• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت پاکستان نے بالآخر مسلح افواج کو شمالی وزیرستان میں موجود ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ افواج پاکستان کے جوانوں نے جیٹ جہازوں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور گولہ بارود کے ذخیروں پر زبردست بمباری کی ہے۔ علاقے کا زمینی گھیرائو مکمل کر لیا گیا ہے اور پرامن شہریوں کے انخلا کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کی جو کاغذی نائو چلانے کی کوشش کی جا رہی تھی وہ ناقابل مزاحمت منطق کی لہروں میں ڈوب گئی ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ بیانات میں ازبک شدت پسندوں کا التزام سے ذکر کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس میں یہ حکمت عملی کارفرما ہے کہ عوام کو کراچی ایئرپورٹ پر حملے میں ازبک عناصر کے کردار کی یاد دہانی کرائی جا سکے تاہم اس سے ایک بالواسطہ نتیجہ یہ بھی تو نکالا جا سکتا ہے کہ جو صاحبان مذہب و علم چند مہینے پہلے تک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے نام پر ہمارے کانوں میں شہد گھول رہے تھے انہوں نے تو ایسی تصویر کشی کر رکھی تھی کہ گویا قبائلی علاقوں میں صرف پاکستانی شہریت رکھنے والے افراد اور گروہوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ معدودے چند راندۂ درگاہ دبے لفظوں میں یہ بتانے کی کوشش کرتے تھے کہ ہماری سرزمین پر پاکستانی اور افغانی طالبان کے علاوہ القاعدہ کے مختلف گروہوں نے بھی ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ اس کارروائی کے نتیجے میں اچھے اور برے طالبان کی مفروضہ لکیر بھی بارود کی آگ اور دھوئیں میں تحلیل ہو جائے گی۔ پاکستان کی ریاست نے آخری وقت پر فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے۔ اس فیصلے میں مزید تاخیر ممکن نہیں تھی۔ مستقبل میں یہ سوال اٹھایا جاتا رہے گا کہ اگر یہ کارروائی کچھ برس پہلے کر لی جاتی تو ہمیں وہ نقصانات نہ اٹھانا پڑتے جو گزشتہ برسوں میں ہمارے جسد اجتماعی پر لگائے گئے تاہم یہ تاریخ نویسی کی مشاطہ گری کا وقت نہیں۔ پاکستان کے محب وطن شہریوں کو پوری یکسوئی سے حکومت اور افواج پاکستان کی حمایت کرنی چاہئے اور یہ جان لینا چاہئے کہ یہ جنگ پاکستان کے ان دشمنوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے جن کی مزاحمت نہ کی جاتی تو ان سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ لڑیں گے۔ مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بہادر افواج ہمیشہ کی طرح کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی۔ اگر ریاست کے عزم کی یہ صورت موجود ہے تو جان لینا چاہئے کہ یہ لڑائی زیادہ طویل نہیں ہو گی۔ شدت پسندوں کے جرائم پیشہ گروہوں میں یہ حوصلہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان کے عوام اور افواج کی مشترکہ یلغار کا دیر تک مقابلہ کر سکیں۔طالبان کی اب تک کامیابیوں میں تین عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ریاست مختلف وجوہات کی بنا پر مؤثر کارروائی سے گریزاں رہی۔ ہمیں بتایا تو یہی جاتا رہا کہ ہم دس برس سے جنگ لڑ رہے ہیں لیکن یہ جنگ سے زیادہ جنگ سے بچنے کی کوشش تھی۔ اب جبکہ قوت کے مؤثر استعمال کا اعلان کیا گیا ہے، دیکھنے والے جان لیں گے کہ جنگ کسے کہتے ہیں اور اس کی مزاحمت کیسے کی جاتی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ طالبان نے غلط یا صحیح یہ تاثر پھیلا رکھا تھا کہ انہیں ریاست کے کچھ حصوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس تاثر کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ریاست کے پاس فوج کے علاوہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی صورت میں جو صلاحیت موجود تھی وہ بڑی حد تک مفلوج ہو کر رہ گئی۔ طالبان کا تیسرا اہم ہتھیار قوم میں شکوک و شبہات اور فکری ابہام پیدا کرنا رہا ہے۔ یہ کچھ ایسا ڈھکا چھپا راز نہیں کہ سیاسی قیادت اور ذرائع ابلاغ میں کون سے عناصر یہ ابہام پیدا کرتے رہے۔ زیادہ مناسب یہی ہو گا کہ اس موقع پر انگشت نمائی کر کے تلخیاں پیدا کرنے کے بجائے یہ توقع کی جائے کہ پاکستانی قوم کے یہ حصے اب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے۔آپریشن غضب کا بالکل ابتدائی مرحلہ ہے۔ کوئی لڑائی بھی طے شدہ منصوبے کے مطابق آگے نہیں بڑھتی۔ اس میں بہت سے بیرونی عوامل کا ردعمل بھی مدنظر رکھنا ہو گا تاہم زیادہ توقع یہی ہے کہ افغانستان، امریکہ اور بھارت سمیت اس خطے میں دلچسپی رکھنے والی غیر ملکی قوتیں خود اپنے مفاد میں پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کریں گی۔ مذہبی انتہا پسندی کا عفریت صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ یہ شعلے تو افریقہ اور خلیج میں بھی بھڑک رہے ہیں۔ اگر پاکستانی ریاست اس لڑائی میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس سے پوری انسانیت کو اس عفریت سے نجات پانے میں مدد مل سکے گی۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی قوتوں کا تعلق ہے، بڑے دھارے کی جماعتیں مثلاً پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی نے طالبان کے ہاتھوں بڑے زخم اٹھائے ہیں۔ ان کی طرف سے اس کارروائی میں حکومت کی مکمل حمایت قابل فہم ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سیاسی فراست رکھنے والے رہنما ہیں۔ ان سے غیر ذمہ داری کی توقع نہیں کی جاتی۔ تحریک انصاف ایک صوبے میں حکومت چلا رہی ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر میں آہستہ روی سے لیکن بامعنی تبدیلیاں لائے گی۔ پاکستان کو درپیش اتنے بڑے خطرے کو دیکھتے ہوئے اہم سیاسی قوتوں کا یہ اتفاق رائے پاکستان کی مجموعی صورت حال میں نہایت خوش آئند تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں بار بار اس خطرے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ اگر شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر حصوں میں کارروائی کی جاتی ہے تو پاکستان کے شہروں بالخصوص پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی وغیرہ میں موجود خفیہ ٹھکانوں کی مدد سے تباہی پھیلا دی جائے گی۔ بے شک اس نوعیت کے خطرات موجود ہیں مگر جاننا چاہئے کہ پہلی گولی چلنے سے پہلے ہر فریق اپنی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتاہے۔ طالبان کے ردعمل کی صورت جو بھی ہو وہ اس پاکستانی قوم کو نہیں جھکا سکتے جنہوں نے دس سال تک بڑے حوصلے سے پچاس ہزار شہریوں اور چھ ہزار فوجی جوانوں کی قربانی دی اور مہذب قوموں کی طرح اپنی ریاست سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ دہشت کے ان بیوپاریوں کو بھرپور جواب دے۔یہ زاویہ بھی مدنظر رہنا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی محض ہتھیار بند جتھوں کو ختم کرنے اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے سے نہیں جیتی جا سکتی،اس کے لئے ہمیں اپنے جسد اجتماعی میں موجود ان گرم مرطوب منطقوں کا بھی جائزہ لینا ہو گا جہاں انتہا پسندی کے جراثیم پرورش پاتے ہیں۔ اگر پاکستان میں ایک مستحکم جمہوری بندوبست موجود ہوتا، اگر حکومتوں کا بنیادی ہدف شہریوں کے معیار زندگی میں بہتری لانا ہوتا، اگر ہم نے اپنے معاشرتی نمونے سے تحکمانہ اونچ نیچ کی جڑی بوٹیاں تلف کی ہوتیں، اگر ہم نے مذہبی تفرقے کی بیخ کنی کی ہوتی، اگر ہمارے آئینی اور ریاستی اداروں میں مثالی ہم آہنگی موجود ہوتی تو ہم اس دلدل میں گرفتار نہ ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں انتہا پسندی کی تمام صورتوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں نیا اجتماعی بیانیہ مرتب کیا جائے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ میں یہ کام نہیں ہوا کرتا تاہم جنگ کو حقیقی اخلاقی جواز دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ عوام کی زیر زمین امنگوں کو پانی دیا جائے۔ دوسری عالمی جنگ 1945ء میں ختم ہوئی تھی مگر اٹلانٹک چارٹر اگست 1941ء ہی میں مرتب کر لیا گیا تھا۔ آئیے مبارک حیدر کی ایک نظم سے کچھ سطریں پڑھتے ہیں جو انہوں نے36 برس پہلے آمریت کی قید میں لکھی تھیں۔ لڑائی کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں،خواب سلامت رہتے ہیں۔ جس قوم کے خواب زندہ ہوں، اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔
اب جو نکلے ہو سرشام ہوائوں کی طرح
ابر آنے کی گھڑی تک یونہی آتے رہنا
دیدۂ تر سے یونہی پھول کھلاتے رہنا
تازہ ترین