• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرافشاں فرحین

حال ہی میں ایک برطانوی کمپنی نے پہلی مرتبہ خواتین وکلاء کے لیے حجاب متعارف کروایا ہے۔ یاد رہے، برطانوی عدالتوں میں خواتین وکلاء کو سفید وِگ پہننے پر مجبور نہیں کیا جاتا اور نہ ہی وِگ کی جگہ پہننے کے لیے کوئی دوسرا لباس مخصوص کیا گیا ہے۔ تاہم، وکلاء کے لیے لباس ڈیزائن کرنے والی برطانوی کمپنی، ’’آئیوی اینڈ نارمینٹن‘‘ نے گزشتہ دنوں حجاب کی ایسی سیریز متعارف کروائی ہے، جنہیں عدالتوں میں پہنے جانے والے لباس کے عین مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔ 

سفید اور سیاہ رنگ پر مشتمل اس حجاب سے سَرڈھکنے والی خواتین کے لیے آسانی پیدا ہوگئی ہے، جن میں ایک بڑی تعداد مسلمان خواتین وکلاء پر مشتمل ہے۔ اِس ضمن میں کمپنی کے بانی، بیرسٹر کارلیا کا کہنا ہےکہ ’’اُمید ہے، یہ حجاب اب اور بھی زیادہ مسلمان خواتین کو قانون کے شعبے کی جانب لانےکا سبب بنے گا،جب کہ یہ حجاب مسلمان خواتین وکلاء کواپنی الگ پہچان برقرار رکھتے ہوئے مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔‘‘ 

مذکورہ حجاب متعارف کروائے جانے پر مسلمان خاتون وکیل، سلطانہ صفدر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے معروف خبررساں ادارے، ’’عرب نیوز‘‘ کو بتایا کہ ’’حجاب علامتی طور پر بھی اُتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ عملی طور پر اور اس حجاب کا متعارف کروایا جانا اِس بات کی علامت ہے کہ آج برطانوی عدالتوں میں مسلمان خواتین وکلاء کی موجودگی کوتسلیم کیاجارہا ہے اور اس حجاب کی مدد سے مسلمان خواتین وکلاء کو عدالتی اصولوں کے مطابق لباس پہننے کے ساتھ اپنی الگ پہچان برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘ 

ایک اورمسلمان خاتون وکیل، بیرسٹر مریم میر نے مذکورہ حجاب کی لانچنگ کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’برطانوی عدالتوں میں اب خواتین وکلاء کی تعداد 50فی صد سے تجاوز کرچُکی ہے اور اس صنفی تنوّع میں مسلمان خواتین کی موجودگی کو اس انداز میں تسلیم کیا جانا ایک بہت بڑی کام یابی ہے۔‘‘ 

دوسری جانب حال ہی میں یہ خبربھی سامنےآئی ہےکہ اب کویتی فیشن اسٹارحجاب پہنیں گی، جب کہ حجاب کو نئے اندازمیں پیش کرنے والی ایک خاتون بلاگر کہتی ہیں کہ ’’حجاب تحفّظ کا احساس دیتا ہے۔‘‘ اسی طرح ’’ایڈیڈاس‘‘ کی نئی تشہیری مُہم کے دوران بھی کئی خاتون ایتھلیٹس اور آرٹسٹس حجاب پہنے نظر آئیں۔

مذکورہ بالا واقعات سے مغرب میں اسلام کی خوب صُورت اقدار اور مسلمان خواتین کی پاک دامنی اور پاکیزگی کی علامت، حجاب کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جب کہ اس کے برعکس آج بیش تر اسلامی ممالک کے اربابِ بست و کُشاد فیشن کی دوڑ میں اہلِ مغرب سے بھی دو قدم آگے دکھائی دیتے ہیں۔ 

خالص مغربی ماحول میں پرورش پانے والےاس طبقے کے نزدیک اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ایک لایعنی اَمر ہے۔ یہ طبقہ اسلامی اور مشرقی روایات سے منحرف ہو کرمغرب کی راہ پر گام زن ہوا، تو اس کی دنیوی وجاہت اور اقبال مندی کو دیکھ کر متوسّط اور نچلے طبقے کی بھی نظریں للچائیں اور پھر رفتہ رفتہ تعلیم، ملازمت اور ترقّی کی آڑ میں وہ تمام مناظر سامنے آنے لگے کہ جن کا تماشا مغرب میں دیکھا جا چُکا تھا۔

آج ہمارے معاشرے میں عُریانیت و بےحیائی کا سیلاب لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا ہے، جس میں اسلامی تہذیب و تمدّن کے محلاّت ڈُوبتے اور انسانی عظمت و شرافت، نسوانی عفت و حیا کے پہاڑ بہتےچلے جارہے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سیلاب کہاں جا کر تھمے گا اور انسان، انسانیت کی طرف کب پلٹے گا؟ اسلام دُشمن قوّتیں جب دلائل، واقعیت، حقیقت اور افادیت کی بنیاد پرمبنی اسلام کےخُوب صُورت نظام، حسین تہذیب وتمدّن اوردِل کولبھانےوالی اسلامی ثقافت کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئیں، تو انہوں نے میڈیا سے دوکام لیے۔ 

اوّل، اس کی افادیت کا اتنا چرچا، شوروغوغا کیا کہ اُسے ہرگھر اور ہر فرد کی ضرورت ہی باورنہیں کروایا گیا، ریاست کا چوتھا ستون بھی قرار دلوا دیا، جس کی بنا پر ہر ریاست، حکومت، سیاسی جماعت اور ادارہ اس کا دستِ نگر اور محتاج نظر آنے لگا، پھر اس کے لیے اپنی ڈھب، پسند، مادیّت سے مغلوب، تعلیماتِ اسلامی سے دُوراور قومی وقار و حمیّت سے ناآشنا مَردوزن کو ترجیحی بنیادوں پر منتخب کیا گیا۔ حالاں کہ حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’حیا اور ایمان لازم وملزوم ہیں، جب ایک جاتا ہے، تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔‘‘ 

ایسے میں معاشرے کے برگزیدہ، معزّزافراد کی ذمّےداری ہے کہ وہ بےپردگی و بے حیائی کی طغیانی کےخلاف جہاداور اپنے اثرورسوخ سے معاشرے کی اصلاح کریں، جب کہ حکومت پر یہ ذمّےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ فحاشی و عریانی کے انسداد کے لیے عملی اقدامات کرے۔ ہماری بدقسمتی ہےکہ ہمارا معاشرہ اخلاق باختہ قوموں کی رَوش پر چل نکلا ہے اور آج اسلام کی خُوب صورت و پُروقار اقدار سے عاری اقوام کی وضع قطع، نشست و برخاست اور طور طریقے فخریہ طور پر اپنائے جارہے ہیں۔

دُعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری ماؤں، بہنوں،بیٹیوں کونام نہاد تہذیب کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھے اور آخرت میں حضورِ اکرمﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے، آمین۔