• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفر فسانے: تین بھائی، ’’پیرو‘‘ میں... (آخری حصّہ)

ڈاکٹر طاہر نقوی (صدر، اُردو بیٹھک، برطانیہ)

مقدس وادی، سیکرڈ ویلی کی سیر: علی الصباح بے دار ہوئے، تو تھکن کافی حد تک اُتر چکی تھی۔ آج ہمیں سیکرڈ ویلی کی سیاحت کے لیے جانا تھا۔ ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق گاڑی ہمیں لینے اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچ گئی۔ دل میں ایک اَن جانی سی خوشی تھی کہ وقت ماضی کی گہرائیوں میں لےجانے والا ہے۔

سیکرڈ ویلی، دراصل کسکو کے گردونواح میں پھیلے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور ان کے قدیم آثار کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ ’’وادئ ویرونیکا ‘‘ ایک ایسے پہاڑ کے سائے میں واقع ہے، جو آسمان سے باتیں کرتا محسوس ہوتا ہے اوراس کی گود میں بہتا ’’اوروبمبا دریا‘‘ زمین کو سیراب کرتا اور فصلوں کوزندگی دیتا ہے۔ 

یہ سرزمین نہایت زرخیز ہے، جیسے فطرت نے ساری سخاوت اسی پر نچھاور کردی ہو۔ یہاں کی تاریخ، انکا سے بھی پرانی تہذیب ’’چاناپاتا ‘‘سے جڑی ہے، مگر انکا سلطنت نے اپنے دورِعروج کے آخری سو برسوں میں اسے اپنی حکمت، عقیدت اور فنِ تعمیر سے روشن کیا۔ ان کا اثرات آج بھی اس وادی میں سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ پتھروں پرنقش، زمین پر چلتے قدموں میں گونجتے اور ہوا میں مہکتے۔ تقریباً ایک سو کلومیٹر پر پھیلی اس وادی کےہر موڑ، ہر چٹان کے پیچھے، ایک نئی کہانی، ایک نیا راز چُھپا محسوس ہوتا ہے۔

یہاں صدیوں سے مکئی اور آلوکی کاشت ہورہی ہے، بلکہ یہیں کہیں انسان نے پہلی دفعہ آلو کاشت کیا ، جس کے بعد پوری دنیا میں اس کی کاشت ہونے لگی۔ یہاں آلو اور مکئی کے علاوہ مختلف پھلوں کی بہار بھی نظر آتی ہے۔ سیب، ناشپاتی، آڑواورانجیر کی خوشبو فضا میں بسی رہتی ہے۔ گویا، یہ ایک ایسی وادی ہے، جو صرف دیکھی نہیں، محسوس بھی کی جاتی ہے۔ جیسے وقت، مٹّی اور یادیں یہاں خاموشی سے باتیں کرتی ہوں۔ پہاڑوں کے دامن میں چُھپی مقامی مارکیٹ ہمیں ایک نئی دنیا میں لےگئی۔ روایتی لباس پہنےانکا خواتین چلتی پھرتی دکھائی دیں۔

ان ہی میں سے ایک مقامی لڑکی ہمارے قریب آئی اورچند جڑی بوٹیاں دِکھاکر ان کے خواص بتانے لگی۔ اُس کے پاس کچھ پتّے بھی تھی، جس کے متعلق بتایا کہ یہ قدرتی طور پر بالوں کوسیاہ کر دیتے ہیں اور کچھ صفائی اورصحت کے لیے شیمپو کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کے اثرات دکھانے کےلیےاس نے سادہ کپڑے پر عملی تجربات بھی کرکے دکھائے-علاوہ ازیں، اس بازارمیں الپاکا اون سے بنی شالز، نرم گرم سوئیٹراورمقامی دست کاری کے متعدد نمونے بھی دیکھنے کو ملے۔

