السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
یادِ رفتہ کی سنہری لڑیاں!!
الحمدُللہ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر بالآخر ہمارے خط نے اپنی جگہ بناہی لی، تو چلیں، آج اظہارِ رائے کا آغاز اُس وقت سے کرتے ہیں، جب ہم نے ’’جنگ‘‘ پڑھنا شروع کیا تھا۔ تب ہم دوسری جماعت میں تھے اور دیگر ہم جماعتوں کی بہ نسبت اُردو پڑھنے میں تھوڑی بہت مہارت حاصل کرلی تھی۔ سو، نصابی کتب کے ساتھ وقت گزاری کے لیے اخبارات ورسائل کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ ہماری دادی جان ہم سے زیادہ ترجنگ کی خبریں اور خواتین کا صفحہ سُنتی تھیں۔عُمر کے ساتھ دل چسپی کا محور بھی تبدیل ہوگیا۔
بچّوں کےصفحات سے، بڑوں کے صفحات تک کا فاصلہ طے کرلیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد آج تک یاد ہے، جب روزنامہ جنگ نےخصوصی ایڈیشنز، فیچر وغیرہ شائع کیے۔ تب ہم نےاسلامی ممالک کے حُکم رانوں کی تصاویر کاٹ کاٹ کر ڈائری میں محفوظ کی تھیں۔ ایٹمی پروگرام کے آغاز کی خبریں بھی، سنہری یادوں میں شامل ہیں۔ یہ معلوماتی تحریریں محفوظ کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ نصابی سوالات کے جوابات میں معلوماتی تحریروں کا مواد بھی شامل کرکے اساتذہ سے خُوب شاباشیاں وصول کرتے۔
نیز، جنگ پزل میں بھی خُوب ذہانت آزمائی کی۔ خیر، یہ تو یادِ رفتہ کی سنہری لڑیاں ہیں، حال کا احوال بھی سن لیں۔ اب بحیثیت ٹیچر، اپنے لیکچرز کی تیاری میں بھی آپ کے کئی سلسلوں سے خُوب ہی مستفید ہوتے ہیں۔ خصوصاً حالات و واقعات، اشاعتِ خصوصی، سنڈے اسپیشل اور سرچشمۂ ہدایت وغیرہ سے۔
قصّہ مختصر، روزنامہ جنگ کے باقاعدہ قاری ہونے کی حیثیت سے کبھی کبھی فخریہ طور پر اِترانے بھی لگتے ہیں، تو کبھی سیدھا ردّی کی ٹوکری ہی میں جاگرتے ہیں۔ (صبور مشتاق حسن، رمضان گارڈن، کراچی)
ج: اطلاعاً عرض ہے کہ ردّی کی ٹوکری میں جا گرنے کا مطلب، ہمیشہ تحریر کا غیرمعیاری ہونا ہی نہیں ہوتا، دیگر کئی وجوہ بھی ہیں۔ سو، محض اس بات پر نہ دل چھوٹا کریں اور نہ ہی کسی کوjudge کریں۔
ایک اچھوتے موضوع پر شاہ کار افسانہ
کچھ مصروفیات کی بناء پر ایک وقفے کے بعد محفل میں شرکت کررہی ہوں۔ اُمید ہے، خیرمقدم کریں گی۔ 18مئی کا شمارہ موصول ہوا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں صحابیٔ رسولﷺ ، حضرت جعفرطیارؓ کے حالاتِ زندگی خُوب صورت پیرائے میں پیش کیے گئے۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا پاک، بھارت تنازعات پررقم طراز تھے، حالیہ تنازعے سمیت، ماضی کے تعلقات کا بھی مختصراً تجزیہ پیش کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی ‘‘میں سیدہ تحسین عابدی نےمُلکی پالیسی’’امن ہمارا اصول، دفاع ہمارا فرض‘‘ کے پس منظر میں جامع تحریر قارئین کی نذر کی۔
’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور ٹریفک حادثات کی وجوہ کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھیں، ساتھ ہی احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا۔ ’’میری وفات‘‘ بڑا مختلف اور منفرد افسانہ تھا۔ ایسے اچھوتے موضوع پر پہلی بار ہی کوئی افسانہ پڑھنے کوملا۔ افسانہ نگار ہلکے پُھلکے انداز میں بڑا گہرا پیغام دے گئے، خصوصاً آخری سطور تو بہت ہی متاثر کُن تھیں۔ چند سطروں میں انسانی زندگی کی کُل حقیقت سمیٹ دی گئی۔
