• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ز راعت پاکستان کی معیشت میں استحکام کے حوالے سے اصل اور بنیادی قوت ہے لیکن ملک میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل زراعت شماری کے ذریعے جو مکمل تصویر سامنے آئی ہے وہ حکومت سمیت زرعی شعبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی آنکھیں کھولنے اور اصلاح احوال کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت اجاگر کرنے کیلئے کافی ہے، ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ میں ملک کی زرعی پیداوار میں کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے اس تلخ حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان فی ایکڑ پیداوار کے عالمی معیار سے بہت پیچھے رہ گیا ہے -2047ء تک زرعی معیشت کاہدف 3کھرب ڈالر رکھا گیا تھا جو زرعی شعبے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اس ہدف کا حصول شاید ممکن نہیں ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی 6فیصد اراضی پر 17ہزار زرعی فارم مالکان کا قبضہ ہے اور ان فارموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب زرعی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔ اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے زراعت شماری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو مضبوط بنانا ہے تو زرعی اصلاحات اور کارپوریٹ فارمنگ کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی، ایک طرف زمین کی تقسیم اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی کا دبائو ہے، بارانی زمینوں کی کمی ایک اور فکر انگیز مسئلہ ہے جو ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ زرعی شعبے میں مویشی بہت اہمیت رکھتے ہیں اس وقت ملک میں 25کروڑ سے زائد گائے، بھینس، بھیڑ بکریاں، اونٹ، گھوڑے، خچر اور گدھے ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی خوردنی اجناس کے علاوہ کپاس میں بھی نمایاں ہے جو ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں سے کم ہوکر صرف 50لاکھ گانٹھوں تک رہ گئی ہے۔ اس کمی کو زرعی اصلاحات کے ذریعے ہی بڑھایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین