آپ نے اکثر سنا ہوگا ،یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے ، آزمائش کی جگہ۔یہ کیسا امتحان ہے۔ اس امتحان میں انسان کے ہاتھ کیا ہے ۔ اس امتحان کا آغاز تب ہوتاہے ، جب ایک روتا ہوا بچہ دنیا میںآتا ہے ۔ ایک محفوظ ٹھکانے سے چندھیا دینے والی روشنیوں کے سفر میں وہ خوفزدہ ہوجاتا ہے ۔ تقدیر سب سے پہلا مذاق یہ کرتی ہے کہ اسے اپنے والدین کا انتخاب کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتی ۔ وہ ایک ولی کے ہاں پید اہوگا یا بازارِ حسن میں ،بادشاہ کے ہاں یا جھوپنڑی میں ، ایک دانا کے ہاں یا نفسیاتی مریض کے گھر، انتخاب کی اسے اجازت نہیں ۔پیدائش اور موت ہی جب اسکے ہاتھ نہیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے ۔
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
اس دنیا میں جو بچہ بھی پیدا ہوتاہے ،اب اسے ستر اسی سال اس امتحان گاہ میں رلنا ہے ۔وہ امیر ہو یا غریب ، زندگی کبھی اسے ہنسائے گی ، کبھی رلائے گی ۔ زمین پہ رینگنے سے لے کر معاملات اپنے ہاتھ لینے تک ، دن گزرتے چلے جائیں گے ۔ وہ اپنے شباب کو پہنچے گا ۔ننانوے اعشاریہ نو فیصد کیسز میں ، وہ بڑی تیزی کے ساتھ اس زمین کے وسائل پہ قبضہ کرنے کی کوشش کرئیگا۔ اگر وہ ایک زمیندار ہے تو ہمسایے کی زمین خریدنے کی کوشش کرئیگا۔ اگر وہ بادشاہ ہے تو صدام حسین کی طرح دوسرے ممالک پہ چڑھ دوڑے گا ۔اگر وہ شاعر ہے تو اپنے حروف کی قوت سے باقی شاعروں کو پست و پامال کر ڈالنے کی آرزو کرے گا ۔ وہ اپنی قوم کو اس کی کھوئی ہوئی توقیر واپس دلانے کا وعدہ کر کے ہٹلر کی طرح برسر ِ اقتدار آئے گا اور پوری دنیا پہ چڑھ دوڑے گا۔
اگر وہ ٹرمپ کی طرح دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا بادشاہ ہے تو یوکرین اور پاکستان جیسے چھوٹے ممالک کی معدنیات ہتھیائے گا۔ اگر وہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ہے تو وہ اپنی تحریر اور طنز کی کاٹ سے دوسرے لکھاریوں کو کاٹ ڈالنے ، انہیں منافق ثابت کرنے کی کوشش کرئیگا ۔اگر و ہ دنیا کا سب سے امیر شخص ہے تو وہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر کو اپنے اشاروں پر نچا کر اپنی انا کو تسکین پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ وہ زمین سےاٹھ کر مریخ کو مسخر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر وہ کامیاب کاروباری ہے تو اسمبلی میں بیٹھنے کا خواب دیکھے گا۔ وہ پرویز مشرف کی طرح مکے لہرائے گا ۔ہر شخص اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے اندر ایک ٹائم بم نصب ہے ۔
یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس، ٹس سے مس اور بس
