سیلاب میں ایک عورت ڈوب کر جاں بحق ہو چکی ۔اس کا چھوٹا سا بچہ پانی میں اس کی لاش کھینچتا ہوا لے جا رہا ہے ۔دل موم کی طرح پگھل جاتا ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک بچہ اپنے سے چھوٹے بچے کی لاش اٹھائے جا رہا تھا۔ ایک سپاہی نے کہا : لاش کو پھینک دو۔غمزدہ بچے نے جواب دیا: لاش نہیں ہے ، میرا بھائی ہے ۔ کیا کوئی نارمل انسان کسی بچے کو قتل کر کے اپنی اولاد کے ساتھ ہنس کھیل سکتاہے ؟ غزہ میں روز ایسا ہوتا ہے ۔دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے زیادہ سخت ۔ اس دنیا میں کیسا کیسا نادرِ روزگار آدمی جیا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ بغیر سیٹلائٹ اور کمپیوٹر کے ایک شخص حساب لگا لیتاہے کہ زمین کا قطر کتنا ہے ۔ نیوٹن زمین پہ بیٹھ کر ریاضی کی مدد سے سیاروں کے مدار کی وضاحت کردیتا ہے ۔ بلیک ہول نظر نہیں آتا ، انسان ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ انسان آج یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ اس کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، وہ صرف پانچ فیصد ہے ۔ پچانوے فیصد وہ ہے ، جو موجود تو ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ اگر آپ چھت سے ایک کاغذ پھینکیں تو اسے بہت آہستگی سے نیچے جانا چاہئے لیکن اگر وہ بہت تیزی کے ساتھ نیچے جا کر گرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کاغذ پر کوئی وزن رکھا ہواہے ، جو ہماری آنکھ کو نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح سائنسدان جب اس کائنات کو، کہکشائوں کی رفتار کو دیکھتے ہیں ،تو وہ بہت تیز ہے۔ جب حساب لگائیں تو معلوم ہوتاہے کہ پچانوے فیصد چیزیں نظر ہی نہیں آر ہیں۔ انہیں ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کا نام دیا گیا ہے ۔ اب اس دنیا کا کیا اعتبار کریں ، جس کا پچانوے فیصد نظر ہی نہیں آرہا۔
جن چیزوں کیلئے انسان اس زمین پر قتل و غارت کرتاپھر رہا ہے ، وہ کھربوں ٹن کے حساب سے ہر طرف بکھری پڑی ہیں ۔ کرہ ء ارض سے چالیس نوری سال کے فاصلے پر ہیرے کا بنا ہوا سیارہ 55 Cancrie پایا جاتاہے ۔ ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ اسے دیکھ کر للچا ہی سکتے ہیں۔ یہ سیارہ ایک واضح پیغام ہے ، اس شخص کو جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو کہ یہ دنیا ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
انسان کی اپنی ذات چشم کشا ہے۔ پانچ ارب قسم کی مخلوقات میں سے ایک، جو جسمانی طور پر باقی پانچ ارب جیسی ہی ہے ، زمین و آسمان کی تخلیق پہ غور شروع کر دے ۔ باقی پانچ ارب خوراک اور اولاد پیداکرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ سو چ سکیں۔ انسانی استحصال سے خو دکو بچانے کی کوئی کوشش بھی نہ کر سکیں ۔ اس سب کا مطلب بالکل واضح ہے کہ انسان کے ٹرائل کے لیے یہ سیارہ تخلیق کیا گیا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا پانچ ارب میں سے کم از کم ایک تو ایسی ہوتی ،جو کچھ نہ کچھ غور و فکر شروع کر چکی ہوتی ۔