ماضی کا رنگین اور پُرہجوم بازار، چنچیرو: قصبہ چنچیرو، ماضی میں اپنے رنگین اور پُرہجوم بازار کے لیے جانا جاتا تھا۔ تاہم، آج بھی یہاں ہفتے میں ایک دن، ایک بڑی مقامی مارکیٹ سجائی جاتی ہے۔ یہاں کے بازار کے بیچوں بیچ انکا تہذیب کے نشانات اب بھی باقی ہیں۔ مگر وقت کا ستم دیکھیے، ان عظیم محلّوں کی بنیادوں پر ہسپانویوں نے اپنی چرچ قائم کرلی۔

زمین پر رکھے ان پتّھروں کو اس خُوب صُورتی سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اُن پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے، تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی پرانا مندر سانس لے رہا ہو۔ اس بصری جادو کو دیکھنے اور قصبے میں کچھ دیر مٹر گشت کے بعد، یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر موجود ایک تاریخی مقام ’’مورے‘‘ کی جانب روانہ ہوگئے۔

مورے، انسانی ذہانت اور فطرت کی ہم آہنگی کی نادر مثال ہے۔ یہ انکا دور کی ایک زرعی تجربہ گاہ تھی، جہاں مختلف بلندیوں پردائرہ در دائرہ پلیٹ فارم قائم کیےگئےتھے۔ ہر پلیٹ فارم پر ہوا کا بہاؤ، نمی، اور دھوپ کا زاویہ مختلف تھا۔ انکا لوگ، ان سطحوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے آ لو اورمکئی کی نئی اقسام تیارکرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں آلو کی ڈھائی ہزار اقسام پر تحقیق کی گئی۔

ماراس کے نمک تالاب : چنچیرو کے بعد ہماری اگلی منزل، ماراس کے نمک کے تالاب تھی۔ جب سالینیرس دی ماراس پہنچے، تو سامنے ایک عجیب سا منظر تھا۔ پہاڑوں کی گود میں، جیسے زمین نے ہزاروںشفّاف آئینے سجا دیے ہوں۔ یہاںنہ کوئی دریا ہے، نہ بارش کا پانی جمع ہوتا ہے، صرف ایک چشمہ بہتا ہے ، پہاڑوں کے دل سے اُبلتا ہوا ایک نمکین چشمہ، جو شاید ازل سے رواں ہے۔یہ چشمہ وادی میں آکرعجیب طریقے سے ہزاروں چھوٹے چھوٹےحوضوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، جنھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انجینئرنگ کے ماہر ہاتھوں نے انتہائی نفاست سے ترتیب دیا ہے۔ 

مبشر زیدی، ڈاکٹر طاہر نقوی، ارشدخان، ماچو پیچو ٹریک 3 پر (دائیں سے بائیں)
 مبشر زیدی، ڈاکٹر طاہر نقوی، ارشدخان، ماچو پیچو ٹریک 3 پر (دائیں سے بائیں)

نسل دَرنسل اسی زمین سے وابستہ مقامی افراد نہایت محنت اور سلیقے سے اس پانی سے نمک الگ کرتے ہیں۔ یہاں تیار کیا جانے والا نمک عام نمک سے الگ ہے۔اس میں معدنیات کی آمیزش ہے،جو طبی لحاظ سے اسے انتہائی مؤثر بناتی ہے۔ یہاں کا نمک بیش قیمت ہے، مگر اس کی اصل قیمت وقت، روایت اور زمین کی گہرائیوں میں چُھپی کہانیوں سے منسلک ہے۔ ماراس کی نمکین فضا، سورج کی سنہری کرنوں میں نہائے سفید تالاب، مقامی باشندوں کی سادہ مسکراہٹیں اور پس منظر میں بجنے والی پیرو کی موسیقی ہمارے دل پر ایسی یادگار چھاپ چھوڑ گئی، جو شاید عُمر بھر نہ دُھلے۔