’’اسٹائل‘‘ میں آپ کی شگفتہ شگفتہ، پُر مغز تحریر کا بھی جواب نہیں ہوتا۔ ادب و فلسفے سے گندھی تحریریں خوش ذوق افراد کا سامانِ تسکین بن جاتی ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عبدالستار ترین بلوچستان کے شہر اوستہ محمّد کی خستہ حالی کا رونا رورہے تھے۔ ’’پنجند‘‘ کے مقام پر پینے کا پانی تک میسر نہیں، پڑھ کر دل دُکھ سے بھرگیا۔’’نئی کتابیں‘‘ کے تحت منور راجپوت نے عُمدہ تبصرہ کیا۔
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں سفرِ حج اور صحت سے متعلق مضامین نے حاجیوں کی خُوب رہنمائی کی۔ ’’متفرق‘‘ میں عُمر رضوان کی تحریرتھوڑی دقیق محسوس ہوئی۔ شاید ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد بہتر سمجھ پائے ہوں۔ غلام ربانی نے عالمی یومِ مزدور پر مختصر، مگر جامع مضمون رقم کیا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے رنگا رنگ پیغامات خُوب تھے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ دل چسپ خطوط سے مرصّع تھا، خصوصاً عروبہ غزل کی ای میل آف دی ویک کی رواں، شُستہ تحریر نے بہت لُطف دیا۔ (عائشہ ناصر، دہلی کالونی، کراچی)
ج: ویلکم بیک عائشہ! آپ آتی ہی رہا کریں کہ آپ کی آمد سدا بھلی ہی لگی ہے۔
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید…
25مئی کا شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق… بس، پلٹ دیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شمیم اختر ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کا شان دار تذکرہ لائیں۔ پاک فضائیہ کے میزائلوں، جوانوں نے بھارت کو جیسے دھول چٹائی، اُس کی تفصیل نہایت خُوش کن تھی۔ اقبال نے کہا تھا؎ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا… مومن ہے تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ اور عملی مظاہرہ ہم نے دیکھ لیا۔ جدید ترین حربی آلات سے لیس 10گنا بڑی فضائیہ دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔
الحمدُللہ، بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، مگر’’موذی مودی‘‘ ہنوزعوام کو دھوکا دینے کےلیےبڑھکیں ماررہا ہے۔ نیز، بھارتی میڈیا کا گھناؤنا کردار بھی سامنے آگیا، جب کہ ہمارے میڈیا نے سچائی کی تاریخ رقم کرکے عالمی سطح پر قابل اعتماد ہونے کا اعزاز پایا۔
نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، پاکستان کا مطلب کیا، لااللہ الاللہ۔ ان شاء اللہ، پاک افواج کا یہ کارنامہ تاریخ میں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ اور ہاں، یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ تمام تر مخالفت کے باوجود ریٹائرمنٹ سے محض ایک دن پہلے جنرل عاصم منیر کو تعینات کرکے نواز شریف نے نہایت دُوراندیشی کا ثبوت دیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا جنگ کے بعد امن کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے۔
ہائے ؎ میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب…اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتےہیں۔ اور بقول غالب ؎ ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید… جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ قائدِاعظم نے تو اُسی وقت کہا تھا کہ ’’تقسیم کی خلش دُور کرکے اپنی توجّہ عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز کریں۔‘‘ جواب میں بھارت نے4 جنگیں مسلط کردیں، پاکستان کو دولخت کر دیا۔ آج بھی دہشت گردی کے سارے کُھرے بھارت کی طرف جاتے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں حافظ بلال بشیر نے’’یومِ ِتکبیر‘‘ کی یاد تازہ کی۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم محسنوں کے قدردان نہیں ۔ بھٹو صاحب ایٹم بم بنانےکا عزم کرکے ڈاکٹر عبدالقدیر کو ملک میں لائے، ہم نے اُنہیں پھانسی چڑھادیا۔ خود ڈاکٹر صاحب کو غیراعلانیہ قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے کی پاداش میں حکومت ہی سے فارغ کردیا۔
