• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفر فسانے: تین بھائی، ’’پیرو‘‘ میں (حصّہ دوئم)

ڈاکٹر طاہر نقوی (صدر، اُردو بیٹھک،برطانیہ)

سلیقے سے رکھی انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں: مرکزی چوک کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ، فرانسسکو کیتھیڈرل، میوزیم اورکیٹا کومباس تھا۔ یہ عظیم الشان چرچ1674ء میں تعمیر کی گئی۔ اس قدیم کلیسا کی دیواروں اور چھتوں پر سونے، چاندی کی ملمّع کاری سے خُوب صُورت نقّاشی کی گئی ہے۔ ہرکونے میں چھوٹے چھوٹے گِرجا گھر، چیپلز (chapels) موجود تھے، جن سے چرچ کا روحانی تقدّس اور جمالیاتی حُسن جلوہ گر تھا۔ چرچ کے ایک حصّے میں فرش پرنصب جالیوں سے نیچے جھانکنے پردل دہلا دینے والا منظر سامنے آگیا۔ 

ہم نے تجسّس سے نیچے کی طرف دیکھا، تو بے شمار انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں مخصوص ترتیب اور سلیقے سے رکھی نظر آئیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ ’’ماضی میں علیٰحدہ قبرستان کا رواج نہیں تھا، لوگ اپنی بخشش کی خواہش میں چرچ کے نیچے دفن ہونا پسند کرتے تھے۔ اس کے لیے چرچ کی انتظامیہ ایک مخصوص فیس وصول کرکے اس مقام پر لاش رکھ دیتی تھی۔ایک اندازے کے مطابق، ستّر ہزار سے زائد افراد اب بھی اس چرچ کے نیچے دفن ہیں۔‘‘ گائیڈ کی رہنمائی میں ہم نیچے اُترے اور وہ حصّے دیکھے، جہاں خاموشی، ہلکی بساند اور انسانی باقیات تھیں۔ سیکڑوں انسانی ہڈیاں جگہ جگہ ترتیب سے رکھی تھیں۔

تصویر یا ویڈیو بنانا ممنوع تھا۔ سو، ہم نے بھی پابندی کا احترام کیا اور وہاں سے ’’لارکو میوزیم‘‘ کی طرف بڑھ گئے۔ پیروکی تاریخ، تہذیب، فنون اور رسوم کا خزانہ، لارکو میوزیم کی بنیاد عظیم پیرووین مؤ رخ، رافیل لارکو ہویل نے رکھی۔ اس تہذیبی خزانے میں خاص طور پر سرامک کے برتن اس انداز سے محفوظ ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ ہزاروں سال پرانے ہیں۔ میوزیم کا ایک حصّہ انسانی قربانی سے متعلق ہے، جس میں بتایا گیا کہ ماضی میں اس کے لیے خاص جسمانی اور روحانی تیاری کی جاتی تھی۔ 

ڈاکٹر طاہر نقوی، ارشدخان، مبشر زیدی لیما میں، بحرالکاہل کے کنارے (دائیں سے بائیں)
ڈاکٹر طاہر نقوی، ارشدخان، مبشر زیدی لیما میں، بحرالکاہل کے کنارے (دائیں سے بائیں)

تاریخی میوزیم کا ذکر اس کے دل کش کیفے کے بغیر نامکمل ہے۔ مختلف قسم کے پھولوں، بیلوں اور سبزپودوں سے ڈھکا یہ کیفے کسی جنّت نُما کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہم نے یہاں کچھ وقت گزارا اور پیرو کی خاص کافی پی، جس کی خاصیت ہے کہ یہ تلخ، تیز اور خوشبودار ہوتی ہے۔ دن کے اختتام پرایک نیا حلال ریسٹورنٹ ڈھونڈا اورکھانا کھا کرہوٹل واپس پہنچے کہ اگلی صبح ’’کسکو‘‘ کی طرف روانگی کا ارادہ تھا۔

نیاشہر، نئی اونچائیاں، نیا فسانہ: 14 مئی کی صبح،سورج نے اپنی نرم کرنوں سے پہاڑوں کوبےدار کیا، تو ہم ایک خوش ذائقہ ناشتا کر کے کسکو کی جانب روانہ ہوگئے۔ طیارے نے فضا کوچیرتے بلند ہونا شروع کیااور کچھ ہی دیربعدزمین کی گودسے اینڈیز پہاڑوں کا سلسلہ نمودار ہونے لگا۔ بلندوبالا چوٹیوں میں سے چند ایک پربرف کی چادر تَنی تھیں۔ پونے دو گھنٹے کے خواب ناک فضائی سفر کے بعد جب طیارہ کسکو کے ہوائی اڈے پر اُترا، تو ڈرائیور ندارد، پتاچلا کہ شہر میں ٹرانس پورٹ یونینز کی ہڑتال جاری ہے، لیکن ہم نے ہمّت نہ ہاری اور تھوڑی تگ و دو کے بعد ایک متبادل ٹیکسی حاصل کرنے میں کام یاب ہوہی گئے، جس نےہمیں جلد ہی ’’کالے چھپارا‘‘کے مقام تک پہنچادیا۔

جہاں ہم پہلے ہی سے ایک پرانے، مگر دل کش محلّے میں اپارٹمنٹ بُک کرواچکے تھے۔ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، تو اس کی جدّت وخُوب صُورتی خوش گوار حیرت میں ڈال گئی۔ کچن میں تمام سہولتیں مہیّا تھیں۔ گلی کے موڑ پر ’’اورین‘‘ کے نام سے ایک بڑی، جیتی جاگتی مارکیٹ بھی موجود تھی۔ تھوڑاآرام کرنے کے بعد ایک کپ چائے سے تازہ دم ہوئے اور پھر کسکو کی گلیوں، رستوں کی خاک چھاننے کے لیے روانہ ہوگئے۔ 

کسکو، وہ شہر ہے، جو کبھی ’’انکاتہذیب‘‘ کا دل تھا، آج بھی اپنے پُرشکوہ ماضی کا گواہ ہے۔ یہیں وہ مقام ہے، جہاں انکاباشندوں نے سورج دیوتا کے لیے ایک عظیم مندر تعمیر کیا تھا۔ سورج، انکاؤں کے لیے روحانی زندگی کی علامت اور عقیدت کا درجہ رکھتا تھا۔ وقت نے پلٹا کھایا اور اس مقدّس مقام پر ہسپانوی نوآبادیاتی دَور میں’’ سانتو دومینگو‘‘ نامی کانونٹ تعمیر کی گئی، جس کی بنیادیں، باقیات اور خاموش دیواریں آج بھی اس قدیم تہذیب کی سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ 

شہر میں اسپینش دَور کی تعمیرات اپنی اصل شکل میں موجود ہیں۔ پتھریلی گلیاں، نوآبادیاتی طرز کے چوراہے، بالکونیوں والے گھر اور چُونے سے پُتی دیواریں، سب مل کرتاریخ کےاوراق کو زندہ کردیتے ہیں۔ کسکو کا دل ’’پلازا دے آرمس‘‘ پر ایک وسیع وعریض چوک ہے، جسے چاروں طرف سے گرجا گھروں، کیفے، اور تحائف سے سجی دکانوں نے گھیر رکھا ہے۔

سکھرکا ہم نفس شہر: لیما ،کراچی جیسا ہلچل بھرا شہر ہے، تو کسکو، سکھر کا ہم نفس نرم، مانوس، کچھ حد تک پہاڑی مزاج کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ کسکو کی وادیاں اگرچہ اپنی خُوب صُورتی سے آنکھیں خیرہ کرتی ہیں، مگر اُن کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے خاصی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ سیّاحتی مقامات زیادہ تر پہاڑوں پر واقع ہیں، جہاں تک رسائی کے لیے نہ صرف حوصلہ، بلکہ جسم کی طاقت بھی ضروری ہے۔ شاید اسی لیے شہر کے گلی کوچوں میں جگہ جگہ مساج پارلرزقائم ہیں۔جہاں عام مساج کے علاوہ گرم پتھروں سے بھی مساج کیا جاتا ہے۔اس کے لیے پتھروں کو گرم کرکے جسم کے مختلف حصّوں پررکھا جاتا ہےاور تھوڑی ہی دیر میں ساری تھکن پگھل کر گویا ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔

چھوٹی چھوٹی لانڈریاں: کسکو شہر میں متعدد ایسی چھوٹی چھوٹی لانڈریاں موجود ہیں، جوچند گھنٹوں میں کپڑے دھو، سُکھا کراور تہہ کر کے واپس کردیتی ہیں۔ سفر کی تھکن میں صاف ستھرے کپڑےپہنناکسی نعمت سےکم نہیں لگتا اور نرخ بھی انتہائی کم، یعنی8سول فی کلو۔ وہاں قریب ہی ایک مقامی خاتون نے مسکراہٹ کے ساتھ ہماراخیرمقدم کیا اورایک سٹی ٹور کا پیکیج پیش کیا، تو ہم نے فوراً ہامی بھرلی اورجلد ہی ایک کھلی چھت والی ٹورسٹ بس میں بیٹھ کر شہر کے رنگا رنگ، زندگی سے بھرپور مقامات کی سیرسے لطف اندوز ہونےلگے۔ 

ہر موڑ، ہر گلی، ایک نئی کہانی، ایک نیا منظر، اور ایک نئی حیرت لیے سامنے آتی رہی۔ کسکو کی آبادی تقریباًسوا چارلاکھ ہے۔ گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس شہر کا عالم یہ ہےکہ یہاں آنے والے سیّاح بعض اوقات ’’ارتفاعی بیماری‘‘ (altitude sickness) کا شکارہوجاتے ہیں۔ سردرد، سانس کی کمی، یا تھکن جیسی علامات عام ہیں۔ ایسی کیفیت سے بچنے کے لیے مقامی افراد’’ کوکو‘‘ پودے کے پتّے چباتے ہیں یا کوکا چائے پیتے ہیں۔ ہمیں خوش قسمتی سے اس کی ضرورت نہیں پڑی۔

عالمی ثقافتی وَرثہ: یونیسکو نے 1983ءمیں شہر،کسکو کو عالمی ثقافتی ورثہ (World Heritage Site) قرار دیا۔ ہرسال تقریباً دو ملین (بیس لاکھ) سیّاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ شہر دوسرے مشہور سیّاحتی مقامات کی راہ گزر بھی ہے۔ انکا سلطنت سے پہلے یہاں کلکی قبیلہ آباد تھا۔ روایت کے مطابق، انہوں نےشہرکوایک تیندوے کی شکل میں بسایا تھا۔جب ہسپانیوں نے شہر پر قبضہ کیا، تو انہوں نے ’’انکا دَور‘‘ کی متعدد عمارتیں، خاص طور پر مندروں کو ڈھا کر اُن کی جگہ اپنی عمارتیں اور گرجا گھر تعمیر کیے۔ 

ہسپانیوں نے جب شہر فتح کیا، تو ایک کٹھ پتلی بادشاہ مونکہ نے امورِسلطنت سنبھال کر’’انکا‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ بعد ازاں، سلطنت کے سارے باسی انکا کہلانے لگے۔انکا قوم تہذیب و تمدّن اور علم و فن میں بہت آگے تھی۔ سورج کی پوجا کرنے والے یہ لوگ اپنا ایک مخصوص نظامِ سیاست و معیشت رکھتے تھے۔ ریاست، عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی پابند تھی۔ انکا نے زراعت کو ترقی دی۔ سڑکیں، پُل اور آبی ذخائر تعمیر کیے۔ کوزہ گری، دھات سازی اور پارچہ بافی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسکو صرف ایک شہر نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دارہے۔ 

اس کے گرد و نواح میں بکھرے آثارِ قدیمہ وقت کے سینے میں چُھپے وہ راز ہیں، جو دیکھنے والوں کوحیران اور مسحور کر دیتے ہیں۔ ان ہی مقامات میں سب سے نمایاں ’’ساکسی ہُو ایمان‘‘ کےآثارہیں۔ یہ ایک عظیم الشان قلعہ ہے، جسے کلکی قوم نے گیارہویں صدی کے آس پاس تعمیر کیا۔ اونچی نیچی زمین پر تعمیر کیے گئے اس قلعے کے گرد مضبوط چار دیواری، انتہائی مہارت سےبنائی گئی ہے۔ آب پاشی نظام اور مختلف علاقوں کوملانے والے پتھریلے راستے، اُس دَور کی ذہانت اور منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ہر سال 24جون کو یہاں ’’انتِ ریمی‘‘ یعنی سورج کا تہوار شان دار انداز میں منایا جاتا ہے، جو انکاؤں کی سورج سے روحانی وابستگی اور قدرت سے محبت کا جشن ہوتا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ کسکو کیتھیڈرل آج بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ان کا بادشاہ کا محل تھا، جس پر وقت نے ہسپانوی طرزِ تعمیر کی چادر چڑھا دی۔ 

اس کی دیواریں، ستون، اور سونے، چاندی سے مزیّن نقش ونگار آج بھی زائرین کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ جیسے ہر اینٹ میں وقت کا ایک لمحہ قید ہو۔ قریب ہی، سورج مندر کے آثار بھی موجود ہیں۔ اگرچہ اب وہ اپنی اصل شکل میں نہیں، لیکن ان کے گرد بنایا گیا خُوب صُورت فوارہ، اور مندر کی بچی کھچی دیواریں، ماضی کی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔

سوئیٹر کی قیمت 38ہزار روپے: ٹورسٹ بس ہمیں کسکو کی پہاڑیوں میں لیے گھومتی رہی، ہر موڑ پر قدرتی حُسن اور تاریخی عظمت کے دل کش نظارے تھے۔ بالآخر بس ایک جگہ آکر ٹھہر گئی۔ بس سے اُترتے ہی سامنے مقامی جانوروں کا چھوٹا سا فارم تھا۔ سب سے زیادہ تعداد لاما کی تھی۔ وہی دل چسپ شکل کا جانور، جسے پہلی بار ابوظبی کے شیخ زاید کے جزیرے ’’صیر بنی یاس‘‘ میں دیکھا تھا۔ اسی نسل کا ایک نایاب اور مختصرقامت جانور ’’ویکونا‘‘ بھی ہے۔

خاموش، نازک اور معدومی کے خطرے سے دوچار۔ ویکونا کی اون دنیا کی قیمتی ترین اون مانی جاتی ہے، اور اس سے بُنا گیا ایک سوئیٹر تقریباً چار ہزار ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ اب یہ جانور صرف مخصوص اور محفوظ علاقوں میں افزائشِ نسل کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اسی نسل کا ایک اور جانور ’’الپاکاس‘‘ ہے، جو سائز میں ویکونا سے بڑا، مگر لاما سے چھوٹا ہوتا ہے۔ 

اس کی نرم و ملائم اون سے مقامی دست کار نہایت خُوب صُورت گرم ملبوسات تیار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ الپاکاس کی اون میں قدرت کا عجیب و غریب راز چُھپا ہے۔ سردیوں میں یہ جسم کو حرارت دیتی ہے اور گرمیوں میں خنکی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں کے ہاتھ سے بنے سوئیٹر نہ صرف گرم ہوتے ہیں بلکہ نایاب بھی۔ ایک الپاکا کے خالص اون سے تیار کردہ سوئیٹر کی قیمت400سولز، یعنی ایک سو پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی۔ پاکستانی روپے میں تقریباً38 ہزار۔ لیکن وہ شام، صرف ایک قیمتی سویٹر کی بات نہیں تھی، ایک روحانی تجربہ تھا، جو ہمیں زندگی بھر یاد رہے گا۔

انکا قبیلے کی صدیوں پرانی روایت: گائیڈ نے کیپروس کے علاقے میں ان کا قبیلے سے متعلق پہلے ہی آگہی فراہم کردی تھی، جہاں آج بھی ایک قبیلہ، اپنی صدیوں پرانی روایات کے ساتھ زندہ ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو ایک پروہت، انکا لباس پہنے، ہاتھ میں رسوماتی اشیاء لیے ہمارا منتظر تھا۔ اس کا نام ’’وِل‘‘ تھا۔ شان دار استقبال کے بعد اس کے ساتھ اندر گئے، تو وہاں مذہبی رسم ادا کی جارہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی پروہت نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے ہدایت کی دعا مانگی، مگر مال و دولت کے لیے نہیں، عزت، سلامتی اور قلبی سکون کے لیے۔ 

ہمیں کوکا کے پتّے دیئے گئے۔ وہی پتّے جنہیں انکا تہذیب میں زمین ماں (Pachamama) سے تعلق جوڑنے کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔ پھرایک لوٹے نما برتن میں پانی دیا گیا، جو زمین کے حوالے کیا جانا تھا۔ گویا ایک نذرانہ، ایک قربانی، جو انسان اور فطرت کے درمیان رشتہ مضبوط کرے۔ پھر پروہت نے ایک سنگھ نما قرنا پھونکا، ایک زور دار آوازفضا میں گونجی اور ہم سب نے دل ہی دل میں اپنی اپنی زبان میں دُعا کی۔ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ اور دل ہلکا ساہوگیا۔ 

پھرکوکا کی دھونی دی گئی،اس کی خوشبو فضا میں بکھری، پروہت ایک ایک فرد کے پاس جاکر کچھ پڑھنے لگا۔ ہم تو صرف یہ جانتے تھے کہ اس کے بعد ارشد بھائی سنجیدگی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوگئے،جب کہ مبشر بھائی اور مَیں مزید شوخ ہوئے۔اس شام کا اختتام شہر کے نظارے سے ہوا۔ ایک بلند مقام پر، جہاں سے کسکو کا پورا شہر جگمگاتا نظر آرہا تھا۔ 

نیچے روشنیوں کا سمندر اور اوپر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک بازو پھیلائے عظیم الشان مجسّمہ اِستادہ تھا، گویا شہر کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے رکھا ہو۔ اس تاریخی مقام کے ایک ایک گوشے میں گھومنے اور تصاویر اتارنے کے بعد رات کو ہوٹل کا رخ کیا۔رات کے کھانے کے لیے مَیں نے مٹر چاول بنائے، مبشر بھائی نے تازہ مقامی ٹراؤٹ فرائی کی، کھانا تیار ہونے کے بعد سب نے خوب ڈٹ کر کھایا اور پھر کچھ دیر بعد مطمئن دلوں کے ساتھ، نیند کی گود میں اُتر گئے۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید