• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

78واں یوم آزادی، پچھلے 77ایام سے مختلف، بھارت کیخلاف جیت کا جشن شامل، خوشیوں کو دوبالا کر رکھا ہے۔ حسان کی قید وبند کے دو سال آج مکمل، مجھے اپنے حوصلہ مند بیٹے کو حوصلہ دینا ہے، اُس کے عزم و استقامت کی ڈھارس بندھانی ہے۔

عظیم قائد، پاکستان کو ایک پارلیمانی، جمہوری، آئینی اور مضبوط و مستحکم سیاسی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم کے تصور میں نہ تھا کہ آنکھ بند ہوتے ہی طاقتور ماورائے پارلیمان، آئین اور قانون ریاستی نظام کو ہتھیا لیں گے۔ جنرل ایوب کو آرمی چیف بنانا پاکستان کے سیاسی نظام کی جڑوں میں ڈائنامائٹ نصب کرنا تھا۔ ایوب خان نے جہاں مملکت کو دائمی سیاسی عدم استحکام میں دھکیلا، وطنی نظام اور استحکام ہمیشہ کیلئے طاقتور مقتدرہ کو منتقل ہوگیا۔ پہلے وزیراعظم کے قتل کے بعد دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو جب اقتدار ملا تو ڈیڑھ سال مکمل نہ کر پائے کہ گورنر جنرل نے طلب کیا اور مستعفی ہونیکا حکم دیا۔ حکم عدولی پر خواجہ صاحب کو بمع کابینہ چلتا کیا تو آرمی چیف جنرل ایوب کی طاقت زیراستعمال تھی ۔

سول ملٹری گٹھ جوڑ نے محمد علی بوگرا کو وزیراعظم بنایا تو حکم لَف کہ مملکت کو آئین دینا ہے۔ بوگرا نے چند ماہ اندر ( اکتوبر 1953ء) آئینی خدوخال بصورت ’’بوگرا فارمولا‘‘ آئین ساز اسمبلی میں پیش کر دئیے۔ سازشی ٹولہ (غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان) نے آئین نافذ ہوتے دیکھا تو اکتوبر 1954ء میں بوگرا کابینہ کو رخصت کیا، نگران حکومت بنائی۔ آئینی بحران اور عدم استحکام پیدا کرکے حکومتی نظام ہتھیانا مقصد تھا۔ 12 اگست 1955ء کو ایک بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بناکر آئین بنانیکی ذمہ داری سونپی گئی۔ چند ماہ بعد ہتھوڑا چلا اور ’’ون یونٹ‘‘ قائم کر دیا گیا ۔ 1956 ء کا آئین تو بن گیا، شرط منسلک کہ ’’صدر اسکندر مرزا اختیارات کا محور ہوں گے‘‘۔ 1951ء تا 1958ء اسکندر مرزا، ایوب خان نے مملکت کو مضروب رکھنے کی ہر کوشش روا رکھی۔ گورنر شاہد حامد اپنی کتاب ’’ TREASURED MEMORIES ـ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے شروع سازش، (1935ء ایکٹ سے 58(2b) کا سفر)، رہنما اصول اتنا کہ وزیراعظم کو ہٹانے میں ہمیشہ آرمی چیف موثر رہے۔ ’’حیراں ہوں، دل کوروؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘، جنہوں نے آئین و قانون کی حفاظت کرنی تھی وہی بڑھ چڑھ کر اُسے روندتے رہے ۔

آج حسان خان کی گرفتاری کے 2سال مکمل، محو حیرت ہوں کہ طاقتور ریاست کو کیا آن پڑی کہ قانون کی دھجیاں اُڑا کر ایک پابند سلاسل کیلئے ماورائے قانون اختیارات استعمال کرے۔ سانحہ 9 مئی اندوہناک مگر بے توقیری کس نے کی، سانحہ کو بھول کر سیاسی جماعت کا مال غنیمت سمیٹنا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ غزوہ بدر کے تیراندازوں کی یاد ستا رہی ہے،’’رسول اللہ ؐ کے احکامات بھول گئے، مال غنیمت سمیٹنے میں جُت گئے ، جو مسلمانوں کی شکست کا سبب بنے‘‘۔ آج دو سال بعد جب تھوک کے حساب سے سزائیں بانٹیں جا رہی ہیں۔ تو نیتوں پر سوال اُٹھتا ہے مگر ریاستی کاریگروں سے باز پرس نہ انکی آڈیٹنگ ممکن ہے ۔