اروبمبا میں بوفے: ماراس کے بعد ہماری گلی منزل ایک سبزہ زار کے دامن میں بسے شہر اُروبمبا تھی۔ بھوک زوروں کی لگی ہوئی تھی، لہٰذا قریب ہی ریستوران کا رُخ کرلیا۔ ریستوران میں داخل ہوتے ہی تازہ جوسز کی خوشبو، ذائقوں سے لب ریز کھانوں کی مہک اور قہقہوں کے شور نے ہمارا استقبال کیا۔ بوفے میں ہر ایک کے ذوق کی تسکین کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور تھا۔ سبزی خوروں کے لیے لذیذ پکوان، مچھلی کے شوقینوں کے لیے متنوّع ڈشز اور ساتھ ہی ماحول ایسا صاف ستھرا کہ دل کرے، وہیں بیٹھے رہیں اور وقت تھم جائے۔ 

تقریباً تین سے چار سو افراد بہ یک وقت لذتِ کام و دہن میں مشغول تھے، مگر کوئی بےترتیبی نہیں تھی۔ ہم بھی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے اور کھانے کا انتظار کرنے لگے، تھوڑی دیر میں انواع و اقسام کے لذیذ لوازمات ہمارے سامنے تھے، ابھی ہم اچھی طرح سیر ہوکر کھابھی نہ پائے تھے کہ گائیڈ نے اگلی منزل، انکا سلطنت کے قلعے کے حوالے سے مختصر بتاکر جلد از جلد کھانے سے فارغ ہونےکی ہدایت کردی۔ سو، کھاتے ہی اولینٹئے ٹیمبو کی جانب روانہ ہوگئے، جہاں پہاڑوں کے بیچوں بیچ ایک تنگ، پُراسرار وادی میں انکا سلطنت کا قلعہ واقع ہے۔ 

اس وقت وہاں سورج کا ایک مندر زیرِتعمیر تھا، جسے وقت اور اسپینش یلغار کے باعث اُدھورا چھوڑ دیا گیا۔ انکا تہذیب کے حوالے سے سوچتے ہوئے ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے، اسرار اور تجسّس میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، پہاڑ کی ڈھلوانوں پر بنے پلیٹ فارمز پر اُس دور کے مخصوص طرزِ تعمیر کا ابھی حیرت سے جائزہ لے رہے تھے کہ اچانک گائیڈ کی آواز نے چونکا دیا۔ ’’پندرہ منٹ میں چڑھنا بھی ہے، فوٹو بھی لینا ہے اور واپس بھی آنا ہے۔‘‘ گائیڈ کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ہم دوڑ پڑے، اوپر چڑھے، سانس اکھڑی، پسینہ بہا، جلدی میں چند تصویریں کھینچیں اور اُتر آئے۔ واپسی پر تصویر دھندلی تھی، لیکن یادگار، بے مثال۔

انکا آثار کا سب سے بہترین محفوظ مقام: اب ہمیں پیساق (Písac) پہنچنے کی جلدی تھی۔ ایک ایسی جگہ، جہاں وقت شام کی دہلیز پر تھا اور آثارِ قدیمہ کے دروازے بس بند ہونے کو تھے۔ ڈرائیور نے تیز رفتاری سےوادئ مقدّس کے پیچ و خم کاٹتے ہوئے وقت پر پہنچا دیا۔ پیساق، انکا آثار میں سب سے بہترین محفوظ مقام ہے۔ 

تقریباً 60ہیکٹر پر پھیلے اس مقام پر رہائشی مکانات، فوجی زون، واچ ٹاورز، اور پہاڑوں کی چوٹیاں سبھی ایک دوسرے سے ہم کلام دکھائی دیئے۔ یہاں پہاڑوں میں تین ہزار کے قریب تراشے گئےسوراخ میں ممیوں کی قبریں تھیں۔ انکا تہذیب میں بھی مُردوں کے ساتھ اشیاء اور زیورات محفوظ کیےجاتے تھے۔ ہم واپس شہر کے مرکز پہنچے، تو شام ہوچکی تھی۔ تھکن ہڈیوں میں سرایت کر گئی تھی۔ سو، کمرے میں پہنچ کربسترپر لیٹتے ہی خوابوں کی دنیا میں کھوگئے۔

