شنگھائی تعاون تنظیم کے گزشتہ اجلاس کے موقع پر چین نے جاپان کیخلاف دوسری جنگِ عظیم کی فتح کی 80ویں سالگرہ مناتے ہوئے اپنی بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس فوجی پریڈمیں 25سربراہان مملکت نے شرکت کی جن میں وزیراعظم شہباز شریف بھی شامل تھے۔مبصرین کا خیال ہے کہ اب ایس سی او اور برکس مل کر تیسری دنیا کے درمیان نئے اتحاد اور نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ایس سی او کے اس اجلاس نے امریکہ اور مغرب کی گھبراہٹ کو بہت واضح کر دیا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے عالمی تسلط کے نظام کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں پہلگام کے ساتھ ساتھ جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد حملوں اور خضدار میں ہونے والی دہشت گردی کی بھی مذمت کی گئی جو اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ تنظیم ہر قسم کی عسکریت پسندی کو کسی بھی شکل میں گوارہ نہیں کرے گی۔ ساتھ ہی چینی حکام نے پاکستان کی قومی آزادی، علاقائی سالمیت، خودمختاری کے تحفظ اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اس موقع پر ایسی سی او کیلئے ایک نئے بینک بنانے کی منظوری بھی دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ممبر ممالک کیلئے دو ارب آر ایم بی گرانٹس کے طور پر اور دس ارب آر ایم بی قرضے کے طور پر مختص کیے گئے۔
اس اجلاس کی ایک اہم پیش رفت ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا پچھلے سات سالوں میں چین کا پہلا دورہ ہے جس سے ہندوستان اور چین کے تعلقات میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے ۔ ٹرمپ کے تجارتی محصولات کے تنازعے نے ہندوستان کو چین کے ساتھ تعلقات ہموار کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ حالانکہ بھارت اس وقت چین کا ایک مضبوط مینوفیکچرنگ حریف بھی بناہوا ہے۔ بھارت اور چین کے تعلقات جتنے پیچیدہ آج ہیں شاید ہی کبھی رہے ہوں ۔ دونوں ممالک کی افواج ہمالیہ میں متنازع سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑی رہیںاور جو ن 2020ء میں ہاتھا پائی کے نتیجے میں کم از کم 24فوجی ہلاک ہوئے۔اگرچہ مودی کے ایس سی او کے دورے سے پہلے ہی بھارت اور چین کے درمیان براہ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے اور سرحد کے ساتھ تجارتی مراکز کھولنے پر بات چیت شروع ہو چکی تھی اور اگست کے مہینے میں ہی دونوں ممالک نے اپنے سرحدی تنازع کو حل کرنے کیلئے معاہدہ کر لیا ہے۔ ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر چینی اور ہندوستانی رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ ترقی میں شرکت دار ہیںاور ان کے درمیان حل طلب مسائل موجود ہیں لیکن چینی صدر نے ان مسائل کو ایک طرف رکھ کر بہتر تجارتی اور اقتصادی تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ ان کشیدہ تعلقات کے باوجود دونوں ممالک کی تجارت کا حجم 127بلین ڈالر ہے جس میں ہندوستان تقریبا100بلین ڈالر کی خسارے کی تجارت کر رہا ہے۔ مودی کی چین میں ہونیوالی ملاقات کسی مشترکہ معاہدے پر منتج تو نہیں ہوئی لیکن دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے پر زور دیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ترقی کو اپنی بیروزگاری اور نوجوانوں کی بڑی آبادی کے مسائل کے حل کے طور پر دیکھتا ہے۔لیکن ٹرمپ کے ٹیرف کی پابندیوں نے بھارت کو امریکی درآمدگان کیلئے کہیں کم پرکشش بنا دیا ہے اور امریکہ کمپنیاں ویتنام یا میکسیکو کا رخ کر سکتی ہیں جہاں ٹیرف قدرے کم ہے ۔یاد رہے کہ پچھلی دہائیوں میں ڈالر نے عالمی مالیات کی بنیاد کے طور پر حکمرانی کی مگر اس سال ڈالر کی قدر میں تقریبا10فیصد کمی آئی ہے، جو 1973ء کے بعد سب سے کمزور کارکردگی ہے۔ کچھ ماہرین کے نزدیک یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا وقت اور ڈالر کی قدر میںیہ کمی ایک اہم موڑ ہے ، جو ڈالر کے تسلط کے خاتمے کی ابتداہو سکتا ہے۔دنیا بھر کے مبصرین آج کل ایس سی او اور برکس کو امریکی عالمی تسلط کے مقابلے میں ایک فریق کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرا جس نے ڈالر کی حکمرانی کو قائم کر دیا لیکن اس تمام عرصے میں امریکی معیشت اور ڈالر کی بالادستی کی ایک بڑی وجہ امریکی اداروں کا اعلیٰ معیار،جمہوریت،احتساب اور املاک کے حقوق میں تسلسل تھا۔ مگر اب ٹرمپ کی پالیسیاں جو پہلے ادوار میں ناقابل تصور تھیں وہ ابھر کر سامنے آ رہی ہیں ۔فیڈ کے چیئرمین پر شرحِ سود کم کرنے اور بیوروآف لیبر اسٹیٹکس کے کمشنر کو اچانک برطرف کر دینے سے امریکی اداروں کی حرمت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ جس سے مستقبل میں امریکی اداروں کے معیار اور ڈالر کی بالادستی کے بارے میں خدشات کو تقویت ملی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ گزشتہ دو دہائیوں سے ڈالر کے عالمی ذخائر میں بھی بتدریج کمی ہو رہی ہے کیونکہ دوسری معیشتیں اس کا متبادل ڈھونڈ رہی ہیں۔ فی الحال ڈالر کی بالادستی اور امریکی عالمی تسلط اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک امریکہ اپنے اداروں اور اس کی اقدار کو محفوظ رکھتا ہے لیکن سیاسی ایجنڈے کو نافذ کرنے کی عجلت میں امریکی پالیسی ساز سنگین غلطیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ایس سی او اور برکس کے ممالک امریکہ کے اس عالمی تسلط کو کس طرح کمزور کرتے ہیں ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ایس سی او اور برکس بھی امریکی معاشی بالادستی کیلئے خطرہ ہو سکتے ہیں لیکن امریکی معیشت اور ڈالر کی بالادستی کو سب سے بڑا خطرہ ٹرمپ کی غلط پالیسیوں کی بدولت ہو سکتا ہے۔
اب جب کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کی بدولت چین اور بھارت اپنے سرحدی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں تو امید کی جانی چاہیے کہ ہندوستان ،پاکستان،ایران اور چین اس ابھرتی ہوئی علاقائی اور عالمی فورم کا بھروپور فائدہ اٹھا کر اپنے دیرپا مسائل کا حل کریں تاکہ یہ خطہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