ان دنوں عالمی سیاست بڑی تبدیلیوں کی زد میں ہے، چین میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں ایک نئے عالمی بلاک کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتی اور گھٹتی ہوئی کشیدگی نے تمام ہمسایہ ممالک کو چوکنا کر رکھا ہے۔ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں کسی بھی تبدیلی سےپاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ افغانستان ایران بھارت ان سب ممالک میں ہونیوالی تبدیلیاں یا سرگرمیاں پاکستان کی خارجی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی محض رد عمل کی پالیسی کے طور پر ترتیب دی جاتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اہم ترین عالمی مواقع پر پاکستان کی حیثیت محض خاموش تماشائی یا مبصر سے زیادہ نہیں رہی۔لیکن گزشتہ ایک سال سے پاکستان کی خارجہ پالیسی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہے،ایشیا خصوصاََ جنوبی ایشیا کی سیاست میں پاکستان ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس بڑی تبدیلی کی دیگر عالمی وجوہات کیساتھ ساتھ اسکی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار ہیں۔پاکستان میں وفاقی حکومت کی کارکردگی پر بات کرنا انتہائی مشکل ہے۔ تمام وزارتیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت کام کر رہی ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی غیر فعال اور وزارت خزانہ تو عوام پر مہنگائی کے تازیانے برسانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کر رہیں۔ ان حالات میں عالمی محاذ پر دو ہی چہرے ہیں جو پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں ان میں سے ایک فیلڈ مارشل عاصم منیر کا ہے جبکہ دوسرا چہرہ سینیٹر اسحاق ڈار کا ہے۔ اسحاق ڈار شخصی طور پر تہجد گزار،نمازی، اور مذہبی سرگرمیوں میں خاموشی سے حصہ لینے والے ہیں، داتا گنج بخش علی ہجویری اور بری امام کے مستقل زائر ہیں لیکن انکی کارکردگی کو جانچنے کیلئے انکی شخصی خوبیوں کو پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ انکی کارکردگی ہی انکی شخصیت کی پہچان ہے۔ماضی میں انکی شہرت معاشی گورکھ دھندوں پر دسترس رکھنے اور ڈالر کو قابو رکھنے والی شخصیت کی رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے زمانے میں جب وہ وزیر خزانہ کے منصب پر فائز تھے تو انہوں نے ڈالر کو 100 روپے پر برقرار رکھ کر مہنگائی کا طوفان روکے رکھا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستانی معیشت کو سہارا دینے اور عالمی پابندیوں کے باوجود پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مضبوط کرنیوالے شخص بھی یہی اسحاق ڈار تھے۔ 2024 ء کے انتخابات میں جب میاں شہباز شریف کی کابینہ تشکیل دی گئی تو انہیں وزارت خارجہ سونپی گئی۔
عالمی مالیاتی اداروں کی ترجیحات بھی اپنی ہوتی ہیں۔ان کا مقصد کسی ملک کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا نہیں بلکہ انہیں اپنا دست نگر رکھنا ہوتا ہے۔وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 700 ارب روپے دے سکتے ہیں لیکن اگر اس رقم سے ووکیشنل ٹریننگ کے ادارے بنانے کی بات کی جائے تو اس سے وہ انکاری ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنی کتاب Reflection on Asia میں عالمی مالیاتی اداروں اور شخصیات کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو معاشی طور پر اپاہج کرنے کے کئی واقعات کا ذکر کیاہے۔انکے مطابق 1997میں ملائشیا کو ایشین ٹائیگر بننے سے روکنے کیلئے انکے اسٹاک ایکسچینج پر معاشی حملے کیے گئے جسکے باعث مارکیٹ کریش کر گئی۔یہ تو ڈاکٹر مہاتیر محمد جیسے راہنما کی حکمت عملی تھی کہ انہوں نے اس حملے کے باوجود ملک کو معاشی استحکام عطا کیا۔ ابتدا میں اسحاق ڈار کی بطور وزیر خارجہ تقرری کو محض عارضی انتظام یا سیاسی مجبوری سمجھا گیا لیکن انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کی گئی دانش سے دفتر خارجہ کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ وہ محض اقتصادی ماہر نہیں رہے بلکہ پاکستان کے حالیہ سیاسی اور سفارتی منظر نامے پر ایک فعال اور نتیجہ خیز وزیر خارجہ کے طور پر ابھرے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے عالمی تعلقات کو محض بحال نہیں کیا بلکہ ایک نئے تشخص سے آراستہ کیا ہے۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک طویل عرصے کے بعد اعتماد کی بنیاد پر کھڑا کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کا کردار نمایاں ہوا ہے، چین کے ساتھ تعاون اور سی پیک جیسے منصوبوں پر عمل درآمد میں تیزی آئی ہے، امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات، ٹیرف کی کمی اور پاکستانی برآمدات کے دروازے کھلنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔خلیجی تعلقات میں سعودی عرب یو اے ای اور قطر کے سرمایہ کاروں کے ساتھ توانائی کے مختلف منصوبوں کو عملی شکل دی ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور کشمیر کی مضبوط وکالت کی ہے، یورپی شراکت داروں کے ساتھ جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر کام کیا ہے،برسلز اور برلن میں ہونے والی سرمایہ کاری کی کانفرنسوں میں پاکستان کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے اور پاک بھارت جنگ کے دوران الزام تراشیوں اور سفارتی گرما گرمی کے ماحول میں پاکستان کی مدافعانہ پالیسی کے بجائے بردباری سنجیدگی اور حکمت سے بھری پالیسی ترتیب دی اور اپنے اقدامات سے وزارت خارجہ کو ایک مضبوط موقف سے لیس کیا، انہوں نے اپنی خاموشی کو باوقار بنایا اور وقار سے لبریز لہجے کو پاکستان کی پہچان دی۔ ان کی گفتگو کو اقوام متحدہ،او آئی سی اور خلیج تعاون کونسل جیسے عالمی فورم پر سراہا گیا ہے۔ پاک بھارت تنازع کے دوران انہوں نے پاکستان کا ایک نیا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اس بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ممالک کیساتھ تعلقات کے نئے دروازے کھولے۔ پاکستان جو کبھی محض رد عمل دینے والا ملک سمجھا جاتا تھا اب اعتماد کیساتھ عالمی مکالموں میں شریک ہے۔اندرونی محاذپر حکومت جتنی بھی نا اہلی دکھا رہی ہو خارجی محاز پر دفتر خارجہ کی کارکردگی لائق تحسین ہے۔