• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی رہنماؤں نے بجا طور پر یہ کہا تھا کہ بھارت کے خلاف جنگ میں تاریخی فتح اور ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کا خطے اور عالمی سطح پر کردار نہایت اہم ہوگیاہے اور پاکستان کو اپنا یہ کردار احسن طریقے سے نبھانا چاہئے۔ چنانچہ پاکستان اپنا وہ کردار ادا کررہا ہے جسکی اس وقت جنوبی ایشیا ،مشرق وسطیٰ کے تبدیل ہوتے حالات میں ضرورت بڑھ چکی ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان بھی اس سوچ اور فکر سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں کہ امت مسلمہ کی معاشی ترقی و دفاع کو مضبوط بنائے بغیر دنیا میںپائیدارامن کی کوئی صورت ممکن نہیں۔عرب ممالک کے وسائل،پاکستان کی پیشہ ورانہ دفاعی مہارت اور چین کی دفاعی ٹیکنالوجی کے ساتھ مضبوط معیشت کا سہارا پاک سعودیہ تاریخی اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ اس سوچ کو ایک ایسی مضبوط بنیاد فراہم کرتاہے جس پر عمل درآمد سے ہی دنیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے۔یہ تاریخی معاہدہ کوئی ایک دو واقعات کا مرہون منت نہیںبلکہ پاک سعودیہ آٹھ دہائیوں پر محیط گہرے مذہبی،برادرانہ اور ہرآزمائش میں آزمائے ہوئے تعلقات کا نتیجہ ہے۔ دنیا کی ابھرتی معاشی و دفاعی طاقت چین نے حالیہ برسوں میں مسلم ممالک کو معاشی و دفاعی طور پر قریب لانے کی جو کوششیںکی ہیں وہ بھی قابل ستائش ہیں۔ پاک سعودی شراکت داری معاہدے کی روح کو جانچنےکیلئے ضروری ہے کہ ہم پس پردہ محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیں کہ سعودی عرب کے ساتھ چین کے تعلقات گزشتہ دو دہائیوں میں تیزی سے پروان چڑھے ہیں۔ آج یہ تعلقات صرف تیل اور تجارت تک محدود نہیں بلکہ دفاع ،ٹیکنالوجی ، سرمایہ کاری اور عالمی سیاست میں بھی اپنا دائرہ بڑھا چکے ہیں۔ 2016ءمیں چین کے صدرشی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر دونوں ملکوں نے اپنے تعلقات کو ـ’اسٹرٹیجک شراکت داری ‘کا درجہ دیا ۔ آج چین تیل سے ہٹ کر نئے میدانوں میں سعودی عرب کا سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ سعودی عرب اپنے خام مال کی بڑی مقدار چین کو فروخت کرتا ہے جبکہ چین سعودی عرب کو جدید ترین مشینری ‘ الیکٹرانکس ‘ موبائل فونز‘ تعمیرات سمیت مختلف صنعتی مصنوعات فراہم کرتا ہے۔ چین اب سعودی عرب کے ویژن 2030ءکے منصوبوں کا براہ راست شراکت دار بھی ہے۔ چینی کمپنیاں سعودی عرب میں قابل تجدید توانائی منصوبوں اور ہائی ٹیک زونز میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ ہواوے جیسی کمپنیاں سعودی عرب کے ڈیجیٹل ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ اسے اسرائیل کی جاسوس ٹیکنالوجی سے بھی محفوظ کررہی ہیں۔ اسی لئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پاک سعودی اسٹرٹیجک شراکت داری معاہدے سے قبل اور بعد میں قطر پر حملے کا جواز پاکستان میں اسامہ بن لادن آپریشن کے حوالے سے جوڑ کر اسرائیل مخالف ممالک کی اہم ترین شخصیات کو یہ پیغام دیا ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں پکڑا موبائل فون دراصل اسرائیل کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے یعنی وہ دھمکی دے رہے ہیںکہ ان کے دماغی خلل کا کوئی بھی ، کسی بھی وقت نشانہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران فرانس کے رافیل طیاروں کی تباہی‘ اسرائیل کے ڈرونز و دفاعی ٹیکنالوجی کی ناکامی‘ ایران کی مرکزی فوجی قیادت کی شہادت کے باوجود رجیم چینج میں ناکامی اور اب قطر میں حماس کی مذاکراتی ٹیم کو نشانہ بنانے کی دانستہ کوشش‘ یہ وہ محرکات ہیں جو عرب اور خلیجی ممالک کو چین اور پاکستان کے ساتھ مضبوط ‘ دفاعی اور معاشی تعلقات پر مائل کر رہےہیں۔ دوسری طرف یورپ میںاسرائیل کی غزہ میںبربریت کیخلاف عوامی نفرت احتجاجی مظاہروں کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ یورپی ممالک بشمول برطانیہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل چاہتے ہیں جبکہ ٹرمپ اس نظریئے اور سوچ کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی تمام قراردادوں کو امریکہ مسلسل ویٹو کررہا ہے۔ تیزی سے سنگین ہوتے عالمی حالات دنیا کو ایک اور عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں ایسے میں نئی صف بندی کے طور پر چین‘ پاکستان‘ سعودی عرب کی باہمی شراکت داریاں خطے کے ممالک بنگلہ دیش‘ نیپال‘سری لنکا‘ مالدیب‘ بھوٹان ‘ ایران کو معاشی و دفاعی تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔ توقع ہے کہ روس، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ قطر ‘ متحدہ عرب امارات سمیت دیگرعرب و خلیجی ممالک ان شراکت داریوں کاحصہ بن کر جنگ یا امن دونوں حالتوں میں ایک دوسرے کیساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوں گے۔ رہی یہ بات کہ کیا امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت گٹھ جوڑ اس بڑی غیرمتوقع تبدیلی کو باآسانی ہضم کرسکے گا؟ پاک سعودیہ معاہدے پر بھارت کا پہلا ردعمل یہ آیا ہے کہ ہم اس معاہدے کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ نیتن یاہو مسلم ممالک کے خلاف کھلی جارحیت جاری رکھنے اور گریٹر اسرائیل منصوبے کو حتمی انجام تک پہنچانے کا اپنا جارحانہ اور جاہلانہ مو قف بار بار دہرا رہے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے فی الوقت اس معاہدے پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا مگر صدر ٹرمپ نے افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایئربیس کو واپس لینے کی کوشش کررہے ہیںکیونکہ انہیں (افغان طالبان کو) ہم سے ’’چیزیں‘‘ درکار ہیں گویا کہ افغانی و پاکستانی طالبان والی بلی بھی تھیلے سے باہر آچکی ہے کہ وہ کس کی پراکسیزہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ بھارت پر جو غیرمتوقع شدید دباؤ بڑھا رہے ہیں اسکے پیچھے بھی ایک کہانی ہے کہ امریکہ خطے کا براہ راست کنٹرول حاصل کرنےکیلئے بھارت سے کچھ بڑی چیز مانگ رہا ہے ممکنہ طور پر فوجی اڈے۔

تازہ ترین