• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے بالخصوص مغربی دنیا ٹیکنالوجی اور معیشت کے دہرے دباؤ کے اندر تیز ترین تبدیلیوں سے دوچار ہے۔ ایک زمانے میں یورپ اور امریکہ میں افرادی قوت کی ضرورت تھی اب تقریباً تمام ممالک معاشی دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے امیگریشن کی پالیسیاں سخت سے سخت تر کررہے ہیں ۔اوورسیز کی ان ممالک میں آباد کاری نے ان کو خوشحال اور کامیاب تو بنایا ہے مگر یہی خوشحالی اور کامیابی مقامی نسل پرستوں میں حسد اور نفرت کا سبب بن رہی ہے ۔چند روز پہلے لندن میں قریباً ڈیڑھ لاکھ گوروں نے احتجاجی جلوس نکالا جس میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے اثرورسوخ اور مقامی ثقافت کو بدلنے پر ناراضی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ انکو یہاں سے نکالا جائے۔ بظاہر یہ ڈیڑھ لاکھ لوگ اکثریتی رائے کے نمائندے نہیں بلکہ ایک شدت پسند اقلیتی گروہ کے نمائندے ہیں اور اس احتجاج سے اوور سیز کو کوئی فوری خطرہ نہیں۔ مگر یہ احتجاج خطرے کی گھنٹی ضرور ہے کہ اس سے اوورسیز اور مقامی لوگوں کے درمیان ایک وسیع خلااور گہرے تضاد کی نشاندہی ہوتی ہے ۔امریکہ میں بھی اس طرح کے مطالبے سامنے آرہے ہیں جس میں اوورسیز اور امیگرینٹس کے خلاف حسد اور عناد کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس نئے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے دومتضاد طریقے ہیں ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان شدت پسندوں اور نسل پرستوں کے ساتھ مقابلے اور لڑائی پر اترا جائے جبکہ دوسرا اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھایا جائے۔امیگرینٹس Ghetto( محصور محلوں) یا کلسٹر(جھنڈ میں رہائش) سے نکل کر مقامی معاشرے سے بھی ربط ضبط رکھیں ۔یورپ میں جہاں بھی مسلم اور پاکستانی زیادہ تعداد میں آباد ہیں وہ اپنی ہی دکانوں، اپنے ہی لوگوں سے میل جول اور اپنے ہی مسائل پر گفتگو میں خوش ہیں ،وہ رہتے یورپ میں ہیں مگر ان کا یورپ اپنی ہی نسل اور قوم کے گرد گھومتا ہے، ظاہر ہے اس سے مقامی لوگوں اور ان میں خلا بڑھتا جاتا ہے۔ اس رویے سے اوورسیز کی تہذیب وثقافت اور مذہب کا تو کسی حد تک تحفظ بچاؤ اور تسلسل رہتا ہے مگر محصور محلے یا جھنڈ میں رہائش اختیار کرنے والے کبھی مین اسٹریم کا حصہ نہیں بن پاتے۔مسلم اوورسیز مغربی دنیا میں ہر جگہ اقلیت میں ہیں، وہاں کی عیسائی آبادی کی اکثریت نے انہیں قبول بھی کیا ہوا ہے اور انہیں برابر کے انسانی حقوق بھی دے رکھے ہیں ۔مسلم دنیا کو اس سبق کو سیکھ کر اپنے اپنے ملک کی اقلیتوں کو برابر کے حقوق دینے چاہئیں۔ عمومی اعتراض جو نسل پرستوں کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ پاکستانی میئرز، کونسلر اور ایم پیز کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کی مساجد ہزاروں میں ہیں اور وہ برطانوی مذہب وثقافت کو تباہ کررہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی اور مسلم اوورسیز کو اسلام اور پاکستان کا محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے اکثریتی آبادی کا دل جیتنے کا واحد طریقہ مسلسل محبت ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جدید اورقدیم دنیا کی ترقی میں اوورسیز اور سیاحوں نے سب سے زیادہ کردار ادا کیاہے۔ نوع انسانی ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ کرہی آگے بڑھی، یونان نے اگر فلسفہ اور علم کی بنیاد رکھی تو روم نے اسکی آبیاری کی اور اسے آگے بڑھایا۔ مسلم تہذیب نے اپنے عروج میں الجبرا اور میڈیکل سائنس پر کام کیا۔ نشاۃ ثانیہ اور انقلاب فرانس نے جدید سائنسی اور سیاسی دور کو جنم دیا۔ اہل ہندوستان سے دنیا نے ریاضی اور صفر کا ہندسہ لیا تو اہل عرب سے شاعری اور تہذیب کی روایتوں نے فروغ پایا۔ آج کی دنیا میں مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی کا منبع ہےتو مشرق انسانی اخلاقیات، خاندانی روایات اور حساسیت کا علمبردارہے۔ گویا تہذیبیں اور ملک ایک دوسرے سے نہ سیکھتے تو کبھی آج کی جدید دنیا نہ بن پاتے۔ حالیہ برسوں میں شمالی کوریا کے اوورسیز نے مغربی دنیا کے بائیکاٹ کے باوجود جاپان سے گولڈن رنگٹ بھیج کر اسے معاشی طور پر کھڑا رکھا ۔اوورسیز چائینز نے آج کے جدید چین کی بنیاد رکھی ہے مغربی دنیا کی ہر ٹیکنالوجی کو اوورسیز چینیوں نے جائز اور نہ جائز طریقے سے قربانیاں دیکر چین پہنچایا اور اب چین کی صورتحال یہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی میں مغرب کا ہم پلہ بن گیا ہے۔ مسلم دنیا کو اسوقت علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر زور دینے کی ضرورت ہے ان تینوں شعبوں کی ترقی اور فروغ کے لیے سب سے اہم کردار اوورسیز ہی ادا کرسکتے ہیں۔ چین اور امریکہ کا اس وقت دوشعبوں میں سخت مقابلہ جاری ہے ایک تو مصنوعی ذہانت اور دوسرا نایاب معدنیات کا حصول۔ مصنوعی ذہانت کی مہارت کو استعمال کرنے کیلئے ڈیٹا سنٹرز کی ضرورت ہوتی ہے اور ڈیٹا سنٹرز کو چلانے کے لئے وافر بجلی وتوانائی درکار ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے پاس اضافی توانائی کا وافر ذخیرہ ہے لیکن امریکہ اس شعبے میں تھوڑا پیچھے ہے اسے دیر سے اس کا احساس ہوا ہے اور اب وہ چین سے مقابلے کیلئے سر توڑ کوششیں کررہا ہے۔ امریکہ کو چین پر یہ برتری حاصل ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے قابل ترین افراد کو پر کشش مراعات دیکر انکی خدمات، ذہانت اور تجربہ استعمال کرتا ہے جبکہ چین اس معاملے میں کافی پیچھے ہے۔دوسری طرف نایاب معدنیات کے شعبے میں بھی چین نے بہت پہلے سے منصوبہ بندی کرلی تھی صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کو شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ وہ نایاب معدنیات کے شعبے میں پیچھے ہے۔ اوورسیز اپنے اپنے آبائی ممالک میں ان معدنیات کی تلاش اور حصول کے حوالے سے سرمایہ کاری کرکے اپنے آبائی ملک اور مغربی دنیا دونوں کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔جوں جوں دنیا جدید ہورہی ہے اتنی ہی پیچیدہ بھی ہوتی جارہی ہے۔ اوورسیز تو ویسے بھی نفسیاتی طور پر بٹے ہوئے ہوتے ہیں ایک طرف ان کی اپنی تہذیب اور دوسری طرف میزبان ملک کے رسم و رواج اور قوانین۔ انکے اندر زندگی بھر دولہروں کا ٹکراؤ جاری رہتا ہے۔ کسی بھی اوورسیز کو اپنے آبائی ملک واپس بھیجا جانا ایک جبر ہوتا ہے مگر دنیا میں کئی بار یہ جبر ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے مگر اس جبر کا تدارک اور توڑ ایک ہی طریقے سے ممکن ہے کہ ٹکراؤ کی بجائےصلح صفائی،تضادات کی بجائے مشترکات، سخت بیانات کی بجائے مذاکرات اور غصے کی بجائے حلم کو اختیارکیاجائے۔ دنیا کو مختلف حصوں میں بانٹنا ممکن نہیں یہ دنیا مل جل کر ہی آگے چل سکتی ہے ۔کئی ملکوں نے آہنی دیواریں بنائیں بالآخروہ گر گئیں، کئی ایک نےثقافتی بند باندھے، کئی نے مذہبی غلاف بنائے، انتہا پسند اور اور فاشسٹ نسل پرست حکومتیں بنائیں مگر یہ سب چل نہ سکا ۔تہذیبوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہے اوورسیز نے مقامی لوگوں سے ربط رکھنا ہے اور مقامیوں نے مہمانوں کے لئے دل کھلا کرنا ہے یہی تہذیب اور نوع انسانی کی بقا کا راستہ ہے باقی تمام راستے تباہی کے ہیں جو اکثریت ہمیشہ رد کرتی رہی ہے۔

تازہ ترین