• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج انسان جب اس کرہ ارض کا جائزہ لیتاہے تو ایک ہی نتیجے پہ پہنچتا ہے : مجھ جیسا کوئی اس دنیا کی تاریخ میں نہیں گزرا۔ زندہ چیزوں کا مطالعہ کرنے والی سائنس کی شاخ حیاتیات یہ بتاتی ہے کہ دل ، خون ، پھیپھڑے ، جلد، سر سے پائوں تک انسان حیاتیاتی اور سائنسی طور پر ایک جانور ہی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ Reasoning اور Planning کر سکتاہے ۔ فاسلز اور ارتقا کی سائنسز یہ بھی بتاتی ہیں کہ ہومواریکٹس سمیت کم از کم 21قسم کے انسان ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ 1974ء میں ایتھوپیا سے دریافت ہونیوالی 32لاکھ سال پرانی مشہورِ زمانہ لڑکی لوسی ان میں سے ایک تھی ۔دماغ چھوٹا مگر دو ٹانگوں پہ سیدھی کھڑی ہو کر چلنے والی ۔

جو انسان ہم سے پہلے گزر چکے ، ان میں سے آخری یورپ کا نینڈرتھل مین تھا ، جو آج سے صرف تیس ہزار سال پہلے تک زندہ سلامت تھا ۔نینڈرتھل کا ڈی این اے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا ہے ۔فرق یہ ہے کہ شریعت صرف ہومو سیپین پر نازل ہوئی۔یہ ساری سائنسز انسان کو بتاتی ہیں کہ اس سے پہلے کئی آئے ، کئی گئے ۔ ایسے میں عقل بیدار ہوتی اور انسان کو تنبیہ کرتی ہے کہ ذرا سوچ کے چل ۔ کل کہیں کوئی تیرے فاسل نہ پڑھتا پھر رہا ہو۔

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

اب اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہیں ، ٹرمپ سے لے کر پیوٹن اور مودی سے لے کر نیتن یاہو تک، کوئی ہے اس آواز کو سننے والا؟اگر کوئی سننے والا ہوتا تو عالمی طاقتیں یوں لڑ رہی ہوتیں ؟ ۔ شیخ حسینہ نے کوئی عبرت حاصل کی اپنے باپ کے انجام سے؟ پاکستان نے بنگلہ دیش کی تخلیق سے کوئی سبق سیکھا؟

آخر انسان سبق کیوں نہیں سیکھتا؟ پروفیسر رفیق کے الفاظ میں جبلتوں کے دیو جب بغل گیر ہو جاتے ہیں تو عقل کی نازک پری بیچاری کیا کر سکتی ہے ؟ یہ جبلتیں کتنی طاقتور ہوتی ہیں ؟ایک لڑکاجو موٹر سائیکل کا ایک پہیہ اٹھا کراسے چلا رہا ہوتاہے ،اسے کوئی سمجھا سکتاہے ؟ جب وہ یہ سوچتا ہے کہ میں موت سے کھیلنے والا جنگجو ہوں ۔ میری دلاوری پرصنفِ نازک قربان ہو رہی ہوگی ۔یہ کرتب دکھانے والے لڑکے ایک قسم کے نشے میں ہوتے ہیں ۔ ’’خود سے خدا تک‘‘ کے مصنف ، میرے دوست ناصر افتخار کے الفاظ میں کسی بھی نشے کا سرچشمہ انسان کا اپنا دماغ ہے۔ مختلف کیمیکلز کا اخراج، جو دماغ میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں ۔ ہیروئن صرف اسے مہمیز کرتی ہے ۔

آج انسان اسی طرح نشے میں ہے ، جس طرح موٹرسائیکل کا پہیہ اٹھانے والا لڑکا نشے میں ہوتاہے ۔ آخر انسان کو کس چیز کا نشہ چڑھا ہوا ہے ؟ جواب : اپنی عظمت کا نشہ۔اپنی ٹیکنالوجی کا نشہ۔یہ زعم انسان کو لے ڈوبا کہ میں ایسی عظمت کا مالک ہوں ، جو پہلے کسی میں نہیں تھی ۔ وہ اس بات پر غور کرنے کوتیار نہیں کہ عظیم ترین انسانی ذہن اسی بیچارگی کے ساتھ مر جاتے ہیں ، جس طرح ایک بکری مرتی ہے ۔ یہ کیسی عظمت ہے ؟ وہ اس بات پہ غور کرنے کو تیار نہیں کہ یہ دماغ تو اسے تحفتاً ملا ہے ۔ چمپنزی کو دے دیا جاتا تو چڑیا گھروںمیں آج انسان بند ہوتے ۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ موت جیسی خوفناک حقیقت ہر لمحہ انسان کو یاد رہتی ۔ اب اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ٹرمپ ، مودی ، نیتن یاہو اور پیوٹن میں سے کسی ایک کو بھی موت یاد ہے ؟ ایک کو بھی نہیں ۔ اس کے باوجود نہیں کہ وہ سب بوڑھے ہو چکے اور تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ لالچ سمیت جبلتوں کی حدت نے انسان کو پاگل کر دیا ہے۔دیوانوں کی طرح وہ دنیا کے وسائل ہتھیانے کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ابرہام لنکن اور محمد علی جناح جیسی مثالیں تو صرف مستثنیات ہیں ۔ انسانی تاریخ میں بدترین لوگ بہترین لوگوں کو قتل کرتے اور زندانوں میں ڈالتے رہے ۔

حیاتیات ، فاسلز اور ڈی این اے کے علوم بتاتے ہیں کہ پچھلے ساڑھے تین ارب سال میں اس زمین پر پانچ ارب قسم کی مخلوقات زندگی گزار کے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکیں۔انسان جتنا مرضی غرور کرے، وہ پانچ ارب میں سے صرف ایک ہے ۔اسی طرح پیدا ہوتا، زندگی گزارتا اور مر جاتا ہے ۔ہومواریکٹس سمیت ان میں سے اکیس دو ٹانگوں پہ چلنے والی اسپیشیز تھیں ۔ہم سے مشابہہ مگر مختلف۔ دل تھام لیجیے ، ہو سکتاہے کہ کل ہم ہومو سیپین بھی ختم ہو جائیں ۔ پھر کوئی نیا آئے ، جو ہمارے فاسلز کا مشاہدہ کرے ۔قرآن کہتاہے :اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق پیدا کر دے ۔سورۃ فاطر ، 16۔اس سے زیادہ کھل کے اور کیا بتایا جا سکتاہے ۔

فلسطین سے یوکرین تک ، ایک دیوانگی انسان پہ طاری ہے کہ ہر چیز پر قبضہ کر لوں ۔باقیوں کو مار ڈالوں ۔اسرائیل کو چھوڑ دیجیے ، کیا پاکستان میں دو سگے بھائی جائید اد پہ نہیں لڑ مرتے ، جو انصاف کے ساتھ بھی تقسیم کی جا سکتی تھی؟ یہ حال ہے اس انسان کا، جس کے پاس ساری دنیا کے علوم و فنون ہیں ۔ سارے فاسلز جس کے سامنے ہیں ۔ محلے کے ایک ایک گھر میں عبرت کی داستانیں چیخ چیخ کر اسے سنائی جا رہی ہیں ۔عالمگیر جنگوں سے بھی انسان کوئی سبق نہ سیکھ سکا۔ یہ انسان دن رات اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرتاہے ۔ یہ سب اس انسان کے سامنے ہورہا ہے ، لمحہ بہ لمحہ جو بوڑھاہوتا اور موت کی جانب بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ اس کے باوجود وہ انصاف کرنے اور آنکھ کھول کر خدا کی اس تجلی کو دیکھنے سے قاصر ہے ، جو کائنات کے ذرے ذرے میں جگمگا رہی ہے ۔ وہی حقیقت ہے ، باقی دنیا تو قرآن کے الفاظ میں دھوکے کا سامان۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے ، آخرانسان کو کس نام سے یاد رکھا جائے گا؟’بیچارہ ،جذبات کا مارا؟‘ ہائے افسوس!

تازہ ترین