سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے 2002ء کے الیکشن کے بعد یہ برملا اعتراف کیا تھا اور عوام سے معافی بھی مانگی تھی کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 12اکتوبر1999ء کےاقدام کی حمایت کی تھی اور پھر 2001ء میں اُن کو ریفرنڈم میں ووٹ بھی دیا تھا۔ اُن کے اس اعتراف کا سیاسی اور دانشور حلقوں نے خیرمقدم کیا تھا۔ اب ایک اور اعتراف اور معافی سامنے آئی ہے گو کہ اس بار بانی کی جانب سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق اسپیکر اسد قیصر صاحب نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دینے پر معافی بھی مانگی ہے اور غلطی کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ویسے تو اعتراف کی ابھی بھی بہت گنجائش موجود ہے مگر اُمید صرف رکھی جاسکتی ہے کہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے گا کیونکہ سیاست میں بار بار غلطیوں کا نقصان پوری قوم کو ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی سیاست میں کچھ نئی روایات لے کر آئی جن میں سے بعض قابلِ تعریف ہیں اور بعض پر تنقید کی جا سکتی ہے۔
ہم نے اپنی سیاست میں بعض ایسی سنگین غلطیاں کی ہیں جن کا شاید اب ازالہ بھی ممکن نہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد مرحوم نے ایک بار نہیں کئی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم اور بھٹو کی پھانسی کی خاموش حمایت جماعت کی غلطی تھی۔ بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات خود پی پی پی کے تحت منعقدہ سیمینار میں کی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو شہید ہمیشہ اعتراف کرتی تھیں کہ اُن کی پارٹی یا تحریک بحالی جمہوریت ایم آرڈی کا 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ غلط تھا۔ مگر سب سے تاریخی اعتراف تو محترمہ اور مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کا مشترکہ تھا جب دونوں نے ایک تاریخی ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط سے پہلے ’اعتراف‘ کیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کیخلاف استعمال ہوئے۔ ایک اعتراف صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی کیا تھا، اپنے 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے دوران میڈیا پر پابندی لگانے کے اقدام کا۔ ذوالفقار علی بھٹو اعتراف کرتے تھے کہ انہیں پارٹی کے اندر لوگوں کو پہچاننے میں ’غلطی‘ ہوئی جسکی قیمت بھی انہیں ادا کرنی پڑی۔
ایک بڑا اعتراف مجموعی طور پر سانحۂ مشرقی پاکستان پر بھی سامنے آیا مگر انفرادی طور پر کسی نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ ’بنگالیوں‘ سے معافی بھی مانگی گئی اور یہ بات بھی غالبًا جنرل مشرف کے دور کی ہے۔ لہٰذا ہماری سیاست غلطیوں اور اعتراف سے بھری سہی مگر غلطیوں پر معذرت یہاں تک کے معافی بھی مانگی گئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم جنوبی افریقہ کے طرز کا ایک ’اعترافی کمیشن‘ بنا دیتے گو کہ اُس کا ماڈل بہت مختلف تھا۔ مسئلہ اعتراف یا معافی سے زیادہ دوبارہ غلطی کو دہرانا ہے جیسا عمران کے کیس میں بھی ہمیں نظر آتا ہے، بی بی اور نواز شریف کے کیس میں بھی نظر آتا ہے اور الطاف حسین کے کیس میں بھی جب انہوں نے اپنی 22 اگست 2016ء کی تقریر اور پاکستان مخالف نعرے پر معافی مانگی اور پھر بعد میں کئی قابل ِاعتراض تقاریر کے نتائج بھی بھگتے۔ کاش کوئی آمر مارشل لا لگانے اور ججز اُن غیرآئینی اقدامات کو جائز قرار دینے کا اعتراف بھی کرتے اور معافی بھی مانگتے مگر بدقسمتی سے ان اقدامات کا دفاع کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب سے یہ ساری غلطیاں، اعتراف اور معافیاں غائب نظر آتی ہیں جبکہ آمریت کے بعض اقدامات کی تعریف بھی کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اور بچے اپنی ہی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ ہماری تو روایات ہی یہ رہی ہیں کہ اس ملک کے بعض چیف جسٹس شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آئے جیسا کہ ہمیں بیگم نصرت بھٹو کیس اور ظفر علی شاہ کیس میں نظر آتا ہے غیرآئینی اقدام کو آئینی تحفظ ہی نہیں دیا گیا بلکہ از خود آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔
لہٰذا آج کی سیاست میں جہاں ایک طرف دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی ’میثاق جمہوریت‘ کے برخلاف غیرسیاسی قوتوں کو سیاسی اسپیس دیتی جارہی ہیں وہیں وہ اعلیٰ عدلیہ کو بھی آزاد اور خود مختار بنانےکے بجائے انتظامیہ کے تابع لاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسے میںعمران خان بھی وہی سیاسی غلطی کررہے ہیں جب وہ معاملات کے سیاسی حل کیلئے غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اپنی بات کرنا چاہتے ہیں۔ اب فرض کریں بات بن جاتی ہے تو وہ کیا کریں گے۔
پی ٹی آئی ہماری سیاست میں ایک مختلف ’سیاسی مزاج‘ لیکر سامنے آئی جسکا لیڈر سیاست میں آنے سے پہلے بھی ’فرنٹ پیج‘ اسٹوری تھا۔ خان نے اعلان کیا کہ وہ پارٹی میں کسی ’لوٹے‘ کو نہیں قبول کرے گا اور اس کیلئے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جو دوسری جماعتوں سے آنیوالوں کی اسکروٹنی کرتی تھی مثلاً یہ سوالات ہوتے تھے کہ انہوں نے دوسری پارٹی کب اور کیوں چھوڑی، کرپشن کا الزام تو نہیں، پارٹی کونظریاتی طور پر جوائن کر رہے ہیں یا مجبوری میں۔ بعد میں یہ روایت ختم کر دی گئی۔ ایک بار سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی سے میں نے پوچھا تو وہ ’الیکٹیبلز‘ یعنی ان افراد کو پارٹی میں لینے کا دفاع کر رہے تھے جو اپنا حلقہ جیت سکتے ہوں چاہے وہ نظریاتی طور پر پارٹی کے ساتھ ہوں یا نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ایسی ہی ایک بڑی سیاسی غلطی تھی خان صاحب کی جو آگے جاکر عمران باجوہ تنازع کا موجب بنی حالانکہ خود پی ٹی آئی میں بہت سے لوگ اس کو خان کی بڑی غلطی سمجھتے ہیں جس طرح پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کا توڑنا۔
سیاست میں آگے بڑھنے کا راستہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اور اعتراف کر کے نکلتا ہے۔ آخر سخت سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو علانیہ نہیں تو غیر علانیہ اعتراف تو ہوتا ہی ہے۔ نہ بھی ہو تو آگے بڑھنے کا راستہ نکل ہی آتا ہے جیسا کہ 1977 ء میں پی این اے اور بھٹو کے درمیان الیکشن کا راستہ نکال ہی لیا گیا تھا۔2007ء میں جنرل مشرف سے معاہدہ ایک غلطی تو تھی مگر بی بی کی شہادت نہ ہوتی تو راستہ نکل آتا بعد میں جنرل مشرف کی ایوانِ صدر سے رُخصتی کو دونوں طرح سے دیکھا جا سکتا ہے ’محفوظ راستہ‘ دینا چاہئے تھا یا مقدمہ چلنا چاہئے تھا۔
عمران سے ایک ’اعتراف‘ جس کا بڑی شدت سے بہت سوں کو انتظار تھا اور شاید اب بھی ہو وہ 9مئی ہے۔ اُس کی پارٹی کے کئی لوگ یہاں تک کہ پارٹی ہی اپنی تاریخ کی بدترین مشکلات سے گزر رہی ہے مگر خان کا موقف ہے جو غلطی اُس نے کی ہی نہیں اُس کا اعتراف وہ کیوں کرے۔ جبکہ اُسکے مخالفین سمجھتے ہیں کہ یہ عمران اور جنرل فیض کا مشترکہ پروجیکٹ تھا۔ اب اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرسکتی ہے کہ سازش کی گئی، کون کون ملوث تھا۔ بہتر ہے اگر یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلے تاکہ اُس سوال کا جواب سامنے آسکے کہ غلطی کس کی تھی، سازش کیا تھی ورنہ تو یہاں سب کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا بیانیہ۔