گزشتہ ڈیڑہ سال میں سلیم صافی صاحب نے 3درجن سے زائد کالم صرف عمران خان یا تحریک انصاف کے خلاف لکھے۔ تنقید کرنا مسئلہ نہیں کیونکہ کوئی بھی نہ تو تنقید سے بالاتر ہے اور نہ ہی فرشتہ ہے مگر 3درجن کالم پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے اس ملک میں جتنی بھی برائیاں ہیں ان کی وجہ عمران خان ہیں۔ خبیرپختونخوا میں گورننس کے مسائل ہیں، پارٹی کے اندر تقسیم ہے، مرکز میں عمران خان نے کچھ فیصلے بے وقت کئے ہیں، اپنی کہی ہوئی باتوں پر کسی حد تک یوٹرن بھی لیے ہیں ان پر بات ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے اور چند ایک سینئر غیر جانبدار صحافی اس پر بات کر کے تحریک انصاف کے بدتمیز کارکنوں سے گالیوں کی صورت میں سلامی بھی لیتے رہتے ہیں مگر محترم کالم نگار نے عمران خان کی ذات کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کیں جو ہضم نہیں ہوئیں مثلاً انہوں نے لکھا کہ عمران خان نے تین مختلف قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ منسلک کر رکھا ہے اور تینوں کے سامنے وہ اپنی شخصیت کو تین مختلف شعبوں میں پیش کرتے ہیں تین مختلف مزاج کے حامل یہ تین طرح کے لوگ ان کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں اور ایک لمحے کے لئے نہیں سوچتے کہ اگر وہ ان جیسا ہے تو پھر دوسری قسم کے لوگوں کو اپنے گرد کیوں جمع کر رکھا ہے۔
محترم پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی جماعت میں تو دور کی بات کسی گھر میں ایک طرح کا ذہن رکھنے والے لوگ نہیں پائے جاتے یہاں تک کہ دو بھائیوں کی عادتیں اور اطوار دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، تو کیا والدین ایک کو پیار کرتے ہیں دوسرے کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔ دوسری بات کیا جماعت کے سربراہ کو اخبار میں اشتہار دینا چاہئے کہ صرف جاوید ہاشمی کی مہارت اور شکل و صورت رکھنے والے اور ان کی باغیانہ سوچ رکھنے والے ہی تحریک انصاف میں آسکتے ہیں باقی زحمت نہ کریں اور تیسری بات کیا جماعت کا سربراہ اس حد تک سوچتا ہے کہ مجھے شیریں مزاری سے جب ملنا ہے تو ایسے ملنا ہے کہ اس کو اچھا لگوں اور اعظم سواتی کو ملتے ہوئے اعظم سواتی کو برا نہ لگوں کہ کہیں اعظم سواتی مجھے جماعت کی سربراہی سے نہ ہی فارغ کر دے۔ واہ کیا منطق ہے کیا اعظم سواتی کے تحریک انصاف میں ہونے سے یا شیریں مزاری کے نہ ہونے سے جماعت پر کوئی فرق پڑتا؟ کیا ان کے ہونے سے عمران خان کو 78 لاکھ کے بجائے 30 لاکھ ووٹ پڑتے؟اگر ایسا نہیں تو پھر پارٹی کا سربراہ کیوں سوچے گا کہ کس کو کس طرح ہو کر ملنا ہے۔ یہاں ایک مثال ضروری ہے بلکہ ایک واقعہ ایک بار تحریک انصاف کے مرکزی دفتر میں عمران خان کا انٹرویو ہونا تھا کیمرہ مین ٹیکنیکل ٹیم سیٹ اپ لگا رہے تھے وہاں پر تین مرکزی پارٹی عہدیدار جن میں سے ایک پارٹی کے سینئر عہدے پر ہیں اور اس وقت ایم این اے ہیں دوسرے بھی ایم این اے ہیں اور تیسرے سیکرٹری جنرل ہیں، تینوں وہاں موجود تھے۔انٹرویو شروع ہونے سے پہلے وہ خان صاحب کو بتا کر گئے کہ ہم ساتھ والے کمرے میں ہیں ۔
انٹرویو جب ختم ہوا تو خان صاحب نے کسی جگہ پہنچنا تھا وہ ان کو بغیر بتائے چلے گئے۔ ہم لوگ ابھی کمرے میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ تینوں لیڈر آئے اور خان صاحب کا پوچھا کہ کہاں ہیں کسی نے بتایا کہ وہ چلے گئے۔ تینوں ششدرہ رہے گئے تو محترم کالم نگار صاحب کیا یہ بندہ اس فکر میں رہے گا کہ کس کو کس طرح ملنا ہے کہ اسے پسند آجائوں بلکہ یہاں ایک اور مثال بھی ہے۔ 