• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی سیاست کے اس پیچیدہ منظر میں کبھی کبھار ایسے لمحات آتے ہیں کہ دل لرز اٹھتے ہیں۔خوابوں کی کرچیاں فضا میں بکھر جاتی ہیں ۔ امن کے نغمے گونج اور انسانی حقوق کی روشنی یک لخت اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے ، خاص طور پرفلسطین کی پٹی، خاص طور پرغزہ، ایک ایسا منظر پیش کرتاہے جہاں دکھوں کی گہری لہریں، خون کے موتی، اور آنسوؤں کے طوفان مل کر ایک ایسی غمگین سمفنی ترتیب دیتے ہیں جو برسوں سےدلوں کو چیر رہی ہے۔اسرائیلی کابینہ کا غزہ شہر پر مکمل قبضے کا حالیہ فیصلہ محض کوئی عسکری حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک ایسا غلاظت خیز نالہ ہے جو انسانی بحران کی وادی میں گرتا ہے، اور اس وادی کی مٹی پر گہرے سائے ڈال دیتا ہے۔ یہ قدم صدیوں کی جدوجہد، صبر اور امید کی کشتی کو ایسے گرداب میں دھکیل رہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں دکھائی دیتی۔غزہ، ایک چھوٹا سا خطہ ہے مگر عالمی سیاست میں اس کی گونج بہت تکلیف دہ ہے۔ یہاں کے پھول برسوں سے محاصرے کی چٹانوں کے بیچ پھنسے ہوئے، جنگ کی تیز ہوا میں لرز رہےہیں۔ ان کی کہانیاں، جو سفارتی کانفرنسوں کی میزوں پر کبھی نہیں سنائی جاتیں، آج بھی وہاں کی ہر گلی، ہر دیوار اور ہر چہرے پر تحریر ہیں ، ایک ایسی داستان کی صورت میں جو خاموشی کی زبان بولتی ہے۔قبضے کا منصوبہ ایک ایسا زلزلہ ہے جو انسانی حقوق کے پہاڑوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ جب اسرائیل اپنی سلامتی کی آڑ میں جارحیت کے میزائل چلاتاہے، تو غزہ کے لوگ کرب کی گہری تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں، جہاں ان کے گھر اور خواب دونوں مٹی میں مل رہے ہیں۔یہ قبضہ ایسی آگ ہے جو بنیادی سہولیات —، صاف پانی کی فراہمی ، روشنی کے مدھم چراغ، خوراک کی نعمت، صحت اور تعلیم کی امید ، تباہی کے بعد آزادی کے احساس کو بھی راکھ میں بدل دے گی۔ زندگی کی لطیف خوشبو بھی ظلم کی بدبو میں تبدیل ہوجائے گی ،وہاں انسانی وجود سنسان ہو جائے گا۔یہ قدم بین الاقوامی انسانی قانون کے کینوس پر ایک گہرا دھبہ ہے۔ جنیوا کنونشن کے اصولوں کی روشنی میں شہریوں کا تحفظ لازم ہے، مگر جب فوجی حکمت عملی عام انسانوں کو ایک بے نور سرنگ میں دھکیلتی ہے تو انسانیت کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے۔غزہ کی گلیاں ایک سمفنی ہیں جو درد اور تحمل کی صدا بلند کرتی ہیں۔ ہر چہرہ اس صبر اور امید کا آئینہ ہے ۔جب بھی طاقتور اقلیت نے کمزور اکثریت کو گھیر ے میں لیا، وہاں ظلم، نفرت اور انتقام کے بادل چھا گئے۔ وہی تاریک سائے ایک بار پھر انسانیت کی امنگوں پر چھا رہے ہیں۔عالمی برادری ایک کٹھن راستے پر کھڑی ہے۔ کیا وہ صرف احتجاج کے کاغذہی ہواؤں میں اڑتی رہے گی؟ یا ظلم کی اس آگ کو بجھانے کیلئے ٹھوس قدم اٹھائے گی؟ ۔یہ سوال بھی دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑتا ہے کہ عالمی طاقتیں کس حد تک انسانی ہمدردی کو جغرافیائی سیاست پر ترجیح دیں گی؟ فلسطینی عوام کی فلاح کی کشتی کو سیاست کے طوفانوں میں ڈوبنے سے بچانا ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔غزہ کی زمین پر جاری یہ المیہ ہمارے ضمیر کی گہرائیوں کو جھنجوڑ رہا ہے۔ کیا ہم ان بے سہارا خاندانوں کی حالت کو سمجھنے کی جرات کریں گے، جو روزانہ خوف کے سایوں میں اپنی بقا کی کشتی کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں؟۔یہ قبضہ صرف فلسطین کیلئے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک امتحان ہے۔ ہمیں سیاسی بحثوں سے بالاتر ہو کر، انسانیت اور انصاف کے علمبردار بن کر ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم امن، بھائی چارہ اور عدل کیلئے اپنی عقیدت کا ازسر نو اظہار کریں۔ اگر یہ قبضہ عمل میں آتا ہے تو یہ نہ صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کا چراغ بجھا دے گا بلکہ انسانیت کی بنیادی اقدار کو بھی مدھم کر دے گا۔ ہمیں ظلم کیخلاف آواز بلند کرنی ہوگی اور امید کے چراغ کو روشن رکھنا ہوگا کہ ایک دن یہ خطہ امن کی روشنی سے تابناک ہو جائیگا۔غزہ پر چھایا ظلم و ستم کا بادل صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ ہے جو ہمیں ایک ایسی روشنی کی تلاش پر مجبور کرتا ہے جو ہر ظلم کی سیاہ ترین رات کو چیر دے۔ ورنہ یہ اندھیرا ہمارے اخلاقی وجود پر دائمی سایہ ڈال دے گا۔غزہ پر اسرائیل کے قبضے کا اعلان صرف فلسطین پر نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے دل پر وار ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب خالی بیانات، اجلاسوں اور مذمتی قراردادوں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب وقت ہے کہ مسلمان حکمران اپنی کرسیوں کے آرام اور محلات کی روشنیوں سے نکل کر میدانِ عمل میں اتریں۔ تیل کے کنویں اور دولت کے انبار اگر بیت المقدس اور غزہ کی آزادی کیلئے نہیں، تو پھر ا نکی حیثیت صرف زنجیر کی طرح ہے جو ہماری گردنوں میں پڑی ہے۔ ہم مسلمان اگر آج بھی خاموش رہے تو تاریخ ہمیں بزدلوں اور غداروں میں لکھے گی اور آنیوالی نسلیں ہمیں لعنت کے سوا کچھ نہ دیں گی۔ یہ وقت ہے غیرت کے جاگنے کااور مسلمان حکمرانوں سے التجا ہے کہ کچھ کریں وگرنہ ان کی سلطنتیں بھی انکے ہاتھوں میں ریت کی طرح پھسل جائیں گی۔

تازہ ترین