• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مبارک ہو ، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیاب ہو گیا۔۔۔۔ہم اپنی سکیورٹی فورسز کو سلام پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔۔۔۔ سکیورٹی فورسز بروقت کارروائی نہ کرتیں تو بہت بڑا نقصان ہوتا۔۔۔۔۔اس کامیاب آپریشن پر پوری پاکستانی قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔۔۔۔ یہ سیاسی اور عسکری ’’ رہنمائؤں ‘‘ کے وہ بیانات تھے ، جوکراچی ائرپورٹ پرحملے کے دوسرے دن ٹی وی چینلز پر ’’ ٹیکرز ‘‘ کی صورت میں چل رہے تھے جبکہ اسکرین پر سانحہ کراچی ائرپورٹ کے شہداء اور سانحہ تفتان کے شہداء کی لاشوں ، ان لاشوں پر گریہ کرتے ہوئے بوڑھے والدین، سسکتے یتیم بچوں،سینہ کوبی کرتی قسمت ماری بیوائوں اور کھلے بالوں میں خاک رچائے ماتم کرتی ہوئی بد نصیب بہنوں کی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں ۔ سلام ۔ مبارک ۔ واہ واہ ۔ کمال کردیا ۔۔۔۔آہوں ، سسکیوں ، چیخوں اور ماتمی دھنوں میں یہ ٹیکرز چلتے رہے ۔ یہ مناظر دیکھ کر اور اس طرح کے بیانات پڑھ کر وجود پر لرزہ طاری ہوگیا۔۔۔۔ کہیں سے ایک گرج دار آواز سماعتوں سے ٹکرانے لگی ۔ یہ آواز تقریباً ایک صدی قبل بلند ہوئی تھی اور آج بھی فضاؤں میں شاید اس لیے محفوظ ہے کہ برباد ہوتی ہوئی قوموں کو متنبہ کرسکے ۔ یہ آواز مشہور جرمن فلسفی اور مورخ ’’اسوالڈاسپینگلر(Oswald Spengler) ‘‘ کی ہے ، جب وہ جنگ اور بدامنی سے لرزاں اور ہراساں اس یورپ سے مخاطب ہوا تھا ، جس نے تاریخ کی اعلیٰ وارفع تہذیب بنائی تھی۔آج یوں محسوس ہوا کہ اسپینگلر ہم سے مخاطب ہیں ۔ ’’ تم مر چکے ہو ۔ ‘‘ تم میں انحطاط کی تمام علامتیں دیکھتا ہوں ۔ تمہارے ادارے ، تمہاری جمہوریت ، تمہاری بدعنوانیاں ، تمہارے وسیع و عریض شہر ، تمہاری سائنس ، تمہارا فن ۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ تمہارا ریاضی ان تمام صفات کا حامل ہیں ، جو مٹنے والی قوموں کی آخری منزلوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ تمہیں احساس ہی نہیں ہے کہ تہذیب تم سے کہیں دور جا رہی ہے ۔‘‘
حیرت کی بات یہ ہے کہ 8اور 9 جون کی درمیانی شب کراچی ائرپورٹ پر ہونے والے خونی ڈرامہ کے ’’ کامیاب خاتمے ‘‘ کا سہرا ہر کوئی اپنے سر سجانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے ۔ اس حوالے سے نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین بلکہ اداروں کے مابین بھی ’’ سرد جنگ ‘‘ شروع ہو چکی ہے لیکن کوئی بھی اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اس واقعہ میں اگرچہ تمام 10 دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 30 بے گناہ لوگ بھی شہیدہو چکے ہیں ۔ ان شہداء کے اہل خانہ سے پوچھا جائے کہ آپریشن کس قدر کامیاب ہوا ہے ، اس کے بعد اگر کسی میں یہ جرأت ہے تو وہ یہ سوال کرے کہ دہشت گرد بڑی مقدار میں بھاری اسلحہ اور اپنا راشن اٹھا کر کیسے لائے ۔ اس قدر بوجھ لاد کر وہ اندر کس طرح داخل ہوئے اور لڑتے ہوئے آگے پیش قدمی بھی کرتے رہے اور بھی بہت سے سوالات ہیں۔ یہ سوالات کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، انہیں ذہنوں میں لانا بھی ’’ غداری ‘‘ کے مترادف ہے ۔ ہمارے محب وطن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کراچی ائرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنانے کے عظیم کارنامے کو بہترین الفاظ اور نئے تصورات کے سانچے میں ڈھال کر پیش کریں ۔ ہم اسی دن یعنی 8 جون 2014ء کو پاک ایران سرحد پر تفتان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 30 بے گناہ پاکستانی شہریوں کے قتل عام کے سانحہ کو بھی کراچی ائرپورٹ کے کامیاب آپریشن سے نہ جوڑیں ۔ اسی دن کراچی ائرپورٹ کے باہر کراچی شہر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جو لوگ مارے گئے ہم ان کا ذکر بھی نہ کریں ۔ یہ سوچنا بھی سنگین غلطی ہوگی کہ کراچی ائرپورٹ پر حملہ کرنے والے اپنے مقاصد میں کامیاب رہے ۔ دوسرے واقعات اور دوسری باتوں میں الجھ کر ہم عظیم کامیابی کے جشن سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عالمی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازش کر رہی ہیں ۔ ان سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خونریزی کے عذاب میں مبتلاہے ۔ اس پر عظیم فرانسیسی ادیب اور فلسفی والٹیئرکا افسانہ ’’ مائیکرو میگاز ‘‘ (Micromegas ) یاد آ رہا ہے ۔ زمین پر سائرس یا کلب ا لجباری ایک باشندہ آتا ہے ،جس کا قد تقریباً پانچ لاکھ فٹ ہے ۔ فضا سے گذرتے ہوئے وہ سیارہ زحل کے ایک باشندے کو اٹھا کر لاتا ہے ، جو اس بات پر رنجیدہ ہے کہ اس کا قد صرف چند ہزار فٹ ہے ۔ جب وہ بحیرہ روم سے گذرتے ہیں تو سائرس کے باشندے کی صرف ایڑیاں بھیگتی ہیں ۔ سمندر میں کھڑے ہوئے جہاز کو اٹھا کرسائرس کا باشندہ اپنے انگوٹھے کے ناخن پر رکھ دیتا ہے ۔ جہاز میں موجود انسانی مسافروں میں بہت پریشانی پیدا ہوتی ہے ۔ سائرس کا باشندہ انسانوں سے کہتا ہے کہ ’’تم بہت تھوڑے مادے سے بنے ہوئے ہو ۔ تم میں روح کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں ۔ اس لیے تم اپنی زندگیاں لذت اور مسرت سے گذارتے ہو گے ۔ میں نے ایسی حقیقی خوشیاں اور سچی مسرت کہیں اور نہیں پائی ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ یہاں ضرور ہوں گی۔‘‘ بحری جہاز پر بیٹھے ہوئے ایک فلسفی نے جواب دیا کہ ’’ ہم بہت زیادہ شر برپا کرنے کے لیے کافی مادہ رکھتے ہیں ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت بھی ہماری نوع کے کچھ لوگ اپنے ہم جنسوں کو قتل کر رہے ہیں۔‘‘ کلب الجباری نے کہا کہ ’’مفسدو! میرا جی چاہتا ہے کہ دو تین قدم چل کر ایسے مضحکہ خیزقاتلوں کے پورے گھونسلے کو پائؤں سے روند ڈالوں ۔‘‘ فلسفی نے جواب دیا کہ ’’ یہ زحمت کیوں اٹھاتے ہو۔ ہم لوگ اپنی تباہی کے لیے خود کافی محنت کرتے ہیں ۔ ‘‘ عالمی طاقتیں ہماری تباہی کا کیا سامان کریں گی۔ ہم خود کافی محنت کررہے ہیں ۔ عالمی طاقتوں نے دنیامیں مصنوعی دہشت گردی اور اس کے خلاف مصنوعی جنگ میں پاکستان کی بعض قوتوں کو ان کے مخصوص مفادات سے ہم آہنگ کھیل میں مصروف کردیا ہے ۔ بس یہی ہماری خود کار تباہی کا سامان ہے ۔ غریب ٹھیلے والے اور چنگ چی رکشہ والا سے وصول ہونے والے بھتہ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں خرچ کیے جانے والے ڈالرز تک اپنا حصہ لینے کے لیے ہم خود ہی پاکستان کو تباہی کے اس پیچیدہ عمل سے دوچار رکھیں گے ۔ ہمارے دانشور اس بحث میں الجھے رہیں گے کہ یہ جنگ ہماری ہے یا امریکا کی ؟ کوئی اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ 8 اور 9جون کی درمیانی شب کراچی ائرپورٹ پر دہشت گردوں کے ’’ ناکام ‘‘ حملے کی ذمہ داری تو طالبان نے قبول کرلی لیکن 10 جون کو کراچی ائرپورٹ پر واقع اے ایس ایف کے کیمپ پر جو حملہ ہوا ہی نہیں، اس کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کرلی کیونکہ حملے کی صرف خبریں ٹی وی چینلز پر چلی تھیں۔دوبارہ غور سے سنیں، اسپینگلرکی کہیں سے آوازآرہی ہے۔’ تم مرچکے ہو ۔ تم میں انحطاط کی تمام علامتیں دیکھتا ہوں ۔۔۔۔ تہذیب تم سے کہیں دور اپنا گھر بنائے گی ۔ ‘‘
تازہ ترین