھی، نہ دعاؤں میں لپٹی۔ نہ کوئی چیخ، نہ بین، نہ فاتحہ۔ بس ایک رسید دی گئی: ’’سدرہ دخترِ عرب گل‘‘۔ ایک نام، ایک وجود، جو اب محض کاغذ پر تھا، اور مٹی میں دفن ہونے والا تھا۔لیکن یہ لاش اتنی جلدی کیوں دفنائی جا رہی تھی؟ جیسے یہ جنازہ گواہی مٹانے کیلئے اٹھایا گیا ہو؟ اس کہانی کی جڑیں ماضی کی مٹی میں تھیں۔ گیارہ جولائی کو ایک مرد نے تھانے میں عرضی دی: ’’میری بیوی زیور لے کر گھر سے بھاگ گئی ہے اور کسی اور سے نکاح کر لیا ہے۔‘‘ لفظوں میں غیرت کا زہر تھا، اور لب و لہجے میں مردانہ ندامت کا شور۔ مگر اصل میں، سدرہ اپنے لیے زندگی چن چکی تھی۔سدرہ نے مظفرآباد میں نکاح کیا، اور عدالت میں فریاد کی: ’’میں کنواری ہوں، میرے والد فوت ہو چکے، ماں دوسری شادی کر چکی ہے، سوتیلا باپ زبردستی شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ عدالت کے در و دیوار شاید پہلی بار اتنے سچے آنسوؤں سے بھیگے ہوں۔ سدرہ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا، بس اپنی مرضی سے جینا چاہا تھا، جو اس دھرتی کی سب سے بڑی گستاخی ہے۔ 15 جولائی کو وہ عورت جو نئی زندگی کے خواب دیکھ رہی تھی، واپس لائی گئی۔ 16جولائی کو ایک خاموش جرگہ بیٹھا، ایک تماشائی عدالت، جس میں نہ وکیل تھے، نہ قانون، صرف مردوں کی خاموش نفرت، اور عورت کے خوابوں کا قتل نامہ۔ فیصلہ ہوا: ’’سدرہ کو مار دیا جائے۔‘‘ اور 17 جولائی کو، زمین اور آسمان کے درمیان، اسکی سانس کو اسکے گلے ہی میں دفن کر دیا گیا۔ اسی گھر میں قتل، اسی آنگن میں جنازہ، اور اسی مٹی میں دفن۔ یہ ایک جسم کی موت نہیں تھی، یہ ایک سوال کی موت تھی:
کیا عورت کو اپنی زندگی کا مالک ہونا چاہیے؟لاش چھپانےکیلئے نیا رکشہ خریدا گیا۔ قبر کا نشان مٹا دیا گیا، ترپال سرخ تھی کیونکہ خون کو چھپانا آسان نہیں۔ گورکن نے بھی سوال نہ کیا۔ جیسے سب جانتے تھے کہ یہاں کسی چیخ کی اجازت نہیںلیکن چیخ خاموش کہاں رہتی ہے؟ زمین نے سدرہ کو دفن کیا، مگر اسکی آہوں کو نہیں۔ بارش، جو اس دن آسمان کی آنکھوں سے گری تھی، سدرہ کی روح کو نہلا گئی۔ اور پولیس، جب اس کہانی کی پرتیں کھولنے لگی، تو وہ سب چہرے سامنے آنے لگے جنہوں نے سدرہ کو محبت کی سزا دی تھی۔اس کے ’شوہر‘، اسکا ’کزن‘، اور وہ جرگہ بھی سب قانون کے کٹہرے میں آئے۔ قبر کشائی ہوئی، لاش نے بھی اپنا بیان دیا، اور پھر عدالت میں سدرہ نے نہیں، ریاست نے آواز بلند کی۔ قتل کے اس مقدمے میں وہ دفعات شامل کی گئیں جو قاتلوںکیلئے معافی کا دروازہ بند کر دینگی۔ اب نہ کوئی خاندانی درگزر، نہ کوئی صلح کا ہنر۔لیکن کیا قانون انصاف دے سکتا ہے اُس لڑکی کو جو صرف محبت کرنا چاہتی تھی؟ کیا عدالت اُس خواب کو زندہ کر سکتی ہے جو سدرہ نے نکاح نامے کے صفحے پر لکھا تھا؟ نہیں، شاید نہیں۔ لیکن تاریخ لکھ رہی ہے کہ وہ مر کر بھی زندہ رہی۔ آج بھی اس قبر پر کوئی کتبہ نہیں، نہ کوئی پھول۔ لیکن جب شام کی ہوا قبرستان سے گزرتی ہے، تو درختوں کی شاخیں لرزتی ہیں، اور ایک سوال گونجتا ہے۔’’غیرت وہ ہے جو قتل کر دے؟ یا وہ جو جینے دے؟‘‘سدرہ، ایک چیخ ہے۔ ایک نوحہ جو مٹی میں دفن ہوا، مگر ہماری روحوں پر نقش ہو گیا۔یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔یہ ہر اس بیٹی کا آغاز ہے جو سدرہ کے بعد جنم لے گی۔سدرہ کی کہانی راولپنڈی کے بارش زدہ قبرستان میں خاموشی سے دفن ہوئی، تو بلوچستان کی اس 30 سالہ خاتون کی چیخیں بے رحم پہاڑوں میں گونجتی رہیںمگر دونوں کے مقدر میں ایک سا انجام لکھا گیا: غیرت کے نام پر موت۔سدرہ کو محبت کے جرم میں قتل کیا گیا، عدالتوں میں درخواستیں دیں، نکاح نامے جمع ہوئے، پولیس نے سراغ لگایا، قبر کشائی ہوئی، اور پھر کہانی نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لیکن بلوچستان کی وہ عورت، جسے اسکے اپنے شوہر اور مسلح رشتہ داروں نے سرخ گاڑی سے نکال کر گولیوں سے چھلنی کر دیا، اس کیلئے نہ عدالت تھی، نہ وکیل، نہ تدفین، نہ انصاف کی کوئی دہلیز۔ ویڈیو وائرل ہوئی، پہچان براہوی زبان میں ہوئی، لیکن متاثرہ خاندان مکمل خاموش ہے،جیسے ایک پورا معاشرہ اپنی بیٹی کو دفن کر کے خود گونگا ہو چکا ہو۔دونوں عورتیں صرف جینا چاہتی تھیں، اپنی زندگی کی باگ ڈور خود سنبھالنا چاہتی تھیں، مگر سماج کے ہاتھ میں وہ زنجیر تھی جس سے عورت کی مرضی باندھ دی جاتی ہے۔ سدرہ کی قبر پر بارش برستی رہی، بلوچستان کی عورت کے لہو میں دھول اڑتی رہی مگر انجام ایک ہی تھا: خاموش موت، اجتماعی بےحسی، اور غیرت کے نام پر تحریر ہونے والا وہ نوشتہ جو صدیوں سے عورت کے نصیب پر ثبت کیا جا رہا ہے۔یہ دو چہرے نہیں، ایک ہی دکھ ہےجو پہاڑوں میں چیختا ہے، اور شہروں میں دفن ہو جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کی لاش کو رسید ملی، دوسری کی چیخ کو ہوا بھی سند دینے کو تیار نہیں۔