ماچو پیچو(آگواس کالینتس) کا سفر: اگلی صبح گرم چائے، انڈے، پنیر اور مقامی پھلوں سے ناشتا کیا۔ یہ ایک زادِ راہ تھا، کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ جس سفر پرنکل رہے ہیں، حلال کھانے کی امید کم ہی ہے۔ میزبان ڈرائیور نے دروازے پر دستک دی اور ہم سامان سمیت اسٹیشن پہنچ گئے، جہاں ایک لگژری کوچ منتظر تھی۔ نرم نشستیں،بڑی کھڑکیاں اور مستعد میزبان۔ پہاڑی رستوں کی پیچیدہ پگڈنڈیوں پر یہ کوچ ریشم کی طرح بہہ رہی تھی۔ ایک جھیل کنارے مختصر قیام کے بعد ہم ’’ٹامبو اسٹیشن‘‘ پہنچ گئے۔یہاں سے آگے کا سفر ہمیں خاص آبزرویٹری ٹرین میں کرنا تھا۔ یہ ٹرین ایک چلتا پھرتا خواب تھی۔ 

چھتوں میں بھی شفّاف شیشے، چاروں طرف قدرتی مناظر، ایک طرف بلند وبالا سبز پہاڑ اور دوسری طرف دریا کا رواں پانی ایک قدیم کہانی ازسرِنو سناتا ہمارے ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا۔ ٹرین کے اندر مفت کافی، چپس اور خوش ذائقہ اسنیکس مہیّا تھے۔ ہروہ چیز جو حلال نظرآئی، ہم نے شکریہ ادا کرکے چکھ لی۔ اچانک ایک اعلان ہوا۔’’آخری ڈبے میں ثقافتی شو کا آغاز ہوچکا ہے۔‘‘ ہم دوڑ پڑے۔ مقامی لباسوں میں ملبوس فن کار، جان دار موسیقی اور ناچتے گاتے چہرے۔ زندگی اپنےاصل رنگ میں سامنے تھی۔ 

رنگین، بے ساختہ، خوش جمال۔ ٹرین کی آخری بوگی کو پیچھے سے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ فوٹو بنوانے کے لیے یہ بہت خوب صُورت جگہ تھی۔ ہوا کے جھونکوں میں پہاڑوں، دریا کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔ دُورجاتی پٹری اور بَل کھاتا دریا… منظر ایسا تھا کہ آنکھوں کے رستے دل میں قید ہوگیا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹےکے جادوئی سفرکے بعد ہم ’’ماچو پیچو‘‘ شہرمیں تھے، جسے مقامی افراد’’آگواس کالینتس‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں زمین گرم چشموں کے پانیوں سے فیض یاب ہوتی ہے۔

یہاں کے لیے بھی ہم نے پہلے ہی سے مقامی ہوٹل میں ایک آرام دہ کمرا بُک کروا رکھا تھا۔ لہٰذا کمرے میں سامان رکھ کر اس قدیم، پہاڑی شہر کی سیّاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ہر موڑ پر رنگین ریسٹورنٹس، ہنستے، مُسکراتے مقامی افراد کے ساتھ دنیا بھر سے آئے سیّاحوں کی بھیڑمیں ہم بھی شامل ہوگئے۔ تھکن غالب آنے لگی، تو تازہ مقامی پھل،چند کروساں اورایک قد آدم گلاس میں گرم گرم پیرَوین کافی پی کر ہوٹل کا رُخ کرلیا۔