ایک سیکولر مفکر نے اس تصور کا مذاق اڑایا کہ انسان کو خدا نے مٹی سے بنایا۔اُس کے خیال میں انسان ارتقا سے بنا ہے ؛حالانکہ خدا جہاں یہ کہتاہے کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا، وہیں یہ بھی قرآن میں لکھا ہے : اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔الانبیا 30۔مٹی میں وہ ہائیڈرو کاربن ہوتے ہیں ، جو کسی بھی زندہ شے کا بنیادی جزو ہیں ۔ پانی ان ہائیڈروکاربنز کو آپس میں زیادہ سے زیادہ تعامل کرنے میں مدد دیتاہے ۔ قرآن میں یہ لکھا ہے کہ ایک طویل عرصے تک انسان کوئی قابلِ ذکر چیز ہی نہیں تھا ۔سورۃ دہر ،1۔اب یہ کون سی مخلوق ہے ،جو انسان بھی ہو اور قابلِ ذکر بھی نہ ہو ؟ فاسلز کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ پچھلے سترلاکھ سال میں کم از کم اکیس قسم کے انسان (Hominins)اس زمین پہ زندگی گزار کر ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکے ہیں ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ساٹھ ستر لاکھ سال پرانے انسانی فاسلز کو نہیں مانتے مگر ساڑھے چھ کروڑ سال پرانے ڈائنا سار کو مانتے ہیں ۔
انسان ہے تعصب کا مارا ۔جو سیکولر ہے ، اس نےساری زندگی اپنی عقل خدا کے رد میں صرف کرنی ہے، جب کہ حقیقت برعکس ہے۔ تعصبات ہی ہیں کہ مسلمان کبھی اس فرقے سے باہر نہیں نکل سکتا ، بچپن میں جو اس کے ذہن میں ڈال دیا جائے ۔ شاید ہی کوئی انسان ہو، جس نےبڑی عمر میں غور و فکر سے اپنے نظریات کو تبدیل کیا ہو ۔
اکیس گزر چکے ہیں ۔بائیسویں Homininکا نام ہے ہو مو سیپین ، جو ہم ہیں ۔ ہمارے علم و فضل کا حال یہ ہے، جو شروع میں بیان کیا۔ دوسری طرف ہماری سفاکی کا عالم یہ ہے جو آپ کو غزہ ، یوکرین اور کشمیر میں نظر آتا ہے ۔بھارت اور اسرائیل ایک دن اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انہوں نے اپنی توانائی برباد کر ڈالی ۔ اسرائیل کا یہ خواب پاگل پن ہے کہ وہ مغربی کنارےاور غزہ کو ہضم کر جائے اور امن بھی قائم رہے۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
اقلیت کہاں مستقل طور پر اکثریت پر غالب رہ سکتی ہے ۔ کشمیر سمیت انسانوں کا کوئی تنازع ایسا نہیں کہ غیر جانبدار ماہرین کی کمیٹی جس کا حل نہ نکال سکے ۔ انسانی تعصب اور لالچ کا مگر کیا علاج ۔مجموعی انسانی دانش کا عالم یہ ہے کہ دنیا کی پانچ اقوام ویٹو کا حق رکھتی اور باقی 190 اقوام سے برتر قرا ردی گئی ہیں ۔اقوام متحدہ منافقت کا گڑھ ہے۔ جھوٹ انسان بے شرمی سے بولتاہے ۔وائیجر ون میں یہ ریکارڈ کر کےخلا میں بھیجا :سورج کے تیسرے سیارے میں قیام پذیر ہم انسان امن پسند مخلوق ہیں؛ حالانکہ انسانی تاریخ قتل و غارت سے بھرپور ہے۔اس میں امریکیوں کی آواز بھی شامل تھی ، جنہوں نے جاپان پہ دوایٹم بم گرائے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس میں جاپانیوں کی آواز بھی شامل تھی ۔
لطیفہ یہ ہے کہ جو مبلغ اپنے مریدوں کو توکل کا درس دیتے ہیں ،وہ خود ارب پتی ہیں۔ ہر انسان کے اندر ایک گھڑی نصب ہے ۔عمریں بڑھتی جا رہی ہیں ۔ آخری ٹِک کیساتھ ہی موت آلے گی اور یہ نہیں دیکھے گی کہ سامنے ایلون مسک ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ یا کوئی فقیر۔موت سامنے ہے لیکن خواہشات کی فراوانی ہے کہ اللہ کی پناہ۔
اللّٰہ بس باقی ہوس !