• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بر صغیر میں جب انگریزوں نے ریل کا آغاز کیا تو بر صغیر کے لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ گورے ہماری زمینوں کو ریل کے ذریعے یہاں سے اٹھا کر لے جائیں گے اور یہ حقیقت ہے یہاں کے بعض جہالت کے مارے لوگوں نے بر صغیر کے بے شمارمقامات سے ریل کی پٹریاں اکھاڑ لی تھیں ۔ انگریز ادھر پٹریاں ڈال کر جاتے ادھر لوگ ان ریلوے کی لائنوں کو اکھاڑ دیتے۔آپ ذرا سوچیں پاکستان اور بھارت کے پہاڑی سلسلوں میں جس طرح انگریزوں نے بغیر جدیدآلات اور مشینری کے سرنگیں بنا کر ریل کی پٹریاں بچھائیں یہ انہی کا کام تھا۔آج بھی پورے لاہور اور بر صغیر کے تمام شہروں اور دیہات میں گوروں کا بچھایا ہوا ریل کا نظام ہی کام کر رہا ہے۔آپ سوچیں انگریز یہاں کی آبادی کے لیے ریل کا نظام لا رہا تھا اور ہمارے لوگ ریل گاڑیوں پر حملے کر رہے تھے۔ انجن ڈرائیوروں کو مار رہے تھے۔بات ہو رہی تھی لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی۔ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا سنگ بنیاد لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سرجان لارنس نے رکھا تھا مگرآپ لاہور ریلوے اسٹیشن پورا گھوم لیںآپ کو سرجان لارنس کا کوئی مجسمہ، تصویر یا اس کےنام کی کوئی پلیٹ کہیں لگی ہوئی نظر نہیںآئے گی۔اسی طرح جب انجینئر ڈبلیو ٹن نے اس خوبصورت ریلوے اسٹیشن کی ڈیزائننگ کی تو اس کا بھی نام آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔ایک وہ تھے جنہوں نے کئی عمارات خود اپنی جیب سے یا سرکار کے پیسے سے تعمیر کیںاور خود ان کے سنگ بنیاد رکھے مگر کہیں اپنے نام کی تشہیر نہ کی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کی تعمیر ٹھیکیدار محمد سلطان/ میاں سلطان نے کی تھی۔ اس ٹھیکے دار کا بھی نام کہیں نہیں۔ سرائے سلطان جو کہ لاہور کی بڑی مشہور سرائے ہے وہ بھی اسی کی تھی ۔ محمد سلطان ٹھیکیدار نے لاہور میں بے شمارعمارات تعمیر کی تھیں۔ ان کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔ اس ریلوے اسٹیشن پر بھی میاں محمد سلطان کا کہیں نام وغیرہ نہیں۔ اس ٹھیکیدار نے لاہور کی کئی مغل عمارات سے اینٹیں اور پتھر اکھاڑ لیے تھے بلکہ ایک مسجد تک کی بھی اینٹیں اکھاڑ لی تھیں۔ خیر اس پر پھر بات کریں گے لاہور کا یہ مرکزی ریلوے اسٹیشن جس کی کسی زمانے میں لوگ بہت سیر کرنے آیا کرتے تھے اب لوگ سیر کرنے نہیں آتے۔ ابھی لاہور میں پچھلے دنوں جس ٹرام کا آغاز ہوا اس سے پہلے لاہور میں اورنج ٹرین اور میٹرو بس پہلے ہی چل رہی تھیں یہ منصوبے نئے نہیں۔ شاید قارئین کویاد ہو کہ جب پنجاب کےدرویش منش وزیراعلیٰ محمدحنیف رامے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ لاہور میں زیر زمین ٹرین کا آغاز کیا جائے گا یہ بات غالباََ 1974/75کی ہے ایسا وزیراعلیٰ جو 7کلب روڈ پر رہائش رکھتا تھا اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہی ایک دفتر تھا اور دوسرا لارڈ صاحب یعنی پنجاب سیکرٹریٹ میں تھا اور وہ باقاعدہ دفتر لارڈ صاحب میں بیٹھ کر لوگوں کو ملا کرتے تھے۔ ان کے مسائل سنا کرتے تھے اور موقع پر احکامات بھی جاری کیا کرتے تھے۔آج تو وزیراعلیٰ کو ملنا انتہائی مشکل ہے ویسے بھی پچھلے کئی سالوں سے یہ روایت چل رہی ہے کہ اب کوئی وزیراعلیٰ لاہور سیکر ٹریٹ میں نہیں بیٹھتا حالانکہ وہاں پر باقاعدہ وزیراعلیٰ کے دفاتر ہیں ۔مصطفی کھر، نواب صادق قریشی اور کئی وزراء اعلیٰ باقاعدہ لاہورسیکرٹریٹ میں بیٹھا کرتے تھے۔آج آپ کو ایک وزیر سےملنے کے لیے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے یہ تو بھلا ہو لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران، ڈی پی او احمد محی الدین اور ایس پی ڈیفنس شہربانو نقوی جو لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور موقع پر ان کے لیے احکامات جاری کرتے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنزفیصل کامران تو روزانہ جس انداز میں عوامی کچہری لگاتے ہیں یہ ان کا ہی حوصلہ اور ہمت ہے ہم بھی بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں ۔جب انگریزوں نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی اس زمانے میں لاہور ریلوے اسٹیشن سے 24 گھنٹوں میں 75 ریل گاڑیاں آیا اور جایا کرتی تھیں۔آج لاہور ریلوے اسٹیشن کو رنگ و روغن کے ذریعے سجایا جا رہا ہے ارے بابا اسٹیشنوں کو مت سجاؤ بلکہ ریل کی پٹریوں ٹرین کے ڈبوں کے سپرنگ ،کمانیاں اور ان دنوں کی حالت بہتر کرو ۔ریل کی پٹریوں سے تو نشہ کرنے والے اور شر پسندوں نے نیٹ بولٹ تک چوری کر لیے ہیں۔آئے دن ریل کے ڈبے پٹریوں سے اتر جاتے ہیں۔ ریلوے کے کرپٹ مافیا نے مختلف ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے ماہانہ وصول کر کے ٹرینیں لیٹ کیں جس کی وجہ سے ریل کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ لیں جناب لاہور کی ایک انتہائی تاریخی اور قدیم عمارت کے فن تعمیر کا حسن تباہ کر دیا گیا ایک طرف میاں نواز شریف اور ان کے پی ایس او مسٹر وقار لاہور کا تہذیبی ثقافتی اور تعمیراتی حسن بحال کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایل ڈی اے نے لاہور میں اپنے وقت کےانتہائی خوبصورت نیوٹن ہال کاآر کیٹکچر حسن تباہ و برباد کر دیا ہے اس تاریخی ہال جہاں پر کبھی ایف سی کالج کی کلاسیں ہوا کرتی تھیں پھر جو پچھلے سوسال سے نرسوں کا ہاسٹل تھا جس میں میو ہسپتال کی نرسیں رہائش پذیر رہیں کبھی سو کے قریب یہاں نرسیں رہتی تھیں اب تو صرف چند ایک رہ گئی ہیں اس تاریخی عمارت کو جو قومی ورثہ ہے اس کی کھڑکیوں اور عمارت کے بالکل ساتھ ٹیوب ویل نصب کردیا گیا ہے حالانکہ یہ ٹیوب ویل اس تاریخی عمارت سے دور نصب کیا جا سکتا تھا۔ ایک 1975 ءکے آثار قدیمہ ایکٹ کے تحت آپ کسی بھی تاریخی عمارت کے 200فٹ تک کوئی تعمیرات نہیں کر سکتے تو دوسری طرف ٹیوب ویل نصب کر دیا جس کی بھاری مشینری کی دھمک سے یہ 132 سالہ عمارت آہستہ آہستہ زمین بوس ہونا شروع ہو جائے گی اور پھر یہاں کوئی پلازہ یا کوئی سائیکل اسٹینڈ یا پارکنگ ایریا بن جائے گا۔ (جاری ہے)۔

تازہ ترین