• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّفہ: ڈاکٹر رخشندہ پروین

صفحات: 260، قیمت: 400روپے

زیرِ نظر کتاب کی مصنّفہ، ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نوعُمری میں صحافت کا آغاز ایک انگریزی اخبار سے کیا تھا۔ وہ اردو اور انگریزی میں کالم نگاری کرتی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب اُن کے کالمز پر مشتمل ہے، جو اُنہوں نے اخبارات کے لیے تحریر کیے۔ کتاب کے پانچ ابواب ہیں، جن کے ذیلی مضامین کی تعداد 70ہے۔ تمام کالم بروقت اور برمحل موضوعات پر ہیں۔ 

کتاب کے مطالعے سے پتا چلا کہ وہ بہت بے باک اندازِ تحریر رکھتی ہیں۔بات سے بات پیدا کرنا بھی ایک ہنر ہے، جس پر ڈاکٹر رخشندہ پروین قادر ہیں۔ اُن کا ایک کالم بھی ایسا نہیں، جس سے سَرسری طور پر گزرا جاسکے۔ اُنہیں جرأتِ اظہار کا سلیقہ آتا ہے۔ 

یوں تو اُن کا ہر کالم اپنے اندر کوئی نہ کوئی خُوبی رکھتا ہے، تاہم ہمیں اُن کے کالمز’’پاکستان میں خلائی سائنس کی عام مقبولیت‘‘،’’غالب کی سال گرہ‘‘، ’’فیض احمد فیض آج زندہ ہوتے تو پھر فلسطین کا نوحہ کہتے‘‘، ’’امن کا رقص اور مئی کا مہینہ‘‘، ’’سُنا ہے کل رات مر گیا وہ‘‘ نے بے حد متاثر کیا۔ عموماً جنھیں کالم کہا جاتا ہے، دراصل وہ مضمون ہوتے ہیں، کالم نگاری میں تڑکا بہت ضروری ہے اور اگر کالم ’’سپاٹ‘‘ ہوگا، تو اُسے کون پڑھے گا۔ 

ڈاکٹر رخشندہ پروین کے کالمز میں زندگی رواں دواں دِکھائی دیتی ہے، حَسین طنزیہ استعاروں نے اُن کے کالمز کو زندہ و جاوید بنادیا ہے۔کتاب میں ڈاکٹر شاہد اقبال کامران اور ڈاکٹر خیام قیوم کے توصیفی مضامین بھی شامل ہیں۔