انکا سلطنت کا گم شدہ شہر: اگلے دن ہماری نگاہیں جس منزل کی طرف تھیں، وہ تھے ماچو پیچو کے آثارِ قدیمہ، انکا سلطنت کا گم شدہ شہر۔ یہ مقام صرف ایک تاریخی یادگارنہیں، وقت کے دریا میں ڈوبا ایک راز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہسپانوی غلبے کے بعد انکا بادشاہ نے حکم دیا تھا کہ تمام لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں چُھپ جائیں۔ قبل ازیں، مقامی لوگ بڑی تعداد میں وباؤں اور مظالم سےفنا ہوچکے تھے، کچھ بچ جانے والے ایمیزون جنگل کے بیچ یا انڈیز کے بلند پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔

ماچوپیچو بالکل ویران ہوگیا، اور پھر جنگلوں نےاسے اپنے اندر سمو لیا۔یوں، جیسے زمین نے اسے اپنی آغوش میں چُھپا لیا ہو۔ پھر ایک دن،1911ء میں، ییل یونی ورسٹی میں تاریخ کا ایک امریکی پروفیسر حیرم بنگھم (Hiram Bingham) ایک گم شدہ انکا شہر کی تلاش میں نکلا۔ ایک مقامی گائیڈ میلکر آرٹی آگا نے اسے بتایا کہ وہ ایک خاص جگہ جانتا ہے اور وہاں اسے وہاں لے جاسکتا ہے۔ جب وہ پہاڑوں کے بیچ پوشیدہ مقام پر پہنچے، تو جھاڑ جھنکار اور بیلوں کےدرمیان چُھپی کچھ دیواروں، کچھ پتھروں اور صدیوں کی خاموشی نے اُن کا استقبال کیا۔ 

بنگھم اس خزانے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس نے کچھ تصویریں لیں اور واپس ییل یونی ورسٹی پہنچ کرنیشنل جیوگرافک میں ایک مضمون لکھ دیا۔ مضمون کے شائع ہونے کے بعد دنیا حیران رہ گئی۔ فنڈز جمع کیے گئے نیشنل جیوگرافک، ییل یونی ورسٹی اور کوڈک نے بڑا حصّہ ڈالا، ٹیمز واپس آگئیں، اور ماچوپیچو ایک بارپھردھیرے دھیرے دھوپ کی روشنی میں زندگی کی طرف واپس آنے لگا۔ ماچوپیچو شہر سے آثارِ قدیمہ تقریباً چالیس منٹ کی ڈرائیو پرواقع ہے، جسے ان کا جغرافیائی محلِ وقوع منفرد بناتا ہے ۔ ایک طرف اینڈیز کے بلند و بالا پہاڑ ہیں، تو دوسری طرف ایمازون کے گھنے جنگلات۔ 

اس خاص محلِ وقوع کی وجہ سے یہاں مختلف اقسام کے نایاب پھول، پودے اور حیرت انگیز رنگوں کے پرندے پائے جاتے ہیں، جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔اس راستے پر خاص بسیں چلتی ہیں، جن میں سوار ہونے کے اہل صرف وہی لوگ ہوتے ہیں، جن کے پاس آثارِ قدیمہ کا داخلہ ٹکٹ ہوتا ہے۔ 

روزانہ صرف 5,600سیّاحوں کو ماچو پیچو کے اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہر ٹکٹ پر مخصوص وقت لکھا ہوتا ہے، اور صرف اس وقت سے ایک گھنٹے پہلے ہی بس روانہ ہوتی ہے۔ہر سال مارچ کے مہینے میں ماچو پیچو آثارِ قدیمہ کو دیکھ بھال کی غرض سے مکمل طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ آثار تین مختلف سرکٹس میں تقسیم کیے گئے ہیں۔