حیرت ہے کہ اس جسم کے ساتھ انسان تکبر کا شکار ہوتاہے ۔ دنیا کا ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ جو کچھ درپیش آرہا ہے ، وہ کسی اور کے ساتھ پیش نہ آیا ہوگا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جب سے یہ دنیا بنی ہے ، ایک ہی کہانی دہرائی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی حریفوں کو مار ڈالنے کی جو جنگ جاری ہے ، یہ بنگلہ دیش سے لے کر جرمنی تک ، ہر جگہ دہرائی جا چکی ۔ ساس بہو کی لڑائی صرف پاکستان میں نہیں ہوتی ۔ برطانیہ کے شاہی خاندان میں یہ جھگڑے عروج پر رہے۔ مئی 2018ء میں شہزادہ ہیری کی میگھن مرکل سے شادی کے بعد شاہی خاندان میں ویسا ہی فساد برپا ہونے لگا، جیسے چیچوں کی ملیاں میں ہوتاہے۔
یہ دنیا ، جس میں انسان کی، اسکی اولاد اور پیاروں کی موت سو فیصد یقینی ہے ، کیسے ہم موت کے خوف سے آزاد ہو کر اس طرح مال اکھٹا کرنے میں لگے رہتے ہیں ؟ ۔ ہر مرنے والے پہ ہمیں ترس آتا ہے ۔ آرزوئوں میں کثرت میں ڈوبا ہوا انسانی ذہن یہ بات مگر حقیقی طور پر کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ دوسروں کی طرح اسے بھی مرنا ہے ۔ انسانی دماغ میں اپنی موت کا کوئی ڈیٹا نہیں ۔ بظاہر ہر انسان مانتا ہے کہ اسے بھی مرنا ہے لیکن علمی طور پر انسانی ذہن کو اپنی موت کا کبھی یقین نہیں آتاورنہ وہ کبھی اس طرح کی زندگی نہ گزارے ۔ انجام سنجے کپور جیسا ہے ، جس نے سب مال اسباب چھوڑ کر موت کی آغوش میں جاسونا ہے اور جسکی موت کے بعدجائیداد کی تقسیم پہ جھگڑے اور مقدمے بازی ہونی ہے ۔
لطیفہ یہ ہے کہ اس دنیا میں مرزا اسد اللہ غالبؔ جیسا عبقری مالی مشکلات کا شکار نظر آتا ہے ۔ دنیا کے ذہین ترین افراد ذہنی پریشانی اور جسمانی بیماریوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں ۔ سٹیفن ہاکنگ جیسا دماغ قوت ِ گویائی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ دوسری طرف اسی دنیا میں عقل سے محروم افراد پوری زندگی عیاشی کرتے نظر آتے ہیں ۔
انسانی ذہن پہ خدا نے پردے ڈال دیے ہیں ورنہ وہ موت کے خوف سے نکل کر کبھی کچھ کرہی نہ پاتا۔ انسان کا ذہن ننانوے اعشاریہ نو فیصد وقت دولت یا عورت کی خواہش تلے دبا کراہ رہا ہوتا ہے ۔ ایک لمحہ بھی انسانی دماغ خواہش اور خوف سے آزاد نہیں ۔ دنیا کے بے شمار لوگ مستقل کسی نہ کسی خوف کا شکار ہو کر Obsessedزندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اس ذہنی مریض کی طرح ، جومسلسل اپنا ہاتھ دھوتا رہے اور آخر اپنی جلد پھاڑ لے ۔
اگر شاہی خاندان سے لے کر غریب گھرانوں اور محلات سے لیکر جھونپڑیوں ، جرمنی ، جاپان اور امریکہ سے لیکر بیچارے غریب پاکستان تک میں ایک ہی کھیل بار بار دہرایا جا رہا ہے تو آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے ۔ اسکے سوا کچھ بھی نہیں کہ آدم علیہ السلام کے ہر بیٹے کوکچھ مخصوص حالات (Stimulus)سے گزارا جا رہا ہے ۔ان حالات میں اس کا طرزِ عمل دیکھ کر اسے نمبرز دیے جاتے ہیں ۔ انسان مگر یہ سمجھنے لگتاہے کہ اس دنیا کو وہ چلا رہا ہے ۔ اس امتحان گاہ میں کسی کی نقل کرنے کا فائدہ اس لیے نہیں کہ ہر شخص کا سوالیہ پرچہ مختلف ہے ۔انسان اپنی زندگی پہ غور کرتا رہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کہانی لکھنے والا کیسی کیسی کہانیاں لکھ رہا ہے ۔