حسّان نیازی کااسیری دن،جشنِ آزادی کے نام۔ 14اگست کو جبری گمشدگی سے غیرقانونی حراست تک کے دو سال مکمل ، آسودگی ایک ہی،ریاست کو سزا دلانے کیلئے جھوٹ کاسہارا لینا پڑا ۔ جنگ یا سیاست ، مملکت میں سب کچھ جائز، خاص طور پرجب سیاست ’’جنگی مشین‘‘ کے قبضہ استبداد میں ہو ۔ آج سے دو سال پہلے،میرا بیٹا بیرسٹر حسّان نیازی ایبٹ آباد سے لاپتہ ہوا، وارنٹ کیساتھ یا بغیر؟ آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ جب ریاست ہی آئین و قانون کو روندے، ڈیفیکٹو لا نافذ ہو، ایسی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا بھی جرم رہیگا۔ قانوناً کسی بھی ملزم کو 24گھنٹے کے اندر جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی، پورے دو سال گزر گئے، ( دو ماہ جبری گمشدگی، پندرہ ماہ فوجی جیل اور سات ماہ کوٹ لکھپت جیل)، مجال ہے !کبھی کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا ہو۔ آٹھ ماہ پہلے فوجی عدالت نے جب دس سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تو تفصیلی فیصلہ دینا یا الزام کی نوعیت بتانا، ایسا مذاق جو طاقتور ریاست کو نہ آتا ہے اور نہ ہی ضرورت ہے۔ فوجی عدالت سے شکوہ بنتا نہیں کہ سب کچھ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ’’مہربانی‘‘ سے ممکن ہوا ۔ نظام عدل و انصاف کو برضا ورغبت فوجی تحویل میں دیدیا گیا ۔ یوں عدالتی اختیارات، فوجی عدالتوں کو منتقل کر دیئے ۔ سپریم کورٹ نے اپنی ہی ماتحت عدلیہ پر عدم اعتماد کرڈالا ۔ کیا ضرورت ! جبکہ سات دہائیوں سے سپریم کورٹ یا ماتحت عدلیہ نے شاید ہی اسٹیبلشمنٹ کو کبھی مایوس کیا ہو ، 70 سال سے طاقتور ریاست کی خدمت کا ’’شاندار‘‘ تجربہ و ریکارڈ ہے۔

9 مئی واقعہ پرالزامات کی ممکنہ نوعیت کہ ’’پُرتشدد ہجوم کے ہنگامے، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیرائو، آتش زنی وغیرہ‘‘! غداری یا دشمن کیلئے جاسوسی کسی طور نہیں ہے۔ یقیناً 9مئی2023 ء ایک المیہ تھا مگر وطنی بدنصیبی کہ نیا یا انوکھا واقعہ نہیں تھا ۔ اس سے پہلے ایسے گھناؤنے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ خصوصاً یکم ستمبر 2014ء کو وزیرِاعظم ہاؤس، پارلیمنٹ بلڈنگ اور ریڈیو پاکستان پر قبضہ کرنا، توڑ پھوڑ کرنا بھی ایسا ہی اندوہناک واقعہ تھا۔ ازراہ تفنن، یکم ستمبر 2014ء کی اسٹیبلشمنٹ کی دن دیہاڑے سرپرستی حاصل تھی، چنانچہ مجال ہے کہ کوئی عدالت حرکت میں آتی۔ 9؍مئی کیساتھ سب بڑا مذاق اسٹیبلشمنٹ نے خود کیا کہ بجائے اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتے ، کاریگروں نے سیاسی انجینئرنگ کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کے اراکین کی لوٹ سیل میں کود پڑے تاکہ پی ٹی آئی کو توڑ کر ختم کیا جائے ۔ پوچھنا بنتا ہے کہ معافی مانگنے والوں، عدم استحکام پارٹی والوں، پرویز خٹک وغیرہ کی سیاست کا کیا بنا۔ دو سال بعد جب پی ٹی آئی کو ڈرانے کیلئے دس دس سال کی سزائیں دیں تو عمران خان کی عوامی حمایت کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی، موصوف اندر کھاتے خوش ہو گا۔ کیا معلوم ہے کہ ملک عدم استحکام کے گڑھے میں ہے۔ جب آئین وقانون ہاتھ کی چھڑی، عدلیہ جیب کی گھڑی تو عوام کا بے یارو مددگار رہنا نصیب سمجھیں۔ مجال ہے کہ کوئی پوچھ گچھ ہو ۔

پیارے بیٹے حسّان ! اپنی جیل کو من جانب اللّٰہ کی آزمائش سمجھو ۔ قسمت کا لکھا ٹل نہیں سکتا، چنانچہ کڑے اور کٹھن وقت کو برضا ورغبت قبول کرو۔ کڑے اور کٹھن وقت کو اللّٰہ سے تعلق جوڑنے اور اس کو مضبوط اور مربوط کرنے پر صرف کرو۔ خود احتسابی کا دامن نہیں چھوڑنا کہ خود احتسابی ہی ایمان، علم، کردار اور استقامت نکھارتی ہے۔ ثابت قدم رہو اور اپنے اصولوں اور آئیڈیلزم پر ڈٹے رہو ۔ رہنمائی صرف اللّٰہ تعالیٰ سے اور ذریعہ قرآن وحدیث ہی ۔ جس کسی نے بھی تمہارے ساتھ ذرا برابر ظلم اور زیادتی کی ہے،انجام دونوں جہانوں میں درج ہے ۔ میری طرف سے آپکو یوم آزادی ، فتح حق اور استقامت و پامردگی سے گزرے 2 سال قید مبارک ، سلامت رہو ۔

تازہ ترین