سرکٹ 1، 2، اور 3ہیں، اور ہر سرکٹ کے مزید تین ذیلی روٹسC,B,A ہیں۔ بکنگ کے وقت سرکٹ اور روٹ منتخب کرنا پڑتے ہیں،جنھیں بعد میں بدلا نہیں جا سکتا۔ ہر روٹ کی قیمت مختلف ہوتی ہے۔ہم نے سرکٹ 1، 3 اے اور 2بی منتخب کیا تھا۔2 بی سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، جب کہ سرکٹ 1 سب سے مشکل ہے اور صرف 400سیّاحوں کو روز اس پر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ 

گائیڈز عموماً بس اسٹیشن پر دست یاب ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر سیّاح اپنی ایجینسی سے گائیڈحاصل کرلیتے ہیں۔ ہماری گائیڈ، محترمہ ایڈتھ تھیں۔ ان کی زبان میں کایچوا کی مٹھاس، اسپینش کا بانکپن، اور انگریزی کی روانی شامل تھی۔ وہ صرف گائیڈ نہیں، بلکہ ماچو پیچو کی بیٹی کی مانند تھیں۔ ہر اینٹ، ہر دیوار، ہر ستون کی کہانی اُن کی زبان سے ایسے نکلتی، جیسے وہ سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئی ہوں۔

بارہ سو سیڑھیاں اور تین ہزار میٹر کی بلندی: ساڑھے سات بجے کا وقت تھا، ناشتے کی میز پربس ایک ہی بات ذہن میں سوار تھی، وائن پیچو کی چڑھائی۔ ہماری گائیڈ ، وقت کی پابند تھیں،چناں چہ چہرے پر ماچو پیچو کی تاریخ کی جھلک لیے، وقت پر پہنچ گئیں،ہم بھی تیار تھے، ان کے پہنچتے ہی بس اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔ بس اسٹیشن پر ہجوم پہلے سے قطاروں میں موجود تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے ٹکٹ چیک کرنے کے بعد ہمیں بس میں بٹھا دیا گیا۔ 

بس پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی، ہمیں اُس دروازے تک لے آئی، جہاں سے صدیاں خوش آمدید کہنے کو تیار تھیں۔ ہم نے اپنا آغاز ٹریک 3 سے کیا، جہاں نچلے حصّے میں مندروں اور عبادت گاہوں کا سلسلہ تھا۔ اس علاقے میں صرف منتخب روزگار لوگ بستے تھے۔ جنگی ماہر، علم کے طالب، فلکیات دان اور چندمنتخب پجاری۔ سورج کا مندرسب سے منفرد تھا،جہاں دو کھڑکیاں اس انداز سے بنائی گئی تھیں کہ 21جون اور 24دسمبر کو سورج کی پہلی کرن ان پر ٹھیک وقت پر آکر پڑتی ہے۔ یہ علم اور قدرت کا ایک انوکھا سنگم تھا۔ 

پھر سرکٹ ون شروع ہوا اورقدم بڑھے اُس پہاڑ کی طرف، جس کا نام وائن پیچو ہے۔ یہ ماچو پیچو کا وہ چوکنّا پہرے دار ہے، جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے آسمان کو چھو رہا ہو۔ اس پر چڑھائی محض سفر نہیں، ایک آزمائش ہے۔ پتھریلی سیڑھیاں، جن میں سے ہر ایک کی اونچائی الگ، جیسے قدرت نے خودانہیں تراشا ہو۔ کہیں پاؤں رکھنے کی پوری جگہ نہیں، تو کہیں ایسی عمودی چڑھائی کہ ہاتھ پاؤں کے بل ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ایک طرف سنگلاخ پہاڑ اور دوسری طرف کھائی ایسی کہ دل کانپ جائے۔کہیں رسّی کا سہارا، تو کہیں لوہےکی زنجیر نے ہمّت بندھائی۔ 

