• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ینگ ڈاکٹرز نے میڈیکل کی ’’اعلیٰ روایات‘‘ کو زندہ کرنے کے لئے پھر ایک بار پھر ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ یہ نوجوان ڈاکٹرز جنہوں نے مریضوں کی فلاح و بہبود ، ان کے علاج اور زارداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے اگر اس حلف کو سامنے رکھیں تو شاید ہی کوئی اس پر پورا اترتا ہو۔ آج میڈیکل پروفیشن کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا جارہا ہے۔ وائی ڈی اے نے یہ تو کہا کہ ان کے سروس سٹرکچر پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ابھی بھی 60 فیصد نکات پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اس مرتبہ وائی ڈی اے کے رہنمائوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اپنا لائحہ عمل صیغۂ راز میں رکھے گی۔ تاکہ روزانہ ہی حکومت پنجاب اور محکمہ صحت پنجاب کو سرپرائز ہڑتال و احتجاج کی صورت میں مل سکے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم مریضوں کو تکلیف دینے کے لئے بھی سرپرائز دیتے ہیں۔ ان دنوں پورے ملک میں سوائے پہاڑی علاقے چھوڑ کر قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے اور ہمارے نوجوان ڈاکٹر کو غریب کی مشکلات اور وہ جس اذیت ناک زندگی سے دوچار ہیں اسکا انہیں کیا پتہ کبھی ان نوجوان ڈاکٹروں نے سوچا کہ لاہور سے باہر سے جو مریض صرف اس امید پر آتے ہیں کہ انہیں یہاں علاج، دوائی ملے گی۔ مگر یہاں تو آپ ہڑتال کر بیٹھے ہیں۔ پچھلے دنوں جناح اسپتال میں ڈیڑھ ہفتے تک پانی نہیںآیا۔ روزانہ کے کئی آپریشن صرف اس لئے ملتوی کرنے پڑے کہ آپریشن تھیٹروں میں پانی نہیں تھا۔ واش رومز میں پانی نہیں تھا جن مریضوں کے آپریشن ملتوی ہوئے ان کو جو تکلیف ہوئی سو ہوئی۔ ان کے لواحقین کی اذیت کا کسی کو احساس ہے؟ہمیں یاد ہے کہ چالیس سال میں ہم نے نہیں سنا کہ سرکاری اسپتالوں کا پانی بند ہوا ہو۔ جناح اسپتال تو ایک نیا اسپتال ہے جس کی عمر ابھی تیس سال بھی پوری نہیں ہوئی اور یہاں پر آئے دن مشینیں اور آلات خراب رہتے ہیں کیا وائی ڈی اے کے پاس وہ اعداد و شمار ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے پاس کیا سہولیات ہیں اور پھر ان کی ہڑتالوں کے دنوں میں ماضی میں جو مریض اللہ کو پیارے ہوئے ان بے گناہ افراد کا خون کس کے سر پر ہے۔ ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ جس نے کسی ایک کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ کیا وائی ڈی اے کی ہڑتال اور مریضوں کو نہ دیکھنا اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں؟ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے پاس ایسے ایسے ’’کمال‘‘ کی شکایات ڈاکٹروں اور بعض پرائیویٹ اسپتالوں، کلینکوں اور خصوصاً چھوٹے شہروں کے ڈاکٹروں کے بارے میں ہیں۔ کہ آپ سنیں تو حیران رہ جائیں۔ کیا کبھی وائی ڈی اے نے اس مسئلے پر ہڑتال کی ہے؟ کبھی وائی ڈی اے نے یہ الٹی میٹم دیا کہ پنجاب میں صرف ایک منہ اور جبڑے کی ڈاکٹرہے اور منہ اور جبڑے کے علاج اور کینسر کے لئے مزید ڈاکٹرز ہونے چاہئیں۔ نسوار، پان، چھالیہ، گٹکا اور سگریٹ نوشی سے منہ اور جبڑے کا سرطان بڑھ رہا ہے اس پر وائی ڈی اے نے ہڑتال کی، پرائیویٹ سیکٹر میں ڈاکٹروں کو جو تنخواہیں دی جارہی ہیں اور وہاں پر ان کے لئے سروس سٹرکچر نہیں۔ کیا اس پر ان ینگ ڈاکٹروں نے شور مچایا؟ آج پرائیویٹ علاج انتہائی مہنگا ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں کمروں کا کرایہ بیس بیس ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ وہاں پر اس ملک کے نامور ڈاکٹرز اپنی من مانیاں کررہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ماضی میں لوگ کہتے تھے کہ اللہ کسی کو تھانے کچہری کا منہ نہ دکھائے اب لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کسی کو اسپتال کا منہ نہ دکھائے۔ آج معمولی اپنڈکس اور پتے کا آپریشن کا بھی پرائیویٹ اسپتالوں میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے پڑ رہا ہے آج انتہائی دکھ اور شرم کی بات ہے کہ پورے ملک کے کسی بھی سرکاری اسپتال کی لیبارٹری، ملک میں قائم دو پرائیویٹ اداروں کی لیبارٹریوں کے مقابلے کی دور کی بات اس سے پچاس فیصد کم معیار کی بھی نہیں۔
یہ دونوں لیبارٹریاں جس قسم کے ٹیسٹ کررہی ہیں کوئی سرکاری اسپتال نہ تو وہ ٹیسٹ کررہا ہے اور نہ ان کے پاس وہ مشینیں ہیں اس سے زیادہ دکھ اور افسوس کی کیا بات ہوگی کہ سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریاں عام لوگوں کے لئے دو بجے بند کردی جاتی ہیں۔ ہمیں یہاں پر پروفیسر محمود چوہدری مرحوم سابق وزیر صحت کی یہ بات یاد آرہی ہے کہ انہوں نے بعض بڑے ڈاکٹروں کو مرچنٹ ڈاکٹرز کہا تھا جس پر بڑی لے دے ہوئی تھی آج وہ نامور ڈاکٹرز جو صبح دس بجے پرائیویٹ اسپتالوں میں گھستے اور رات کے ایک بجے تک انجیوگرافی، آپریشن، الٹراسائونڈ اور پتہ نہیں کن کن طریقوں سے مریضوں کی کھال اتارتے رہتے ہیں۔ سترہ سترہ پٹرول پمپ مریضوں کو لوٹ لوٹ کر بنا لئے۔ پھر بھی دل نہیں بھرا اور اپنے ڈاکٹروں سے کہتے ہیں کہ مریض کو مزید دو چار دن کے لئے روک لیا کرو تا کہ بل زیادہ بنے۔ افسوس، انہیں مرنا یاد نہیں۔ان کے بارے میں وائی ڈے اے نے آواز اٹھائی؟ کسی بھی پرائیویٹ اسپتال بلکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی فیسیں، سیکورٹی، مریضوں کی سہولیات، آپریشن تھیٹروں کے حالات پر کبھی کسی وائی ڈی اے کے رکن نے بیان دیا؟
کے پی کے میں شوگر کے مریضوں کو انسولین بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بقول ڈاکٹر محمد علی جاوا کے کہ ہر دسویں عورت کو تھائی رائیڈ کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے اکثر مائوں کے بچے دوران حمل ضائع ہو جاتے ہیں اور تھائی رائیڈ کی دوائی کی ایک گولی کی قیمت صرف ایک روپیہ ہے لیکن یہ دوائی بنانے والی کمپنیاں اس دوائی کو کم مقدار میں بناتی ہیں کیونکہ اس میں شرح منافع بہت کم ہے۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ وہ تھائی رائیڈ کی دوائی مفت کر دے۔ میاں صاحب یہ نیکی کر گزریں۔اس طرح بے شمار ایسی ادویات ہیں جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس مسئلے کو ینگ ڈاکٹرز نے کبھی اٹھایا؟ وائی ڈی اے کے ایک رہنما اور ہمارے دوست ڈاکٹر عامر بندیشہ جن کا تعلق پی آئی سی ہے اور انہیں پتہ ہے کہ پی آئی سی میں انجیوگرافی، بائی پاس اور انجیوپلاسٹی کی تاریخیں ایک ایک سال کی غریب مریضوں کو دی جارہی ہیں جبکہ پرائیویٹ مریضوں کو فوراً ہی تاریخ مل جاتی ہے۔ ہم نے انہیں بھی کئی بار اس بارے میں بتایا اور وہ غریب مریضوں کے لئے ہمدردی بھی رکھتے ہیں مگر بھائی آپ یہ تو ہڑتال کررہے ہیں کیا اس سے غریب مریضوں کو مزید تکلیف نہیں دے رہے۔ اس قیامت خیز گرمی میں لوڈشیڈنگ اور پھر میو اسپتال، سرگنگارام اسپتال اور چلڈرن اسپتال میں ایک ایک بستر پر دو سے تین مریض لیٹے ہوئے ہیں۔ کیا یہ کراس انفیکشن نہیں ہورہی؟ مریض تندرست ہونے کی بجائے مزید بیمار ہورہے ہیں۔
راجباہ پنجاب کا ایک علاقہ ہےجہاں پر تھائی رائیڈ (گلہڑ) کے بے شمار مریض ہیں وہاں پر محکمہ صحت کا ایک بڑا افسر اس سے نہ صرف بے خبر ہے بلکہ موصوف فرماتے ہیں کہ یہ کوئی بیماری ہے۔ حالانکہ اس بیماری سے حاملہ خواتین کے بچے ضائع ہو جاتے ہیں۔ جس محکمہ صحت کے افسر کو جو کہ ڈاکٹر ہے اس کی معلومات کا یہ حال ہے وہ وہاں صحت کی سہولیات کیا فراہم کرتا ہوگا۔
وائی ڈی اے اپنی مشکلات اور مطالبات کے لئے ہڑتال بے شک کرے مگر یہ ہڑتال کرنے کا کیا طریقہ ہوا کہ آئوٹ ڈورز میں آپ کام بند کردیں، مریض تڑپتے رہیں، پتہ نہیں اکثر شدت گرمی کے موسم میں وائی ڈی اے ہڑتال کیوں کرتی ہے؟ ہم وائی ڈی اے کو کہیں کہ اس پروفیشن کی ترقی اور مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کے لئے بھی کبھی کبھی آواز اٹھا لیا کریں۔ روز قیامت آپ کی وجہ سے جو مریض موت کے منہ میں جائیں گے اس کا حساب دینا ہوگا۔ آج میڈیکل کے بے شمار ایسے شعبے ہیں جہاں پر سہولتوں کا فقدان اور ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے آئندہ اس پر بھی بات کریں گے آج بعض ڈاکٹر صرف رپورٹیں دیکھنے کےبھی دو ہزار فیسیں لے لیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہر روز 32مائیں دروان زچگی مر جاتی ہیں اور یہ بچے ماں کی شفقت سے ساری عمر کیلئے محروم ہو جاتے ہیں۔ کبھی وائی ڈی اے نے اس مسئلے پر سوچا؟ یہ افسوسناک خبر تو یقیناً سب نے پڑھ لی ہو گی کہ جلال پور جٹاں کے ایک شخص محمد بلال کے ہاں جڑواں بچیاں پیدا ہوئیں اور اسپتال والوں نے 32ہزار کا بل ادا نہ کرنے پر اس کی بچیوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے میں آزاد کشمیر کے ایک شخص کو فروخت کر دیا۔ کیا کبھی کسی نے ان مسائل پر بھی آواز اٹھائی ہے؟ ذرا سوچئے!
تازہ ترین