یہ 1968ء کی بات ہے جب میں برطانیہ کے مونس کیڈٹ اسکول میں زیر تعلیم تھا تو ایک دن مجھے اسپتال جانے کی ضرورت پڑ گئی۔وہاں پر میری ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوئی جس کو روانی سے عربی بولتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ۔جب مجھے پتہ چلا کہ وہ برطانیہ میں نیا نیا آیا ہے تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ وہ یہاں عارضی قیام کرے گا یا مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ہے تو اس نے ایک عربی کہاوت بیان کی کہ ’’میرا گھر وہی ہے جہاں مجھے کھانے کو ملے‘‘۔ اس ڈاکٹر کے یہ الفاظ کئی سالوں تک میرے ذہن پر سوار رہے، کیوں کہ ان سے یہ پتہ چلتا تھا کہ ’’اپنے گھر‘‘ کے افسانوی تصور اور زندگی کے تلخ حقائق میں کتنا تفاوت ہے۔یہی حقیقت با لاحیت افراد کو اپنا گھر یعنی ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔وہ ڈاکٹر ذہین افراد کے انخلاء جس کو انگریزی میں ’’برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں، کی ایک خاص مثال تھا۔ برین ڈرین کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو کئی عشروں سے مسائل درپیش ہیں۔ یہ ممالک اپنے محدود وسائل کو اس امید پر اپنے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنسدانوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں کہ وہ ان ممالک کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے تاہم انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ایسے افراد اپنی صلاحیتوں سمیت مغربی ممالک میں جا آباد ہوتے ہیں۔
یقیناً یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی اچھی زندگی کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک میں جا بسے۔ہمیں معلوم ہے کہ صلاحیت ایک مقناطیس کی طرح موقع کی طرف لپکتی ہے تاہم جو ممالک پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے لئے یہ ایک نہ ختم ہونے والا مکروہ سلسلہ بن جاتا ہے۔ ان ممالک کو ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے لئے باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوسری طرف باصلاحیت افراد ترقی کے کم مواقع ہونے کی وجہ سے خوشحال مغربی زندگی کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم ’’او ای سی ڈی‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد بیرون ملک کام کے لئے ہجرت کرنے کے رجحان کی شرح میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔افریقہ میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہر نو میں سے ایک شخص مغرب میں کام کررہا ہے۔ان میں سے زیادہ تر افراد واپس نہیں آئیں گے۔ ہنرمند افراد کے بیرون ملک قیام کے امکانات چھ گنا زیادہ ہیں تاہم اب ایک زبردست تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چند ممالک میں ذہین افراد کی منتقلی کا عمل الٹ گیا ہے اور اس کی وجوہات دلچسپ ہیں۔اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ ذہین افراد کی منتقلی کا سلسلہ بالآخر رک سکتا ہے جس سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں میں مواقع اور امید کا توازن بدل سکتا ہے۔ دنیا میں پیشہ ورانہ رابطوں اور ملازمتوں کی فراہمی کے سب سے بڑے آن لائن نیٹ ورک ’’لنکڈان‘‘ نے اپنے ممبران کے ذریعے باصلاحیت افراد کی بین الاقوامی نقل و حرکت کو جانچا ہے۔اس تحقیق کے مطابق میرا ملک متحدہ عرب امارات ذہین افراد کی پسندیدہ آماجگاہوں میں سرفہرست ہے۔ اس کے مطابق سال 2013ء میں ملک کی افرادی قوت میں باصلاحیت افراد کی شرح میں ایک اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔
باصلاحیت افراد کے پسندیدہ ممالک میں سعودی عرب، نائجیریا، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں باصلاحیت افراد کی آمد ایک تہائی سے بھی کم رہی۔ درحقیقت ایسے افراد کو دوسرے ممالک بھیجنے والوں میں سرفہرست اسپین، برطانیہ، فرانس، افریقہ، اٹلی اور آئرلینڈ ہیں۔ امیر ممالک جو ماضی قریب تک ہمارے روشن دماغوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے اب اپنے لوگوں کو ہماری طرف بھیج رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ صرف یہ ایک تحقیق کے نتائج ہیں اور کئی غریب ممالک ابھی تک باصلاحیت افراد کے انخلاء کے قدیمی مسئلے سے دوچار ہیں۔ ’’او ای سی ڈی‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی بیرون ملک منتقلی کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ برین ڈرین میں جتنا کردار معاشی مواقع کی دستیابی کا ہے اتنا ہی تحفظ کی خواہش کا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مسائل میں تنازعات اور عدم استحکام بھی شامل ہے۔ اگر قوم کے انتہائی باصلاحیت بیٹے اور بیٹیاں اپنے ملک میں کارکردگی دکھائیں تو وہ مسئلے کا حل بن سکتے ہیں اور ترقی کے ذریعے امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس امر کی وجہ سے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کے ہم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے باصلاحیت افراد کے انخلاء کا عمل الٹنے میں کامیابی کا جائزہ لیں۔ مواقع کی دستیابی سب سے اہم چیز ہے۔با صلاحیت افراد خود بخود ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جو معاشی ترقی کا ماحول قائم کریں، کاروبار کو آسان بنائیں اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں اور کامیابی کے رجحان کی نشوونما کریں۔ باصلاحیت افراد کامیابی اور چیلنج کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔ اس سطح کے مواقع مغرب میں محدود ہوتے جا رہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں صورت حال مختلف ہے۔ کم از کم ان ممالک میں جہاں اچھی اور مضبوط گورننس کی لگن موجود ہے اور جو خوب سے خوب تر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ معیار زندگی کی بھی بہت اہمیت ہے۔گزشتہ نسل کے لوگ مغرب سے باہر کام کرنے کو ایک دقت سمجھتے تھے۔آج متحدہ عرب امارات کا معیار زندگی دنیا میں بہترین گردانا جاتا ہے۔ہم نے ثابت کیا ہے کہ باصلاحیت افراد کی منتقلی کے عمل کو الٹا جانا اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانا ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔
آخرکار خوشی اور خوشحالی کا فروغ کسی بھی حکومت کا بنیادی کام ہے۔ ہماری کہانی خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے لئے ایک امید کی کرن ہے کیوں کہ اس خطے میں تنازعات اور مایوسیوں نے بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کو فروغ دیا ہے۔میں نے ہمیشہ کہا کہ اچھی گورننس کے علاوہ عرب دنیا میں اختلافات اور مسائل کا حل بنیادی سطح پر ترقی اور معاشی مواقع کی فراہمی میں مضمر ہے۔اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ان عوامل کو روکا جا سکے جنہوں نے ماضی میں ہمارے باصلاحیت افراد کو ہم سے جدا کر دیا تھا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی جلد ممکن ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چھوٹے ممالک برین ڈرین سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات جیسے چھوٹے ملک اور تنازعات سے بھرپور خطے میں بھی ایک ’’امید کے جزیرے‘‘ کا قیام ممکن ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ برین ڈرین کے الٹنے کا مطلب صرف صلاحیت کے انخلاء کو روکنا ہی نہیں بلکہ ایک مکروہ سلسلے کو ایک خوش آئند سلسلے میں تبدیل کرنا بھی ہے۔دنیا بھر سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنے ہاں لانے سے ہم ایک متحرک اور متفرق معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جس سے جدت اور ترقی حاصل ہو گی اور یہ عمل مزید باصلاحیت افراد کو اپنی طرف کھینچے گا۔ اس کے لئے ہمیں لوگوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔ انسان کے خیالات، خواب، تخلیقی صلاحیتیں مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ اس طرح ذہانت کی واپسی بجائے خود ایک بڑی کامیابی نہیں بلکہ یہ ترقی کی ایک علامت ہے کیوں کہ جہاں آج عظیم لوگ موجود ہوں گے وہاں کل عظیم کمالات برپا ہوں گے۔
(مصنف متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیراعظم اور دبئی کے حکمران ہیں)