• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارش جو کبھی خوشحالی زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی اب تباہی،سیلاب اور انسانی المیوں کی علامت بن چکی ہے۔پہلے مون سون کا موسم آتا تھا تو خوشگوار رومانوی تاثرات کی ایک لہر رگ و پے میں سرایت کر جاتی تھی اور آج آسمان پر بادل نمودار ہوتے ہیں تو دل خوف سے بیٹھنے لگتے ہیں۔پہلے مون سون کی آمد پر باغوں میں جھولے پڑتے تھے اور آج دل میں خوف وسوسے اور اندیشے جنم لیتے ہیں۔دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر یہ شدید بارشیں ایک نئی اور غیر متوقع صورتحال اختیار کر چکی ہیں۔ سائنسدان اسے موسمیاتی تبدیلی کا براہ راست شاخسانہ قرار دے رہے ہیں اور پسماندہ ممالک اسے ایک عذاب کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اگرچہ بارش ایک قدرتی عمل ہے مگر اس میں کوئی دوسری رائے نہیں اس کی شدت میں اضافے، وقت اور مقام میں تبدیلی اور اس کے اثرات میں جو تنوع نظر ا ٓرہا ہے وہ واضح طور پر انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا بھر میں موجود صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں جو موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئی ہے اس نے پوری دنیا خصوصاً برصغیر کے موسم پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک جہاں پر وسائل کم اور خطرات زیادہ ہیں اس کے تباہ کن اثرات سے نسبتاً زیادہ نبرد آزما ہیں۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام 2025ی رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطا 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں،جن میں زراعت،انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال کی تباہی سب سے زیادہ ہے۔این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق 24 جون سے 23 جولائی کے دوران پاکستان میں بارشوں میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس اضافے کا تعلق عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہے۔یہ عالمی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جو بارشوں کو غیر معمولی اور شدید بنا رہی ہیں۔ ماحولیاتی سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ پچھلے 200 سالوں میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔صنعتی انقلاب سے پہلے یعنی 1800 کی دہائی میں زمین کا درجہ حرارت آج کی نسبت تقریبا 1.2 ڈگری کم تھا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں نہ صرف درجہ حرارت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ بارشوں کی شدت میں بھی اضافے نے جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے کئی خطوں میں موسمیاتی آفات کی رفتار تیز کر دی ہیں۔سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں ایسے موسمیاتی واقعات رونما ہوئے ہیں جو ماہرین کے لیے حیران کن ہیں اور ایسے موسمی واقعات جن کی توقع 2025 تک رونما ہونے کی تھی وہ 2025 میں ہی وقوع پذیر ہو رہے۔ ان سالوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بارشوں کی مقدار میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سال جولائی میں کئی ممالک میں پاور ڈیم تباہ ہو گئے،شمالی بھارت میں بھی ایسا ہی ایک گاؤں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا ہے۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں خوفناک تباہی دیکھنے کو ملی یہاں پر کئی گاؤں بڑے پہاڑی پتھروں کے نیچے دب گئے۔بھارت چین میں خصوصی طور پر ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ منسلک علاقوں میں تباہی کی رفتار بہت زیادہ ہے۔گلیشیر کے پگھلنے کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے نہ صرف زندگی تباہ کی ہے بلکہ انفراسٹرکچر کو غیر معمولی تباہی سے دوچار کیا ہے۔عالمی سطح پر ہونے والی ان تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی صحت ،خوراک کی پیداوار،رہائش، انسانی جانوں کی حفاظت اور ذرائع روزگار پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایک طرف خشک سالی کے مہیب خطرات منڈلا رہے تو دوسری طرف سیلاب سے انسانیت کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔بارشیں اور سیلاب اب کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکے ہیں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پاکستان اور بھارت میں سرحد کے دونوں اطراف میں یکساں طور نقصانات کیےہیں۔بھارت کی آبی جارحیت نے پاکستان کے نشیبی علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان کو امداد مانگنے کے بجائے ایسے اقدامات پر غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ان قدرتی آفات سے نپٹنے کے لیے ہماری استعداد کار میں اضافہ کریں۔وزیراعظم ان دنوں چائنہ میں ہیں جہاں پر عالمی طاقتوں کا ایک بڑا اکٹھ ہے انہیں چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو اس بڑے فورم پر اٹھائیں۔ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کا بندوبست کریں۔عالمی فورم پر آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرونی انفراسٹرکچر اور نظم میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔درختوں کی بے محا کٹائی،ندی نالوں، آبی گزرگاہوں پر آبادیوں کا قیام،برساتی نالوں کی دیکھ بھال کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی غیر معمولی طور پر نقصان ہوا ہے۔ہمیں قلیل المدتی اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل المیعاد منصوبوں کی بھی ضرورت ہے شجرکاری کو جنگی بنیادوں پر سرانجام دیا جائے،آبی گزرگاہوں پر موجود آبادیوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کیا جائے،درختوں کی کٹائی کے حوالے سے نہ صرف موثر قانون سازی کی جائے بلکہ ٹمبر مافیا سے منسلک لوگوں پر کڑی گرفت کی جائے۔این ڈی ایم اے کو جدید سائنسی آلات اور ماہرین سے لیس کیا جائے تاکہ کسی بھی غیر معمولی موسمیاتی صورت سے بروقت آگاہی ہو سکے۔ بلدیاتی ادارے فعال کیے جائیں تاکہ مقامی حکومتیں اس صورتحال سے نمٹیں مرکز اور صوبوں پر دباؤ کم ہو۔موسمیاتی تبدیلی جو 1990میں صرف کتابوں میں پڑھی جاتی تھی اب ایک خطرہ بن کر سامنے آ گئی ہے۔انسانی آبادی اور وسائل کو اس کے خطرناک اثرات سے بچانا حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین