• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یار لوگ تو بے پَر کی اُڑانے کے ماہر ہیں، ایک سابق ایڈیٹر نے تو برسوں پہلے امریکہ میں بیٹھ کر یہ ویڈیو دعویٰ کر دیا تھا کہ اِس عاجز نے جلا وطن نواز شریف اور جنرل عاصم منیر کی ملاقات اور ڈیل کروا دی ہے۔ اور تو اور ایک سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے ’’ہونہار‘‘ صاحبزادے بھی یہ خبر اڑانے میں پیش پیش تھے حالانکہ اس وقت تک میں نے جنرل عاصم منیر کو سوائے ٹی وی کے کبھی بالمشافہ دیکھا بھی نہیں تھا۔ جب سے جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے ہیں غائبانہ طور پر انکی تعریف و تنقید دونوں سننے میں آتی رہیں ۔وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ملاقات میںمجھے 1985ء کے بعد سے آنے والے آرمی چیفس کا تقابل پیش کرتے ہوئےمثالوں سےواضح کیا تھاکہ جنرل عاصم منیر ان سب سے مختلف اور بہتر ہیں، انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ انکی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اِدھر کی دکھا کر اُدھر کو گیند نہیں مارتے اور نہ ہی وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں۔ اسی طرح میرے کئی دہائیوں کے دیرینہ دوست محسن نقوی بھی ہر ملاقات میں جنرل صاحب کے واقعات اور خوبیوں کا دفتر کھول بیٹھتے ۔محسن نقوی رازوں کو گہرائی میںدفن رکھنے ،کم گوئی اور خاموشی سے ہر سوال کو ٹالنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، ان کے اندر کیا طوفان برپا ہوتے ہیںوہ چہرے کی کیفیت سے دوستوںپر توعیاں ہو جاتے ہیں مگر خود انکی اس بارے میں کبھی زبان نہیں کھلتی۔ بطور صحافی میں تجسّس سے مجبور ہو کر محسن نقوی سے دوستانہ اور کبھی کبھی شکوے کے انداز میں کہتا رہا کہ جنرل صاحب سے ملاقات کروا دو۔ محسن نقوی ہنس کر کہتے میں نے آپ کا پیغام دیدیا ہے مگر وہ صحافیوں سے ملنا نہیں چاہتے۔ ایک بار محسن نقوی سے اسلام آباد میں تلخ مکالمہ ہو گیا کہ آپ میرا پیغام ہی نہیں پہنچاتے ورنہ ملاقات کیسے نہ ہوتی۔ اگلی صبح محسن نقوی نے بتایا کہ آپکا خط اور پیغام میں نے جنرل صاحب کو پہنچا دیا ہے اور انہوں نے مسکرا کر اسے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل عاصم ملک کے حوالے کر دیا ہے۔ مجھے محسن نقوی کی بات کا یقین نہ آیا اور میں سمجھا کہ یہ بات صرف مجھے ٹالنے کیلئے ہے مگر دوسرے دن ملائیشیا کے وزیراعظم کو اعزاز دینے کی تقریب صدارتی محل میں ہوئی تو وہیں پہلی دفعہ جنرل عاصم منیر سے دعا سلام ہوئی انہوں نے نہ صرف گزشتہ روز کے پیغام کی تصدیق کی بلکہ وقتاً فوقتا ًمیری درخواستوں کا بھی مسکرا کر اقرار کیا اور کہا کہ ضرور جلد ملیں گے۔

بالآخروہ پہلی ملاقات بلجیم کے شہر برسلز میں ہوئی۔ یہ پہلی ملاقات تھی،میں نے نہ کبھی خفیہ ملاقات کی تھی اور نہ آج کی ، یہ ایک عاجز صحافی اور فیلڈ مارشل کی ملاقات تھی جس میں میرے کھردرے سوالات تھے اور انکے واضح اور شفاف جوابات۔ بات سیاست سے شروع ہوئی اوربالخصوص ان افواہوں پر کہ صدرِپاکستان اور وزیراعظم کو تبدیل کرنے پر کام ہو رہا ہے۔جنرل عاصم منیر نے برسلز کے جلسے میں اور میرے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست میں واضح طور پر کہا کہ تبدیلی کے بارے میں افواہیں سراسر جھوٹ ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب خبریں تو سول اور عسکری ایجنسیوں کی طرف سے آئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں دراصل ا نکے پیچھے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف اور سیاسی انارکی پیدا کرنیوالے عناصر ہیں۔ اپنے عزائم پر انہوں نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر کہا کہ ’’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے مجھے اسکے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں ،میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے۔ جنرل عاصم منیر بار بار سیاسی حکومت کے تدبر اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کے 18 گھنٹے پر خلوص کام کرنے کو سراہتے رہے انہوں نے کہا جنگ کے دوران وزیراعظم اور کابینہ نے جس عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اسکی تعریف کی جانی چاہئے۔‘‘

سیاسی حوالے سے کئے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے، اس حوالے سے انہوں نے اسٹیج پر قرآن پاک کی آدم کی تخلیق او رشیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا جس سے واضح ہوتا تھا کہ شروع میںفرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا مگر خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم اور کرشمہ سمجھ کر قبول کرلیا۔ گویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔معاشی بحران کے حل کے حوالے سے انکے پاس پورا روڈ میپ تھا جس میں پانچ اور دس سال کے اندر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی تھی،انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ اگلے سال سے ریکوڈک سے ہر سال دو ارب ڈالر کا خالص منافع ہوگا اور جو ہر سال بڑھتا جائیگا، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس نایاب زمینی خزانہ ہے اس خزانے سے پاکستان کا قرضہ بھی اتر جائے گا اورپاکستان کا شمار جلد ہی خوشحال ترین معاشروں میں ہونے لگے گا۔

بین الاقوامی حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا طویل تجربہ ہے ’’ہم ایک دوست کیلئے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے‘‘ انہوں نے صدر ٹرمپ کی امن کی خواہش کو جینوئن قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش میں پہل کی اب باقی دنیا ہماری پیروی کر رہی ہے۔

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ہر موقع پر بھارت اور اسکے ہندو توا رہنما مودی کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں ۔برسلز میں بھی انہوں نے جہاں بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان کے امن کو تباہ نہ کرے وہاں انہوں نے افغان حکومت کو بھی وارننگ دی کہ طالبان کو پاکستان میں دھکیلنے کی پالیسی بند کی جائے ورنہ ایک ایک پاکستانی کے خون کا بدلہ لینا ہم پر واجب ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانوں پر سالہا سال تک مہربانیاں اور احسانات کئے اسکا بدلہ اتارنے کی بجائے ہمارے خلاف بھارت سے ملکر سازش کی جارہی ہے۔

یورپ کےمرکزی شہر برسلز میں ہونیوالی یہ کانفرنس اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے سربراہ سیدقمررضا شاہ اور میرے فیملی فرینڈ اور مہربان سردار ظہور نے ملکر کروائی تھی اس میں یورپ بھر سے سینکڑوں اوورسیز پاکستانی شریک ہوئے ۔جنرل عاصم منیر کا جنگ کے فاتح کے طور پر استقبال ہوا، ایک اوورسیز نے تو جھک کر انکے ہاتھوں کو چوما، کئی ایک نے صدیوں کے بعد کسی مسلمان ملک کی کافر ملک پر فتح پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

جنرل عاصم منیر ذاتی طور پر تکبّر‎ سے کہیں دور ہیں حالانکہ عام طور پر حکمرانوں اور جرنیلوں کے اردگرد ’’ہٹو بچو‎‘‘ کا شور ہوتا ہے مگروہ گھنٹوں کھڑے ہو کر کم از کم دو تین سو لوگوں سے ملے ہر ایک سے مصافحہ کیا انکے ساتھ تصویر بنوائی اور ہر ملاقاتی کے ایک آدھ سوال کا جواب بھی دیا انکے چہرے پر کوفت نہیں بلکہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ایک دو ساتھیوں نے مشورہ بھی دیا کہ اتنے لوگوں سے ملنا بدانتظامی پیدا کر دے گا مگر انہوں نے عجز سے کہا کہ یہ لوگ بہت دور دور سے آئے ہیں ،ملنے کے خواہش مند ہیں تو ا نکا دل کیسے توڑا جائے؟ اور پھر جب تک آخری اوورسیز پاکستانی ان سے ہاتھ ملا کر رخصت نہیں ہوا وہ اپنا یہ فرض نبھاتے رہے۔ ایک سیاسی ورکر نے مجھے کہا کہ’’اتنا حوصلہ تو سیاسی لیڈروں میں نہیں کہ ہر ایک سے ملنا گوارا کریں‘‘ فیلڈ مارشل نے اس عاجز کی معروضات کو کمال مہربانی سے سُنا ۔سب سے بڑی آوازتو یہی ہے کہ سویلین نظام چلتا رہے اسکو مصلحت اور مصالحت سے مزید نمائندہ بنایا جائے تاکہ واقعی مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے۔

تازہ ترین