• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹرصاحب خاموش ہوئے ، اُنہوں نے کھڑکی سے کالے گہرے بادلوں کو دیکھااور بے چینی سے صوفے پر پہلو بدل کر اُداس لہجے میں کہا ’’ جب بھی میں اپنی سیاست کو دیکھو ں تو مجھے بی بی کی فلم "The War of the Roses" کے میاںبیوی یاد آجائیں اور پھر میں خوفزدہ ہو جاؤں‘‘۔
باہر مسلسل برستی بارش اور کمرے میں قصے کہانیوں کی جھڑی لگی ہوئی ، میں صوفہ نما کرسی پر تقریباً لیٹا ہوا جبکہ میرے سامنے بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکی کے ساتھ صوفے پر بیٹھے ملک کے نامور یورا لوجسٹ اور پبلک سیکٹر میں سوراخ کے ذریعے پتھری نکالنے اور تبدیلی ٔ گردہ کے بانی وہ ڈاکٹر خورشیدانور جو مجھے اس لئے بھی پسند کہ یہ پاکستانی پہلے اور پھرپٹھان اور پٹھان بھی نسوار اور غصے کے بغیر، جو مجھے اس لئے بھی اچھے لگیں کہ بیسوؤں سیاستدانوں کے ذاتی معالج ہونے کے ناطے انکی پٹاری مزے مزے کی داستانوں سے بھری ہوئی اور میری تمام تر کوششوں کے باوجود کبھی اس پٹاری کو ہوا تک نہ لگنے دینے والے ڈاکٹر صاحب آج حیرت انگیز طور پر خود ہی اس پٹاری کا منہ کھولے بیٹھے تھے ،اُنہوں نے بڑی نفاست سے میز پر پڑے پکوڑوں سے دو پکوڑے اُٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھے ، ان پر کیچ اپ ڈالا اور کھڑکی کے دھندلے شیشوں پر بارش کے بہتے پانی کو دیکھ کر بولے ضیاء دور کے وزیر داخلہ اسلم خٹک نے ایک دفعہ بتایا کہ ’’سانحۂ اوجڑی کیمپ کی دو رپورٹیں بنیں ، ایک اصلی اور ایک نقلی اور اگر اصلی رپورٹ سامنے آجاتی تو بڑے بڑے پھنس جاتے ‘‘ ، ایک مرتبہ خٹک صاحب کہنے لگے کہ ’’وفاقی دارالحکومت میں ایک مشہور خاتون کے گھر چھاپہ پڑنے کے بعد مجھے آئی بی کے سربراہ مسعود شریف نے اس گھر سے مستفید ہو چکے اپنے بڑو ں کی ایسی ایسی ویڈیوز دکھائیں کہ میں کئی دن تک شرمندہ پھرتا رہا‘‘۔
کانٹے کی مدد سے ایک پکوڑا منہ میں ڈال کر ڈاکٹر صاحب نے چند لمحوں کیلئے آنکھیں بند کیں اور پھر پکوڑا اچھی طرح چبا کر حلق سے اتارتے ہوئے وہ آنکھیں کھول کربولے ’’جب میں نے غلام اسحٰق خان کا پراسٹیٹ آپریشن کیا تو میری ان سے دوستی ہو گئی ،بظاہر بڑے خشک دکھائی دینے والے سابق صدر بڑے مزے کے انسان تھے ‘‘ ، ایک بار بتانے لگے ’’جب میں چوتھی جماعت میں تھا تو ہمارے اسکول میں انگریز کمشنر آیا،اس نے سب بچوں کو اکٹھا کرکے انگریزی میں بیسوؤں سوال کئے اور جب میں نے ہر سوال کا درست جواب دیا تو انگریز کمشنر نے انعام کے طو ر پرگُڑ کی بوری میرے گھر بھجوائی ‘‘، پھر جب میں چیئرمین واپڈا تھا تو ایک دفعہ اپنے گھر والوں کے ساتھ نتھیا گلی میں واک کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ واپڈا کا ایک اہلکار چھٹی والے دن سرکاری گاڑی پر اپنے بیوی بچوں کیساتھ گھوم رہا ہے ، ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اسکی گاڑی بند ہوگئی اور کافی کوششوں کے بعد بھی گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی تو اس نے مجھے آواز دے کر کہا ’’ ذرا گاڑی کو دھکا لگانا ‘‘ میں نے جا کر دھکا لگایا اور گاڑی اسٹارٹ ہو ئی تو شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ شخص مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بولا ’’ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں نے پہلے بھی آپکو کہیں دیکھا ہے ‘‘ میں نے جواب دیا ’’ آپ ٹھیک فرما رہے ہیں ، میرا نام غلام اسحٰق خان ہے ، میں چیئرمین واپڈا ہوں اور ایک ماہ پہلے معائنہ کرنے آپکے دفتر حاضر ہوا تھا ‘‘یہ سنتے ہی اسکی حالت غیر ہوگئی اور وہ معافیاں مانگنے لگا، میں نے کہا ’’ جاؤ مزے کرو مگرآئندہ کبھی چیئرمین واپڈا سے دھکے نہ لگوانا‘‘ ،پھرجب میں صدر بنا تو مجھے ملنے آئے میرے گاؤں کے لوگوں نے مختلف کاموں کی ایک لمبی چوڑی فہرست مجھے تھمادی تو اتنے ڈھیر سارے کام دیکھ کر میں نے کہا ’’ حضور میں صرف آپکے گاؤں کا ہی نہیں پورے ملک کا صدر ہوں‘‘ یہ سن کر وہ سب ایسے ناراض ہوئے کہ واپس جا کر اُنہوں نے میرے گاؤں کے باہر بورڈ لگوادیا کہ ’’ اس گاؤں میں غلام اسحٰق خان کا داخلہ ممنوع ہے ‘‘۔
