• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا پیارا ملک اس وقت شدید تباہی سے دوچار ہے۔سیلاب کے بعد دکھائی دینے والی تباہی کا موازنہ کسی ایسے ملک سے کیا جا سکتا ہے جو مسلسل بمباری اور ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے بعد تباہ ہو چکا ہو۔ اس وقت شہری اور دیہی علاقوں میں سینکڑوں گھر منہدم ہو چکے ہیں،جو گھر کھڑے ہیں ان کی بنیادوں میں پانی موجود ہے، سیلاب سے متاثرہ گھروں میں مٹی اور کیچڑ نے ایک الگ مصیبت کھڑی کی ہوئی ہے،برباد شدہ قیمتی کاغذات اور سامان دیکھ کر مالکان بےبسی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔کھڑی برباد فصلیں، بنجر ہوتی زمینیں، گرے ہوئے درخت،زرعی زمینوں میں کھڑا ہوا پانی، دریا کے کٹاؤ کا شکار کنارے، شہروں اور دیہات میں بنے ہوئے تالاب اور جوہڑ، ان جوہڑوں میں حشرات الارض کی نرسریاں،مچھروں کی یلغار،تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماریاں، ملیریا، ہیضہ ٹائیفائیڈ اور دیگر متعدی جلدی بیماریاں یہ سب سیلاب کی ہی باقیات ہیں۔ یہ سیلاب آیا تو چند دنوں کیلئےتھا لیکن زندگی بھر کے داغ دے کر چلا گیا ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جن کی عمر بھر کی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو گئی۔ چند دن یا چند ہفتوں کا سیلاب انفرادی اجتماعی اور معاشی طور پر ایسے کچوکے لگا چکا ہے جس کی فوری طور تلافی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔پاکستان میں سیلاب مستقل موضوع بن چکا ہے اور منیر نیازی کا ایک شعر

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

یہ شعر پاکستان کی موجودہ سیلابی صورتحال پر بھی صادق آتا ہے۔ 1947 ءسے ہم سیلابوں سے نبرد آزما ہیں۔ 1947 ءمیں جب پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا اس وقت بھی سیلابی بارشوں نے تباہی مچائی تھی۔ 1973 ءمیں تباہ کن سیلاب آیا۔ 1992 1993,ء، 1995 1998, 2003, 2007, ءاور پھر اس کے بعد 2025 ءتک ہر سال ہی یہ سیلاب پاکستان میں تباہی اور بربادی کی تاریخ رقم کرتا رہا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلا بڑا سیلاب تو 1950 میں آیا تھا اور اس کے بعد کم و بیش 30 سے زائد چھوٹے یا بڑے سیلاب آ چکے ہیں۔اس سال ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے پنجاب سے گزرنے والے تین دریاؤں راوی،ستلج اور چناب میں ایک ساتھ بڑے پیمانے پر سیلاب آیا ہے۔ ان دریاؤں کے پانیوں نے کم از کم 25 لاکھ افراد کو متاثر کیا پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے بیان کے مطابق 26 جون سے اگست کے اواخر تک ملک بھر میں سیلابی صورتحال سے مجموعی طور پر 835افراد جاں بحق ہوئے۔ بلا شبہ اعداد و شمار سے سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن سیلاب متاثرین پر جو گزرتی ہے وہ اعداد و شمار کے احاطے میں نہیں آسکتی۔ سیلاب زدہ علاقوں میں ہر فرد اپنی الگ کہانی لیے ہوئے ہے۔اچھی خاصی صاحب ثروت اور شریف فیملی کو اگر آپ کسی خیمہ بستی میں آنے کی دعوت دیں گے اس کے دل پر کیا گزرے گی، اپنے شاندار گھروں میں رہنے والے، کھلے آسمان کے نیچے سڑک پر پڑے ہوں گے ان کی کیفیت کیا ہوگی۔یہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے جسکی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔لیکن جب بھی ملک پر یہ آفت ٹوٹتی ہے تو ہمارے بادشاہ کشکول لے کر پوری دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اب دنیا بھی ہماری اپیلوں پر توجہ نہیں دیتی، عالمی میڈیا یہ راز فاش کر دیتا ہے اس امداد کا بیشتر حصہ کہاں پر صرف ہوا ہے۔ کمبل اور خیمے متاثرین تک پہنچنے کے بجائے بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں یا صاحب حیثیت افراد کو حرارت پہنچاتے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل ڈونرز نے شکایت کی کہ پاکستان کی حکومت انہیں اپنے منصوبوں کے متعلق مطمئن بھی نہیں کر سکی۔جو کام امداد کے بغیر کرنے والے ہیں ہم نے وہ بھی نہیں کیے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت ہمارے اپنے ہاتھوں برپا ہوئی ہے۔ٹمبر مافیا کے ہاتھوں حکمرانوں کی بے بسی، آبی ذخیروں کی تعمیر کے حوالے سے سنگین غفلت، آبی گزرگاہوں پر آبادیوں کا قیام، حفاظتی بندوں کی تعمیر میں ناقص سامان کا استعمال اور اس نوعیت کے کئی دیگر عوامل ایسے ہیں جو ہماری تباہی و بربادی کا سبب ہیں۔

سیلاب کی تباہی اپنی جگہ لیکن سیلاب متاثرین پر جس طرح سیاست کی جا رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ حکومتی وزراء قیمتی پوشاک اور بیش قیمت جوتے اور گلاسز پہن کر سیلاب متاثرین کی مدد تو کیا کریں گے وہ الٹا انہیں لیکچر دینے میں مصروف ہیں۔ ایک ڈبل روٹی دیکر فوٹو سیشن کرانے والے ان سنگ دل وزیروں کے دل میں خوف خدا ،اور شرم و حیا کی کوئی رمق باقی نہیں۔ اس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا طرز عمل لائق صد تحسین ہے کہ انہوں نے امدادی چیک تقسیم کرنے سے پہلے کیمرے بند کروا دیے۔

اب سیلاب کا پانی اتر چکا ہے،گھروں اور محلوں سے کیچڑ کی صفائی کا مرحلہ جاری ہے، بحالی کا کام ابھی کئی دنوں بعد شروع ہوگا۔ فصلوں کی تباہی کا نوحہ تو کئی سال جاری رہے گا۔پاکستان کی زراعت کو جو دھچکا لگا ہے اسکا اندازہ آنیوالے دنوں میں ہوشربا مہنگائی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔پھلوں سبزیوں اور اناج کی قیمتوں میں اضافہ سیلاب کے ہاتھوں زخم خوردہ قوم کے زخموں پر مزید نمک چھڑکے گا۔

اب وقت ہے کہ حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ بچوں کو گود میں اٹھا کر فوٹو سیشن کرنا یا ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ آپ اگلے سال کیلئے پیش بندی کریں اور طویل المدتی منصوبے تشکیل دیے جائیں۔ٹمبرمافیا کو لگام دی جائے،بھارت کے ساتھ بیٹھ کر اس سنگین مسئلے پر ٹھوس بات چیت کی جائے کیونکہ پاکستانی پنجاب کے ساتھ ساتھ بھارتی پنجاب اس سیلابی تباہی سے شدید متاثر ہوا ہے۔اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر موسمیاتی تبدیلی کےجن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی جائے۔

تازہ ترین