جن لوگوں نے قوم کی حفاظت وسالمیت پرکوئی سمجھوتا نہیں کیا، اُنھیں ہی معتوب کیا گیا۔ رابعہ فاطمہ معاشی بحران میں بچّوں کے تعلیمی اخراجات پر تشویش کا اظہار کررہی تھیں۔ عرفان جاوید کا نیا انتخاب’’ مارٹن کوارٹر کے ماسٹر‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ بہترین تھا، تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمیں کُرسی نشین کرنے کا بے حد شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
سلسلہ جاری رکھیے گا
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کررہا ہوں، اُمید ہے، پہلے کی طرح ضرور حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ ایک شمارے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کاصفحہ موجود تھا، ایک میں نہیں۔ ’’آپریشن بنیان مرصوص، بھارتی جارحیت کا دندان شکن جواب‘‘ بالکل درست کہا گیا، اب کوئی بھی ہمارے مُلک پر حملے سے پہلے کم از کم ایک سو بار تو ضرور سوچے گا(ان شاء اللہ)۔ ’’جنگ کے بعد امن کی تلاش‘‘، جی ہاں! امن کے لیے ہمیشہ ٹیبل ٹاک ضروری ہوتی ہے۔ ’’یومِ تکبیر،عالم اسلام کے افتخار و سربلندی کا استعارہ‘‘ بےشک یہ دن ہمارے لیے ہمیشہ خاص اہمیت کا حامل رہےگا۔
عرفان جاوید ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں اخلاق احمد کا افسانہ ’’مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر‘‘ لائے، دو قسطوں پر مشتمل افسانے نے دل خُوش کردیا۔ بہت ہی اچھا سلسلہ شروع کیا ہے، براہِ مہربانی، اِسے جاری رکھیے گا۔ ’’ماہِ جون کے عالمی ایام کا جائزہ‘‘ شان دار تھا۔ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کا ہفتۂ سفارت کاری‘‘ ایک بہترین، مدلّل تجزیہ تھا۔
دریائے پرل کے کنارے آباد، چین کے تاریخی شہر، گوانگ چُو سے متعلق معلوماتی مضمون پڑھا۔ جب بھی چین کی سیر کو جائیں گے، یہ تاریخی شہر بھی دیکھیں گے۔ واقعی، صحافت گڈے گڑیا کا کھیل نہیں ہے۔ اور یہ دیکھ کرتو بہت ہی خوشی ہوئی کہ دونوں شماروں میں ناچیز کے خطوط بھی شامل تھے۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج: جی ہاں، ابھی تو سلسلہ چلےگا۔ دُعا کیجیے، جریدہ چلتا رہے، تو نئے سلسلے بھی شروع، اور ختم ہوتے ہی رہیں گے۔
غیر معمولی ذہانت
دوسری عالمی جنگ مَیں نے نہیں دیکھی، میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے، لیکن اُس کی تفصیلات اکثر رسائل میں پڑھیں، چنانچہ اپنی غیر معمولی ذہانت کے طفیل اُن تفصیلات سے متاثر ہو کر کئی خیالی افسانے لکھے۔ ’’لندن کی ایک رات‘‘ اُن ہی افسانوں میں سے ایک ہے۔
مجھے یقین ہے، یہ آپ کو پسند آئے گا۔ قابلِ اشاعت ہو تو شایع فرما دیں۔ ویسے جنگ، سنڈے میگزین پُرمغز مضامین پر مشتمل جریدہ ہے اور اپنا ایک معیار رکھتا ہے، تو میرے پاس اس طرح کے کئی افسانے موجود ہیں، خواہش اور پسندیدگی کے تحت ارسال کردوں گا۔ (جمیل ادیب سید، کراچی)
ج: بزرگوار! آپ اپنی یہ غیرمعمولی ذہانت کسی نیک کام کے لیے استعمال میں لاتے، توکیا ہی اچھا ہوتا۔ عُمر کا لحاظ ہے، اس لیے صرف اتنا کہیں گے کہ اس قسم کے مخرب الاخلاق، بے مقصد افسانوں کی کم از کم ہمارے یہاں تو کوئی گنجائش نہیں۔
خوب رنگین، خاصا دل نشین