2013کے انتخابات میں تحریک انصاف کو مختلف مذہبی فرقوں نے ووٹ ڈالے جس میں دیوبندی بریلوی ،اہل حدیث اور شیعہ شامل تھے تو کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو سب نے ووٹ ڈالے پھر پڑھے لکھے ہائی کلاس مڈل کلاس اور مزدور طبقے نے بھی ڈالے کیا وجہ ہے کیا عمران ان سب کو ان کی طرح ہو کر ملتے ہیں جیسے ایک ایماندار دکاندار سے خواہ وہ کسی فرقے سے ہے اس سے ہر فرقے کے لوگ سودا سلف خریدتے ہیں کہ وہ ایماندار ہے اور اگر دکاندار بے ایمان ہے تو اس کے اپنے رشتے دار دوست احباب بھی کنی کتراتے ہیں۔آپ نے لکھا گولڈ اسمتھ نے اپنا جیسا سمجھ کے اپنی بیٹی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا تو جناب جمائمہ نہ تو صوابی کے کسی گائوں میں رہتی تھی نہ ہی چیچوکی ملیاں یا ژوب میں رہتی تھی جہاں والدین کو قائل کرنا ضروری ہے وہاں تو بچوں کو شادی جیسے حق میں اپنی مرضی سے کون روک سکتا ہے۔
آپ نے آگے لکھا کہ خان صاحب نے لوگوں کے کندھے کو استعمال کیا اور پھر خود آگے نکل گئے مگر ان کو بھلا دیا تو جناب والا ماجد خان والے معاملے میں عمران خان کو چانس ملا ان میں صلاحیت تھی آگے نکل گئے تو کیا وہ اپنے کزن کی جگہ جگہ سفارش کرتے کہ ان کو کرکٹ میچ کھلائیں بے شک وہ پرفارم کریں یا نہ کریں۔ حفیظ اللہ نیازی کا آپ نے تذکرہ کیا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میانوالی کے کسی خاص حلقے میں لوکل بنیاد پر تو حفیظ اللہ نیازی عمران خان کو فائدہ پہنچا سکتا ہو مگر لوک اور گلی محلے کی سیاست عمران خان نے کی ہی نہیں اس کو آپ غلطی کہے سکتے ہیں۔باقی ملک کے لوگ حفیظ اللہ نیازی کو عمران خان کو وجہ سے جانتے ہیں نہ کہ حفیظ اللہ کی وجہ سے۔ عمران خان کو اب اگر عمران خان کی پارٹی تیسری بڑی پارٹی بن گئی تو کیا وہ اپنے کزن کو ہی ساتھ رکھیں پھر آپ جیسے کالم نگار کہیں گے کہ دیکھیں بندہ رشتہ داروں سے باہر ہی نہیں نکل رہا۔ آپ نے فاروق خان ، نسیم زہرہ، اویس غنی وغیرہ کا تذکرہ کیا تو ہو سکتا ہے آپ نے ٹھیک کیا ہو اور اس حد تک متفق ہوں کہ پرانے اور نظریاتی لوگ اثاثہ ہوتے ہیں ان کا ساتھ رہنا چاہئے۔پرانے بندوں میں سے اگر کوئی اپنی بساط سے زیادہ توقعات لگا لے تو وہ بھی درست نہیں۔موجودہ تقریباً آدھی کابینہ کا تعلق کشمیر سے ہے تو محترم اگر آپ کی عمران خان والی دلیل مان لی جائے کہ کندھا استعمال کرکے چھٹی کر دیتے ہیں تو پھر میاں صاحب کی تو کم از کم تعریف کرتے کہ وہ چھٹی نہیں کراتے بلکہ مزے کراتے ہیں یہ کیا بات ہوئی ان پر بھی تنقید اور خان پر بھی تنقید۔
بات میری تو سمجھ سے بالا ترہے اور آصف زرادری نے ایک ڈاکٹر جو جیل میں ان کا خیال رکھتا تھا۔ 5سال ایوان صدر کے اہم معاملات پر رکھا اور اب سینیٹر بنا دیایہ تمام مثالیں سامنے رکھ کر محترم کالم نگار لکھ دیتے ہیں۔ اقرباپروری ،ذاتی پسندیدگی وغیرہ وغیرہ...اور خان اگر نہیں ایساکچھ کرتا تو ٹھہرااحسان فراموش۔ اور یہاں شوکت یوسف زئی کی تعریف بھی بنتی ہےکہ ان کو وزارت سے ہٹایا گیا محترم کالم نگار نے لکھا کہ ان کی چھٹی کر دی تو جناب وہ وزیر نہیں رہے مگر وہ آج بھی پارٹی کا حصہ ہیں اور خان کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں باقی محترم کالم نگار نے لکھا کہ پارٹی تین دھڑوں اور کابینہ دو دھڑوں میں ہے تو جناب یہ تمام لوگ پاکستانی سیاست کا ہی حصہ ہیں جب ایک کو وزارت ملے 2کو نہ ملے تو دھڑے بنتے ہیں یا تو پھر زرداری فارمولا لگایا جائے کہ سارے کے سارے لوگوں کو وزیر مشیر لگادیا جائے تو وہ بھی آپ کے لئے قابل قبول نہیں،اس پر بھی تنقید واجب ہے۔تو محترم کالم نگار صاحب تعصب کی عینک اتاریں، جہاں تنقید بنتی ہے وہاں کریں اور خوب کریں مگر یہ کیا 3 درجن کالموں میں تنقید تنقید اور تنقید کوئی ایک کالم تو تحریک انصاف نے ایسا کیا ہو گا جو قابل تعریف ہو گا اس کا تذکرہ بھی ضروری ہے سو بار تنقید کریں۔گورننس پر، پالیسوں پر مگر ذاتیات سے ہٹ کر اور میانہ روی اور غیر جانبداری سے تاکہ لوگوں تک پیغام جائے کہ تعصب کی عینک اتارنا کوئی مشکل کام نہیں۔