بارش برمنگھم کی سنسان گلیوں پر دھیرے دھیرے اتر رہی تھی، جیسے رات کی سیاہی میں کوئی خاموش سا ساز بج رہا ہو۔ ایک آوارہ بلی دیوار پر چڑھ کر میاؤں کرتی اور پھر اندھیرے میں غائب ہو جاتی۔ گلی کے ایک کونے میں ایک عورت کھڑی تھی۔ہوڈی کے نیچے چھپا چہرہ، چپل پہنے قدم، اور ہاتھوں میں ایک نائن ایم ایم پستول۔ یہ ایمی بیٹرو تھی امریکی ریاست وسکانسن کی ایک عام سی دکھائی دینے والی عورت، گرافک ڈیزائن کی گریجویٹ، جس کے بارے میں جاننے والے کہتے تھے کہ اس کے چہرے کی سادگی کے پیچھے ایک بے خوف درندہ چھپا ہے۔
اس رات وہ برطانیہ کے ایک پاکستانی خاندان کی دشمنی کی کالی لہر کا حصہ بن چکی تھی، ایک کہانی جو چھ سال پہلے ایک کپڑوں کی دکان کے معمولی جھگڑے سے شروع ہوئی تھی۔ 2018ءکی اس جھڑپ میں محمد اسلم اور اس کا بیٹا محمد نبیل نذیر زخمی ہوئے، اور اس کے بعد ان کے دل میں اصلت محمود اور اس کے بیٹے سکندر علی کے خلاف ایسا زہر بھرا کہ وہ انتقام کو عبادت بنا بیٹھے۔ یہ محض غصہ نہیں تھا، یہ نسلوں سے چلی آنے والی اس سوچ کا تسلسل تھا جس میں خون کا بدلہ خون سے ہی پورا ہوتا ہے۔
اس انتقام کے لیے انہیں کسی ایسے ہاتھ کی ضرورت تھی جو ان کے دشمن کے لیے موت کا پیغام بن جائے۔ نذیر ایک ڈیٹنگ ایپ پر ایمی سے ملاایک اجنبی، جو برطانوی پولیس کے لیے نامعلوم تھی لیکن امریکہ میں اس کی شہرت ایک "غیر معمولی" عورت کی تھی۔ 2019 کے سرد دسمبر میں وہ برطانیہ پہنچی، نذیر کے ساتھ لندن کے گنگز کراس میں ایک ایئر بی این بی میں قیام کیا، اور پھر ایک طویل کھیل شروع ہوا۔ لندن، مانچسٹر، ڈربی، برمنگھم ہر شہر میں ملاقاتیں، ہر کمرے میں سرگوشیاں، اور ہر سفر میں ایک قدم قریب تر موت کے۔
قتل سے تین دن پہلے ایک ویڈیو بنی، جس میں ایمی ایک پستول چلاتی ہے جو جام ہو جاتی ہے، اور ہنستے ہوئے کہتی ہے، ’’اصل دن پر یہ نہیں ہونا چاہیے… ورنہ تمہارا بدلہ ادھورا رہ جائے گا‘‘۔ گرمیوں کے ایک دن وہ "بیکی بوتھ" کے نام سے پرانی گاڑی خریدتی ہے، نقاب پہنتی ہے، اور نذیر و اسلم کے ساتھ اس گلی میں پہنچتی ہے جہاں سکندر علی رہتا ہے۔ سکندر جیسے ہی گاڑی سے اترتا ہے، ایمی ٹریگر دباتی ہےچٹاخ! پستول ایک بار پھر خاموش بغاوت کرتی ہے۔
اس ناکامی کے باوجود وہ پیچھے نہیں ہٹتی۔ رات کے آخری پہر وہ دوبارہ سکندر کے گھر لوٹتی ہے اور باہر سے تین گولیاں چلاتی ہے، جیسے یہ انتباہ ہو یا اپنے ہی حوصلے کی آخری کسوٹی۔ پھر مانچسٹر ایئرپورٹ سے امریکہ واپس اڑان بھرتی ہے، اور چند دن بعد نذیر اس کے پاس آتا ہے۔ دونوں ایک کرائے کی گاڑی لیتے ہیں اور ایک عجیب سا روڈ ٹرپ شروع کرتے ہیں سیئٹل کے ساحل، نیواڈا کے سنسان ریگستان، لاس اینجلس کی روشنیوں اور سان فرانسسکو کے پلوں کے نیچے بہتی ہوا میں ایک لمحاتی آزادی۔ لیکن ان کی یہ عارضی دنیا دراڑوں سے بھری تھی ایف بی آئی، نیشنل کرائم ایجنسی، اور برطانوی پولیس ان کے پیچھے تھے۔
سالوں کی چھان بین کے بعد ایمی آرمینیا کے دارالحکومت یریوان کے مضافات میں ایک ہاؤسنگ کمپلیکس سے گرفتار ہوئی۔ تب تک یہ کہانی سرحدوں سے پار جا چکی تھی، لیکن اس کے بیچ میں ایک سوال اب بھی دھڑک رہا تھا: کیا یہ سب رقم کا سودا تھا، یا یہ محبت کی وہ سیاہ صورت تھی جو جرم کو بھی عبادت بنا دیتی ہے؟
عدالت میں ایمی نے کہا، "یہ میرا کام نہیں… یہ کسی اور امریکی عورت نے کیا ہے، جو میرے جیسی لگتی ہے، وہی کپڑے پہنتی ہے، اور وہی فون رکھتی ہے۔" اس کے الفاظ دھند کی طرح تھے، جن میں سے حقیقت کی لکیر نظر نہیں آتی تھی۔
ججوں نے اکیس گھنٹے سوچنے کے بعد اسے قتل کی سازش میں مجرم قرار دیا۔ اسلم اور نذیر کو پہلے ہی اس الزام میں قید ہو چکی تھی، لیکن پولیس کے مطابق کوئی مالی ثبوت نہیں ملاکوئی لین دین، کوئی سودا، کچھ بھی نہیں۔ شاید یہ رقم کا نہیں بلکہ رشتے کا کھیل تھا، ایک ایسا رشتہ جس میں محبت، جرم اور خطرہ ایک ہی دھاگے میں بندھے تھے۔ اب ایمی بیٹرو کی دنیا جیل کی دیواروں میں سمٹ چکی ہے، مگر اس رات کی بارش، نقاب کے نیچے چھپی آنکھیں، اور ٹریگر پر رکی ہوئی انگلی کی کہانی ابھی بھی زندہ ہےاس سوال کے ساتھ کہ کیا وہ گولیاں پیسے کے لیے تھیں یا دل کے لیے؟