ڈاکٹر خورشید انور نے پکوڑے کھا کر پلیٹ واپس میز پر رکھی ، کپ میں چائے ڈالی ، چینی ملائی اور کپ اُٹھاتے ہوئے وہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ باہر زو ر سے بادل گرجا ،وہ کھڑکی سے باہر دیکھ کر کھوئے کھوئے انداز میں بولے ’’ بے نظیر بھٹو بادلوں کے گرجنے اور آسمانی بجلی کے کڑکنے سے خوفزدہ ہو جاتیں، وہ اکثر ایسے موسم میں کمرہ بند ہوجاتیں ، اپنی آدھی ڈاکٹر خود ، کھانے پینے کی چوراور ایک مرتبہ باتوں باتوں میں کہہ دیا ’’ڈاکٹر مسلسل ذہنی دباؤ اور بے آرامی نے مجھے مریضہ بنا دیا ہے ‘‘، ایک شام کہا ’’ڈاکٹر بظاہرتو میں مسکراتی رہتی ہوں مگر اندر سے میں بہت دکھی ہوں، اگر مجھے دوبارہ چانس ملے تو میں سیاستدان کی بجائے استاد بننا چاہوں گی ‘‘ ، ایک بار رات گئے گھبرائے گھبرائے فون کیا کہ ’’پلیز اسی وقت میرے گھر آئیں ‘‘ ، افراتفری میں انکے گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ اپنے لاؤنج میں سخت گرمی میںکمبل لپیٹے پسینے سے شرابور بی بی بخار میں تپ رہی تھیں ، میں نے کمبل اتروا کر پانی کی پٹیاں کروانے کے بعد انہیں دوائیاں دیتے ہوئے کہا کہ’’ بی بی پلیز کچھ دنوں کیلئے مکمل آرام کرلیں ‘‘ ، دکھی ہوکر کہا ’’ ڈاکٹرکاش میں ایسا کر سکتی ‘‘ ، میں نے انہیں اُداس دیکھ کر موضوع بدلا، بی بی آصف زرداری کیسے ہیں (وہ ان دنوں جیل میں تھے ) مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولیں ’’ مزے میں ہے، جتنا پر وٹوکول اسے جیل میں مل رہاہے اتنا تو مجھے باہر بھی نہیں ملتا ‘‘۔
گو کہ ڈاکٹر خورشید انور نے اس بھیگی دوپہر کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے غلام اسحٰق خان ’’ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے ‘‘ ،انہوں نے بیٹے کی سگریٹ نوشی سے تنگ صدر فاروق لغاری کی پوری نہ ہو سکی 5خواہشیں بھی بتائیں اور گو کہ اس دن ڈاکٹر صاحب آف دی ریکارڈ بھی بہت بولے مگران کی جوبات میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی وہ یہ کہ ایک بار جب خراب ملکی صورتحال اور عوام کی بدحالی پر ڈاکٹر خورشید نے ترش لہجے میں ڈھیر ساری تلخ باتیں کردیں تو سب کچھ بڑے غور سے سنتی بے نظیربھٹو بولیں’’ ڈاکٹر کیا تم نے فلمThe War of the Roses دیکھی ہے ‘‘ وہ بولے ’’نہیں ‘‘ بی بی نے کہا’’ یہ فلم دیکھ لو پھر مجھ سے ملکی صورتحال پر بات کرنا ‘‘، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں یہ فلم دیکھ کر دو دن بعد جب میں طبی معائنے کیلئے بے نظیر بھٹو کے گھر گیا تو وہ مجھے دیکھتے ہی بولیں ’’ ڈاکٹر فلم دیکھ لی ‘‘ میں نے کہا ’’جی ‘‘ بی بی نے کہا ’’مجھے فلم کا خلاصہ سناؤ ‘‘ میں نے کہا’’ یہ اُن غریب میاں بیوی کی کہانی ہے جو دولت مند ہونے سے پہلے تو بہت محبت اور اتفاق سے رہتے ہیں مگر جب وہ امیر ہو جاتے ہیں تو دونوں اپنے محل نما گھر اورتمام دولت اکیلے ہڑپ کر جانے کے چکر میں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میںلگ جاتے ہیں اورپھر ایک دوسرے کو مارتے مارتے ایک دن یہ دونوں مرجاتے ہیں جبکہ ان کا محل نما گھر اورسب دولت وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے‘‘ یہ سن کر بی بی نے کہا ’’ ڈاکٹر یہی کہانی ہماری بھی ہے ، جب تک ہمارے پاس ملک نہیں تھا تب تک ہم متحد اور ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے لیکن جونہی ہمیں ملک ملا تو پھر اقتدار ،اختیار اور دولت کے لالچ میں ہم ایک دوسرے کے وجود کے ہی دشمن ہو گئے ، ڈاکٹر مجھے تو ڈر اس بات کا کہ خدانخواستہ ملک کاانجام بھی The War of the Roses جیسا نہ ہو‘‘۔ڈاکٹرصاحب خاموش ہوئے ، اُنہوں نے کھڑکی سے کالے گہرے بادلوں کو دیکھااور بے چینی سے صوفے پر پہلو بدل کر اُداس لہجے میں کہا ’’ جب بھی میں اپنی سیاست کو دیکھو ں تو مجھے بی بی کی فلم "The War of the Roses" یاد آجائےاور پھر میں خوفزدہ ہو جاؤں ‘‘ ۔
تازہ ترین