ہم سب ایک دوسرےکا سہارا بنے۔ ہاتھ تھامے، کہیں ہنسی میں تھکن چھپاتے اور کہیں خود کو خودی کےسہارے چلاتے رہے۔ تقریباً بارہ سو سیڑھیاں… اور تین ہزار میٹر کی بلندی۔ آخرکار، ایک گھنٹے کے صبرآزما، دل دہلا دینے والے اور ایمان تازہ کرنے والے سفر کے بعد وائن پیچو کی چوٹی پر پہنچ ہی گئے۔ نیچے نگاہ ڈالی تومنظر وہی تھا، جو خوابوں میں دیکھا تھا، مگر اب یہ خواب نہیں، حقیقت تھی۔ پوری وادی دُھند میں لپٹی، بادل پہاڑوں سے آنکھ مچولی کھیلتے اور نیچے ماچو پیچو اپنی خاموشی میں سیکڑوں راز سمیٹے ہمیں تَک رہا تھا۔ ہم نے بےشمار تصاویر بنائیں، مگر جو منظر آنکھوں نے دیکھا، اُسے کوئی تصویر قید نہ کرسکی۔

واپسی کی راہ جلدی اختیار کی تاکہ ماچو پیچو کے باقی حصّے بھی دیکھے جاسکیں، مگر دل وہیں کہیں وائن پیچو کی کسی سیڑھی پر چھوڑ آئے۔وائن پیچو کی چوٹی سے واپسی کے بعدتھوڑا آرام کیا اور پھر ٹریک 2کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ راستہ پہلے کے مقابلے میں آسان تھا، مگر یہاں بھی چڑھائی اور اُترائی کے مراحل موجود تھے۔اس حصّے میں ماچو پیچو کی وہ عمارتیں، میدان، آبزرویٹری، اور رہائشی جگہیں ہیں، جہاں عام شہری، کاری گر اور کسان رہتے تھے۔

اسے بہت منظم انداز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں پانی کی ترسیل کے لیے خاص نہریں بنائی گئی تھیں، جو پہاڑوں سے بہتے پانی کو مختلف حصوں تک پہنچاتی تھیں۔ گھروں کی ساخت پتھروں کو جوڑے بغیر اس طرح کی گئی تھی کہ زلزلوں کا اثر نہ ہو۔ سب سےنمایاں جگہ’’مین پلیٹ فارم‘‘ تھی، جہاں سے پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ ٹریک 2 کے دوران ایک خاص مقام پر ایک چٹان دکھائی گئی، جس پر شہر کا ایک خاکہ سا بنا ہوا ہے۔ 

بتایا گیا کہ ماچو پیچو شہر کو ایک بڑے گِدھ کی شکل میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ایک روحانی علامت، یہ گِدھ آسمانی دنیا آزادی، فراست اور حفاظت کی علامت ہے ۔ اور پھر… وہ لمحہ آیا جس نے سفر کو امر کر دیا۔ ایڈتھ نے ہمیں نیم دائرے کی شکل میں کھڑا کیا، خود درمیان میں آئی، اورآنکھیں بند کر کے مقامی زبان میں بولنا شروع کیا۔ ’’زمین ماں، تیرا شکریہ۔ پہاڑو، تمہارا شکریہ۔ تم نے ہمیں پناہ دی، تحفّظ دیا۔ ہم تمہارے شکرگزار ہیں۔ 

ہم دوبارہ آئیں گے۔‘‘ ہم نے خاموشی سے وہ دُعا دُہرائی، ساتھ ساتھ کئی بار’’شُکر الحمدللہ‘‘ اور ’’اِن شاءاللہ‘‘ کہا۔ یہ صرف الفاظ نہیں، گویا ہمارا ایک روحانی معاہدہ تھا، اور اس کےبعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ قدموں میں تھکن تھی، مگر دل میں روشنی اور دوبارہ آنےکی خواہش۔ یوں ماچو پیچو کا یہ خواب اختتام کو پہنچا، مگر ہم جانتے تھے کہ یہ اختتام نہیں، ایک نیا آغاز ہے۔ (ختم شُد)

سنڈے میگزین سے مزید