ہم شخصیات کے حوالے سے زندگی گزارتے ہیں اور انکے ہی وفادار ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک، اپنے وطن، اپنی دھرتی سے وفادار ہونا چاہیے۔ شخصیات آنی جانی ہیں ۔سب کو فنا ہونا ہے ۔اس دھرتی کو باقی رہنا ہے جنہیں ملک کیلئے آخری امید کہا جاتا تھا یا کن کی بابت کہا جاتا تھاکہ پاکستان انکے ساتھ نہیں چل سکتا وہ سب منوں مٹی تلے سو رہے ہیں۔کچھ ادارے ،کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل کا حل ایک شخص کا جیل میں رہنا ہے۔ ایک اس سے بڑی تعداد کی ضد یہ ہے کہ مسائل کا حل اس شخص کی رہائی ہے۔ توجہ کامرکز بھی ایک شخص ہے۔ حکم بھی ایک شخص کا ہی چل رہا ہے۔ ملک کے ترجیحی مسائل اِس گرد میں گم ہو چکے ہیں ،انکی شناخت نہیں ہو رہی اس لئے ان سنگین مسائل کے حل کیلئے بھی سب کی صلاحیتیں وقف نہیں ہو ر ہیں ۔میرے نزدیک ہی نہیں بین الاقوامی اداروں اور ماہرین کے خیال میں عالمی بینک،اقوام متحدہ مانیٹرنگ ایجنسیوں کے مطابق بھی پاکستان کو درپیش دو ہی بڑے چیلنج ہیں۔ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے کا سبب بھی ہیں۔پاکستان کی آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے مصدقہ ہے یا غیر مستند۔ بہرحال غربت واہگہ سے گوادر تک ہماری اکثریت کے در و دیوار پر بال کھولے سو رہی ہے۔ یہ ہماری مسلسل غلط ترجیحات ناقص حکمرانی اور بے حسی کا نتیجہ ہے ۔ڈالر 1985 میں 15 روپے کا تھا اب 288 تک پہنچ گیا ہے۔ اس دوران جتنی بھی حکومتیں آئیں یہ ان کی غفلت کا نتیجہ ہی ہے۔ دوسرا مسئلہ ہے ملک پر بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضے جو واجب الادا ہیں۔ مختلف ذرائع معلومات یہ قرضے 267 ارب ڈالر بتا رہے ہیں ہم تین چار ارب ڈالر مزید قرض کیلئےمختلف در کھٹکھٹاتے ہیں۔ مختلف رپورٹیں کہہ رہی ہیں’’پاکستان طوفانی پانیوں میں گھرا ہوا ہے، قرضوں میں ڈوب رہا ہے‘‘یہ رپورٹیں ہمارے حکمرانوں اور اقتصادی ماہرین کو خبردار کرنے کیلئے ہوتی ہیں اور ان کا مجسم نمونہ ہماری اکثریت کی بدحالی میں نظر آتا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے کسی طور زندہ رہنے کے کوششیں کر رہی ہوتی ہے۔پاکستان کا مشاہدہ کرنے والے یہ منظر روزانہ ہی دیکھتے ہیں کہ چند خاندان ایسے خوشحال ہیں کہ ان کی خوشحالی کی کوئی حد نہیں۔ دوسری طرف کروڑوں یعنی کم از کم 12کروڑ کی بدحالی کی کوئی حد نہیں۔ ایک طرف ارباب حل و عقد بھی انکی بدحالی دور کرنے کیلئے فکر مند نہیں اور خود یہ بد حال بھی اسے اپنی تقدیر سمجھ کر کسی نہ کسی طرح دو وقت کی روٹی کا انتظام کر رہے ہیں ۔غیر ملکی قرضے اتارنے ہوں جس سے غربت بھی کم ہوتی ہے ۔اس کیلئے اپنے وسائل پر انحصار بڑھانا ضروری ہوتا ہے۔ اپنے وسائل کو استعمال کیے بغیرقرضے اتارے جانے کی حکمت عملی جو ہم نے اپنائی ہوئی ہے تو قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں اور ایسے قرضوں سے معیشت کو پہیے نہیں لگتے اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع میسر آتے ہیں بلکہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے اکثریت کی صحت تعلیم ترقی کیلئے بجٹ میں پیسے کم پڑ جاتے ہیں ۔اس طرح اکثریت کو بیماریاں لاحق رہتی ہیں ۔بڑی تعداد میں نوجوان تعلیم پوری نہیں کر پاتے۔ زندگی کی آسانیاں فراہم کرنے والے پروجیکٹ کم کر دیے جاتے ہیں۔ اس وقت قرضوں کی ادائیگی کیلئے وفاقی بجٹ کا46 فیصد مختص کیا جا رہا ہے۔1970 میں پاکستان پر پورا قرضہ صرف ساڑھے تین بلین ڈالر تھا ملک کتنا بڑا تھا قرضہ کتنا کم۔ پھر ملک چھوٹا ہو گیا قرضے بڑے ہو گئے۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ غربت دور کرنے اور غیر ملکی قرضے اتارنے کیلئے ایک جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی مرتب کرنا ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں معیشت کو ہر طرف سے ہر قسم کے سنگین چیلنج درپیش ہیں اور سب عالمی ادارے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس بے حساب قدرتی وسائل ہیں توانائی کے ہر قسم کے وسائل دریائی پانی ہوا سورج سب کچھ ہے۔ زرخیز زرعی اراضی قیمتی قدرتی معدنیات جن میں کوئلہ گیس تیل تانبا سونا کرومائیٹ قیمتی پتھر۔ مگر بین الاقوامی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ پاکستانی حکمران غیر ملکی امداد اور قرضوں پر زیادہ بلکہ ضرورت سے کہیں زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔قوم کو اعتماد میں لے کر غربت کے خاتمے اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے کوئی اجتماعی پالیسی ترتیب نہیں دی جاتی ۔خلاصہ یہ کہ ہماری اولین ترجیح خود کفالت ہونی چاہیے ۔جس سے خودداری اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ قوم کے ہر فرد میں کسی عصبیت کے بغیر ایک دوسرے سے تعاون پر آمادگی ہوتی ہے۔ ایک ہدف کا تعین ہو جاتا ہے ۔میں تو اسی لیے پاکستان سنچری کا تعین کر رہا ہوں ۔2047 میں خود کفیل خود مختار پاکستان کے حصول کیلئے ہر پاکستانی کو خود دار بنانے کیلئے ایک 22 سالہ اجتماعی اسکیم تشکیل دی جائے کہ 1۔غربت کی لکیر سے نیچے کسی کو نہیں رہنے دینا۔ 2.اپنے قدرتی اور معدنی وسائل کو خود دریافت کرنا ہے،خود استعمال کرنا ہے، اس میں کسی غیر ملکی کی شرکت نہیں ہونی چاہیے 3.جن 10 فیصد خاندانوں کے پاس ملک کی 40 فیصد دولت ہے اور ملکی وسائل جنکی گرفت میں ہیں وہ معدنیات میں اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں .4.ملک میں اپنی ریفائنریاں لگائی جائیں.5. غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کم سے کم کریں.6. توانائی کی قلت اپنے وسائل سے دور کریں.7. زرعی پیداوار فی ایکڑ بڑھائیں ملک کی زرعی یونیورسٹیاں اس ضمن میں تحقیق کر کے بہت اچھی رپورٹیں دے چکی ہیں،عالمی ما ہرین تین اہداف دے رہے ہیں 1. اقتصادی نمو 2. سب کو روزگار 3. اشیائے ضروریہ کی مستحکم قیمتیں ،اس سے افراط زر میں کمی آ سکتی ہے۔
بدقسمتی ہےکہ اب بھی ہماری ترجیح آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول ہے۔ جتنے بڑے سنگین مسائل ہیں انکے فوری ترجیحی حل ہی میں ہماری کامیابی ہے ۔غربت ہٹانے کیلئے غیر ضروری اخراجات میں کمی ناگزیر ہے ۔مگر ہم پارلیمنٹ کے ممبروں اور ججوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھا رہے ہیں ۔سرکار اور عوام کو کفایت شعاری کی طرف لے جانا چاہیے ہر شہر میں نئے نئے بڑے بڑے ریستوران کھل رہے ہیں جہاں متوسط طبقےکے خاندان بھی آ کر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اس پر بھی اقتصادی ماہرین کو غور کرنا چاہیے کہ کیا اس سے افراط زر میں اضافہ نہیں ہو رہا ، کیا یہ غیر ضروری اخراجات نہیں ہیں ۔کیا ایسے کاروبار کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہئے۔ملک میں کلیدی عہدوں والے اپنے اختیارات کا بےجا استعمال کر رہے ہیں۔ نا انصافی زوروں پر ہے۔ دولت کی تقسیم مساوی نہیں ہے ۔کرپشن بڑھ رہی ہے ۔عرض یہی ہے کہ ان دونوں مسئلوں کے حل کو ترجیح دینے سے ہی ہم 2047 میں پاکستان کی آزادی کی صدی ایک خود مختار خود کفیل پاکستان کی حیثیت سے منا سکتے ہیں اور اپنی اولادوں کو خود دار پاکستانی بنا سکتے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اور قرضوں کی ادائیگی۔