• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلابی ریلے اپنے پیچھے بے شمار داستانیں چھوڑ جاتے ہیں لوگوں کے گھر اجڑ جاتے ہیں ۔پنجاب میں سیلاب کے بعد سب سے اہم کام سیلاب متاثرین کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہے۔ سیلاب کے بعد جلدی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اورسیلاب متاثرین کو کھانے پینے کی اشیا خریدنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔تین دریائوں سےآنے والے سیلاب کے بارے میں رپورٹس بتا رہی ہیںکہ سیلاب کی روک تھام کےلیے ضلعی انتظامیہ نے بر وقت اقدامات نہیں کیے، پشتوں کو مضبوط نہیں کیا گیا اور نہ ہی مٹی ڈال کر حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے جس سے نقصانات میں اضافہ ہوا۔ سیاست دانوں کو بھی خانہ پری کرتے دیکھا گیا ،این ڈی ایم اے کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی، البتہ افواج پاکستان اور ریسکیو 1122نے سیلاب متاثرین کی بر وقت مدد کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تمام تر مصروفیات کم کر کے اب صرف سیلاب متاثرین کی خوراک ان کی رہائش اور سیلابی بیماریوں سے بچائو کیلئے اقدامات کرے۔ عوام اور غیر سرکاری تنظیموں کو دن رات ایک کرنا چاہیے سیلاب متاثرین کے اردگرد جو محفوظ دیہات ہیں ان کے باسی اگر سیلاب متاثرین کے خاندانوں کو اپنا لیں تو آسان طریقہ سے متاثرین کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے ۔سیلاب تو چلا گیا لیکن متاثرین کی زندگی کی جمع پونجی پانی کی نذر ہو گئی اب ان کو اپنے مکانات بنانے میں ایک عرصہ لگےگا۔ کسان جن کی فصلیں تباہ و برباد ہو گئیں وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں جن لوگوں کی سیلاب میں جانیں گئی ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ جن کے لاکھوں کے جانور پانی میں بہہ گئے ان کی کمر ٹو ٹ گئی ۔اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی یہ نا اہلی تھی کہ انہوں نے سیلاب کے آنے سے پہلے اقدامات نہیں کیے ۔ سیلاب سے بچے بھی متاثر ہوئے ہیں پنجاب میں بدترین سیلابی صورتحال کی وجہ سے 7 لاکھ سے زائد بچوں کا تعلیمی سلسلہ عارضی طور پر رک گیا ہے۔ سیلاب کے باعث لڑکوں کے ایک ہزار 400اور لڑکیوں کے ایک ہزار 500اسکولوں سمیت صوبہ کے 2 ہزار 900 سے زائد اسکولز بند کرنا پڑے ہیں ۔ ایک ہزار 150 سکولوں میں پانی آیا، 850 سے زائد کی عمارتیں جزوی متاثر ہوئیں جبکہ 45سکول مکمل طور پر گِر گئے۔ گجرات، حافظ آباد، مظفر گڑھ، نارووال اور ملتان کے اسکول سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ تعلیمی حرج والے 7 لاکھ بچوں کو پیف اور پیما کے اسکولوں میں بھیج کر تعلیمی خلا پورا کیا جائے گا، اضافی کلاسز لگا کر اور ہفتہ کے دن بھی بلا کر پڑھایا جائے گا جبکہ موبائل یونٹس بھی شروع کیے گئے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے 2024 میں اسکولوں کیلئے مختص 40ارب روپے کے فنڈز متاثرہ اسکولوں کی بحالی پر لگائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نارووال ضلع سیلاب سے بہت متاثر ہوا ہے ۔ کرتار پور دربار میں سات فٹ تک پانی کھڑا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے سکھ یاتریوں کو عبادات کرنے میں مشکلات آئیں ۔تاہم اب دربار صاحب کرتار پور سے سیلابی پانی نکال دیا گیا اور صفائی کا عمل مکمل ہو گیاہے۔ 42ایکڑ پر پھیلے دنیا کے سب سے بڑے گرودوارے سے پانی نکالنے اور صفائی میں 200 افراد پر مشتمل عملہ پاک فوج اور رینجرز کے جوانوں نے بھی حصہ لیا ۔ درشن ڈیوڑھی ۔دیوان استھان۔لنگر حال ۔میوزیم اور تالاب اور رہائشی یونٹس کو مکمل طور پر بحال کر دیا گیا۔ دربار صاحب کو تا حال عام یاتریوں کیلئے کھولا نہیں گیا اگلے چند روز میں امید ہے کہ عام یاتری بھی آنا شروع ہو جائیں گے تاہم ننکانہ صاحب سمیت دیگر علاقوں سے متعدد سکھ رہنما دربار صاحب کی صورتحال دیکھنے آ رہے ہیں ۔کرتار پور آنے والے سکھ رہنماؤں نے پانی کی نکاسی اور صفائی کے عمل کے مکمل ہونے پر حکومت پاکستان اور دیگر اداروں کوبھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ نارووال میں الخدمت ،اسرا فائونڈیشن اور المصطفیٰ بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں۔ دریائے راوی کے کنارے متاثرین سیلاب کیلئے اخوت اور فاؤنٹین ہاؤس نے مل کر میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیاگیا۔ جس میںدیگر امراض کے علاوہ ڈپریشن ' ،ذہنی دباؤ ' پریشانی، ' جذباتی صدمہ کے مریض سب سے زیادہ تھے ۔ سوشیالوجی '، سوشل ورک، ' سائیکالوجی کے یونیورسٹی اور کالج اساتذہ سے ڈاکٹر امجد ثاقب نے درخواست کی ہےکہ وہ اپنے طالب علموں کے ہمراہ ان علاقوں کا وزٹ کریں ۔ یہی وقت ہے سہارا بننے کا کیونکہ سیلاب متاثرین دکھ اور غموں کی وجہ سےذہنی امراض اور ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیلا ب کیوں نہیں روکے جا سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک قدرتی آفت ہے لیکن اس کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے بر وقت اقدامات کیے جا سکتے ہیں ۔پوری دنیا میں طوفان سیلاب آتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ یورپی اور ترقی یافتہ ممالک بر وقت اقدامات کرتے ہیں لیکن پاکستان صورتحال بر عکس ہے۔ملک میں ہر سال مون سون کے سبب بارشیں ہوتی ہیں جس سے پاکستان کے تمام صوبے متاثر ہوتے ہیں جب پاکستان میں سیلاب آتا ہے تو ڈیمز کی تعمیر کا واویلا شروع کر دیا جاتا ہے بھارت کا ڈیمز کا نظام بہت زبردست ہے جس کی وجہ سے وہ سیلاب پر کافی حد تک قابو پا لیتے ہیں پاکستان میں ڈیمز ضرور بننے چاہئیں اور حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی چاہئے۔ سیلاب سے جتنا نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کئی سالوں میں ہی ممکن ہے۔ضروری ہے کہ ہر فرد خاندان 'دیہات 'قصبہ اور شہر ان سیلاب متاثرین کی مدد کو آگے آئے تاکہ ان کی بحالی کا کام جلد از جلدمکمل ہو سکے۔

تازہ ترین