دو سال پہلے مئی کی نو تاریخ کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی گرفتاری کے بعد ملک میں سیاسی احتجاج کے نام پر قومی املاک اور فوجی تنصیبات پر حملوں سمیت جو پُرتشدد واقعات رونما ہوئے‘ ان کے انتہائی قابل مذمت ہونے میں کوئی شبہ ممکن نہیں ۔ ان واقعات کے ذمے دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی آئین اور قانون کی بالادستی کا لازمی تقاضا تھی۔ یہ عمل انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مکمل ہوچکا ہے اور ارکان پارلیمنٹ سمیت سینکڑوں افراد کو کئی کئی برس قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں ۔ان فیصلوں کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ روز سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب سمیت 9 ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کو نااہل قرار دیکر قومی اسمبلی وسینٹ کی نشستیں خالی قرار دے دی ہیں۔یہ امر افسوسناک ہے کہ دو سال کی اس مدت میں حکومت اور اپوزیشن میں بات چیت کے ذریعے اختلافات حل کرنے کی کوئی نتیجہ خیز کوشش نہیں ہوسکی جبکہ اس راستے کو اختیار کرکے ملک کو کئی برسوں سے جاری سیاسی انتشارسے نجات دلائی جاسکتی تھی جو قومی مفاد کا نہایت اہم تقاضا ہے۔بہرحال انسداد دہشت گردی کی عدالت کے یہ فیصلے اب اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے مراحل سے گزریں گے اور یوں سیاسی خلفشار کی فضا ملک پر مسلط رہے گی۔اکثر اوقات نچلی عدالتوں کے فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں کیونکہ اپیل کے مرحلے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نچلی عدالتوں میں شفاف اور غیرجانبدارانہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اور ناکافی یا کمزور شہادتوں اور شواہد کی بنیاد پر سزائیں سنادی گئیں۔ اس بنا پر بعض ماہر ین قانون کا یہ مؤقف قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن اپیلوں کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ کے حتمی فیصلوں سے پہلے ارکان پارلیمان کو نااہل قرار نہیں دے سکتا، اگر یہ مؤقف درست ہے تو الیکشن کمیشن کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