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا موجود تھے، اور ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید، دونوں ہی کی نگارشات جریدے کے ماتھے کا جھومر تھیں ۔ ’’سرِورق‘‘ پر فادرزڈے کی مناسبت سے عطا الحق قاسمی اپنے خاندان کے ساتھ موجود تھے۔ اچھی تصاویر دیکھنے کو ملیں، ماشااللہ، آپ کا انتخاب لاجواب ہے۔
’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا صفحہ بھی شان دار انداز میں مرتب کیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فائزہ مشتاق کا افسانہ ’’گھنا سایا‘‘ پسند آیا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں اچھے اچھے پیغامات پڑھنے کو ملے۔ قصّہ مختصر ، پورا شمارہ ہی خوب رنگین، خاصا دل نشین معلوم ہوا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جی، ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر شمارے پر عمومی اور خاص شماروں پر خصوصی محنت کی جائے تاکہ قارئین کو مایوسی نہ ہو۔
فی امان اللہ
7مئی کی اندھیری شب مشرقی سرحد سے ہماری جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کا آغاز ہوا۔ 10مئی صُبح، دن کے اجالوں میں پاکستانی شاہنیوں نے اِس سہ روزہ شرانگیزی کا بھرپور جواب دے کرخاتمہ کردیا۔ اگلے روز اتوار کو اپنے جنگ اخبار میں ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کی تفصیلات پڑھ کر تن قوی اور من جری ہوگیا۔ اور پھر ’’سن ڈےمیگزین‘‘ کے مدرزڈے ایڈیشن کا مطالعہ شروع کیا۔ خصوصی اشاعت میں عظیم پاکستانی خواتین محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ تین ڈکٹیٹرز اِن دخترانِ وطن کو30سال پریشان کرتے کرتے خُود نشانِ عبرت بن گئے۔
اگلے صفحے پر جدید بائیو میڈیکل ٹیکنالوجی ’’آرٹیفیشل وومب‘‘ پرقارئینِ رسالہ کو دعوتِ فکر دی گئی۔ پھر مشرقی سرحد کے کشیدہ ترین حالات کو صرف دو تصاویر سے شان دار انداز میں آشکار کیا گیا۔ ’’عالمی یوم ماں‘‘ کی نسبت سے ’’پیارا گھر‘‘ ماں اور ممتا کی مہک سے مُشک بار تھا۔ مضمونِ زیریں کا فقرۂ اولیں پڑھ کر قلبِ سلیم دوچند شاداں ہوا۔
تاہم، بالائی آرٹیکل میں لکھالکھاریہ کا یہ جملہ پڑھ کے کہ’’اب تو دلہنیا سُسرال میں پہلے دن کا آغاز مما سے املا لےکرکرتی ہے‘‘ جگرِ حلیم کو چنداں شادمانی نہ ہوئی، یادش بخیر، ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘۔ مرکزی صفحات گویا ’’مدرزڈے سلیبریشن‘‘ کا کلائمیکس تھے۔ ’’ماں کا احساس چھاؤں جیسا ہے…‘‘واہ واہ، کیا بات ہے۔ نرسز کے عالمی یوم کی مناسبت سے خصوصی تحریر بھی گویا ’’ونڈرفل ٹربیوٹ ٹو ہیلنگ ہینڈز‘‘ ثابت ہوئی ۔
اِک پیکرِسفید پوش کی کچھ ایسی پذیرائی کی گئی کہ ؎ رُوح تک آگئی، تاثیر مسیحائی کی۔ اگلے صفحے پر کائنات کی سُندری، ’’ماں‘‘ پر اگرچہ تین سُندر کہانیاں تھیں، مگر سُندس سندیسہ اِک ہی تھا ’’انسانیت کی شان، پیاری ماں‘‘۔ ’’مدرزڈے‘‘ کے حوالے سے پورا جریدہ سرورق تا پشتِ صفحہ تک ممتا کی مہک سے معطّر تھا، تو افسانوی صفحہ بھی سخنِ صنفِ نازک ہی سے مزین دکھائی دیا۔
پیغامی صفحے پر کشمیر سے کشمور اور پشاور سے لاہور تک آئے سبھی محبّت نامے بھی سرمایۂ جہاں، ایثارکیش ماں کے نام تھے۔ اور صفحۂ آخر’’آپ کا صفحہ‘‘ تو بس ایک ’’محبت نگری‘‘ ہی ہے۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: آپ کی ہفتہ وارآمد بحال ہوگئی ہے، اور اِس بحالی کے ساتھ ہی ’’مسندِ اعزازی‘‘ سے کئیوں کا بستر گول ہوا۔
گوشہ برقی خطوط
ای میل آف دی ویک
* ارے ہم زندگی کے متعدّد جھمیلوں میں ذرا مصروف کیا ہوگئے، عوام نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک معصوم مشرقی لڑکی پر چڑھائی کر دی۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ ان کے خطوط شامل ہی نہیں ہونے چاہئیں۔ وہ کیا ہے ناں کہ کسی کے تھراپسٹ نے پوچھا کہ جب لوگ ہمیں بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنائیں، تو کیا کرنا چاہیے؟ تو مجھ جیسے ہی کسی خبطی نے جواب دیا کہ اُن کو تنقید کی کوئی وجہ فراہم کر دینی چاہیے۔ تو ’’شریکوں‘‘ کے لیےعرض ہے کہ کر لیجیے اپنی توپیں چالو کہ ہم پھر سے حاضر ہوگئے ہیں، تنقید کی بہت سی نئی وجوہ سمیت۔
ویسے جہاں ہم ہدایات کے عین مطابق، لاگ لپیٹ کے تکلف کے بغیر ناقدین کوکڑوی کسیلی سُناہی چُکے ہیں تو یہ بھی کہے دیتے ہیں کہ جن صاحب نے توپوں کا رُخ ہماری طرف کیا تھا، اَن جانے میں ہمارا بہت ہی بھلا کربیٹھے کہ جیسے آپ نے ہمارے قلمی نام اور طرزِ تحریر کا دفاع کیا، بلامبالغہ کم ازکم بھی ایک آدھ مہینہ تو مزید کسی ego boost کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ افسوس تو اب یہ کھائے جارہا ہےکہ ایسی توصیف ہی مقدر تھی تو اصل شناخت ہی استعمال کر لیتے۔
اب اس سے پہلے کہ آپ باقی ماندہ مندرجات کو زیرِ بحث نہ لانے پراوجِ ثریا سے سیدھا زمین پر پٹخ دیں، سلسلوں کی طرف آتے ہیں۔ (آپ کا کوئی بھروسا ہی تو نہیں، اسی لیےاصل شناخت کے ساتھ سامنے نہیں آ پاتے کہ کسی دن ’’بزتی جئی‘‘ہوگئی تو سہہ نہیں پائیں گے۔ اساں نازک دل دے لوک آں) ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے مغرب کے احتجاج کا ذکر کیا، ہمیں تو گوروں کا مختلف یونی ورسٹیز، کانفرنسز اور دیگرمواقع پرفلسطینیوں کے حق میں ببانگِ دہل احتجاج ہمیشہ ہی شرمندہ کرجاتا ہےکہ ہم نے یوکرین تو کیا، کبھی اویغور مسلمانوں کے لیے بھی آواز اٹھانےکی زحمت نہیں کی، جو ہمارے ہمالیہ سے گہرے دوست چین میں انتہائی نامساعد حالات میں جی رہے ہیں۔
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر صاحب نے یوٹیوب کا ذکر کر کے ہماری دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا کہ ہمارے والدین بھی یوٹیوب کی ویڈیوز پر دل وجان سے ایمان لےآئےہیں، اور اس معاملے میں ہماری ہر دلیل، منطق دوچاردن سے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں کرن اچھی نیّت کے ساتھ ایک اچھا پیغام لےکرآئیں، لیکن ایک مشرقی لڑکی کو(جس پر پہلے ہی مغربی ہونے کا ٹھپّا لگ چُکا ہے) کنوینس نہیں کر پائیں۔ تحریر میں بہتری کی گنجائش تھی کہ ہم بذاتِ خُود حجابی ہونے کے باوجود کرن کے دلائل سےخاصے قائل نہ ہو پائے۔ ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ پڑھتے پڑھتے تو ہم بھی اپنے بچپن ہی میں کہیں پہنچ گئے، جب دل چاہتا تھا کہ بس کسی طرح جلدی سے بڑے ہوجائیں، اور زندگی کی سب سے بڑی پریشانی ہوم ورک مکمل کرنا ہوا کرتی تھی۔ علامہ اقبال سے متعلق دونوں تحاریر معلومات افزا تھیں۔
شاعرِ مشرق سےمتعلق توہم جتنا جانتے ہیں، اُتنا ہی مرعوب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آخر میں بس اتنا ہی کہیں گے کہ آپ کی طرف سے کسی قسم کی مزید تعریف کی صُورت میں ہم زیادہ دیر اپنی شناخت مخفی نہ رکھ پائیں گے، سو،اِس گرتی ہوئی دیوارکودھکا نہیں، پلستر لگا کر ڈھارس دیجیے گا۔ (مشرقی لڑکی، الرحمان گارڈن، فیز 2، لاہور)
ج: بس، تم جیسے شان دار لکھاری میسّر رہیں ناں، توبخدا نہ کبھی مزاج برھم ہو، نہ لکھنے پڑھنے سے جی اُکتائے۔ تمھارے لیےمشورہ ہے، ہماری نئی لکھاری ثانیہ انور کی طرح مختلف النوع موضوعات پر قلم اٹھاؤ، یہ ننّھا سا ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ تمھارے اصل جوہر نہیں کھول پا رہا۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk