چینی صدر شی نے ایس سی او سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست نشان دہی کی کہ دنیا اس وقت تبدیلی کے مرحلے اور انتشار سے گزر رہی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ نبرد آزما ہے ۔ اس وقت دنیا کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ اس نئی صورتحال میں کس نوعیت کے اقدامات انسانوں کی فلاح و بہبود کا باعث بن سکتے ہیں ۔ کیا ماضی کی مانند جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا رویہ امن و سلامتی کا ذریعہ بن سکتا ہے یا اجتماعی سلامتی جو مساوات کے اصولوں پر مبنی ہو، سے دنیا کے مستقبل کو سنوارا جا سکتا ہے ۔ اس ایس سی او کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ انڈیا کے وزیر اعظم بھی سات سال بعد اس میں شریک ہو رہے تھے اور اس شرکت کو صرف امریکی صدر ٹرمپ کی ٹيرف پالیسی سے نہیں جوڑنا چاہئے بلکہ چینی صدر اور انڈین وزیر اعظم گزشتہ برس اکتوبر میں برکس کے اجلاس کے موقع پر بھی ملاقات کر چکے تھے ۔ اسلئے انڈیا کی یہ پالیسی نظر آ رہی تھی کہ وہ اپنی اہمیت کا احساس واشنگٹن کو کرانا چاہتا ہے اور یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ اُس کے پاس دوسرے راستے بھی ہیں۔
امریکہ ،انڈیا کے اقدامات یا یوں کہہ لیجئے کہ انڈیا کے کاروباری سرخیلوں کی مال بناؤ پالیسی اورروسی تیل خریدنے کو بالکل مختلف انداز میں دیکھ رہا ہے اس وجہ سے امریکی پالیسی انڈیا کے حوالے سے بالکل دو ٹوک انداز میں سامنے آئی ہے ۔ اس اجلاس کی اہمیت اس لئے دو چند ہو گئی ہے کہ اس میں حالیہ پاک انڈیا تصادم کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ایک ہی چھت کے نیچے ہونا تھا اور اس دوران کی گئی گفتگو سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی موجودہ حیثیت اور مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہونے ہیں ۔ پاکستان ایک عرصے سے خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی میں انڈیا کا کلیدی کردار ہے مگر اس سب کے باوجود انڈیا دنیا بھر میں پاکستان کیخلاف ہر وقت دہشت گردی کا پروپيگنڈا کرتا پھرتا ہے ۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ضروری تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ان تمام امور کو زیر بحث لائیں جو علاقائی تعاون اور باہمی سلامتی کے کسی ميکانزم کو پروان نہیں چڑھنے دے ر ہے، بر سبیل تذکرہ ذکر کرتا چلوں کہ جن وجوہات کی بنا پر سارک گمنام ہوچکی ہے و ہی رویہ ایس سی او جیسی بڑی تنظیم کیلئے بھی بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس فورم کا زبر دست فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو اور در حقیقت ایس سی او کی فعالیت کو در پیش چیلنجز کا بہت مؤثر انداز میں ذکر کیا ۔ انڈیا کا ایک طویل عرصے سے بین الاقوامی برادری کے سامنے بیانیہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اسکو مستقل طور پر’’دہشت گردی ‘‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس بیانیہ سے اس نے بہت حد تک اپنے مفادات کو حاصل بھی کیا اور کشمیر میں جاری بد امنی کی اصل وجہ سے دنیا کی توجہ دور کرنے میں مصروف رہا ۔ اس نقطہ نظر پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا طور پر ایس سی او ممالک کے سامنے ان قربانیوں اور مسائل کو رکھا جو انڈیا کی وجہ سے پاکستان کو بر داشت کرنا پڑ رہے ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو جو 152 ارب ڈالر کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑا اس کا ذکر کیا اور معاشی نقصان تو اپنی جگہ 90000 ہزار پاکستانی جو اپنی جانوں سے گئے، اس کا تذکرہ بھی کیا اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ انڈیا کا صرف سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کی غرض سے اختیار کیا گیا دہشت گردی کا بیانیہ دنیا کیلئے اب قابل تسلیم نہیں رہا ہے بلکہ پاکستان کے پاس اسکے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ جعفر ایکسپریس ، خضدار واقعہ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جو دہشت گردی کے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں ان میں غیر ملکی ہاتھ ہونے کے پاکستان کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں اور اس میں اہم ترین نکتہ یہ بیان کیا جو پاکستان کی جانب سے بہت سخت پالیسی کا اظہار کرتا ہے کہ اس سب کے مددگاروں کو جواب دہ ہونا پڑئیگا۔پاکستان میں اس وقت پانی ہی پانی ہے مگر جیسے ہی سردی کا آغاز ہوگا تو اس میں کمی آنا شروع ہو جائیگی اور اس وجہ سے ہی انڈیا اور دنیا کی موجودگی میں وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرنا چاہئے اور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی روش کو اختیار کرنے کی حماقت سے بچنا چاہئے کیونکہ اگر انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ کا پاس نہ کیا اور پانی کے حوالے سے کوئی حرکت کر گزرا تو پاکستان کیلئے پانی کی بلا تعطل فراہمی رگ حیات ہے اور اگر انڈیا نے اس پر ہاتھ ڈالا تو پاکستان کے پاس جواب دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچے گا حالانکہ انڈیا کی ان تمام حماقتوں کے باوجود وزیر اعظم نے سفارت کاری اور جامع گفتگو کی افادیت سے پاکستان کے غیر مبہم تعلق کی بات کی ۔ ویسے کتنا اچھا ہو کہ انڈیا اب بھی امن اور ہمسائیگی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان سے گفتگو کا آغاز کردے کیوں کہ صرف گفتگو ہی اس خطے میں پائیدار امن کو قائم کر سکتی ہے ۔