• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا کا بڑھتا اثر و نفوذ: ریاست اور صارفین کی ذمے داریاں

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز قرآن و سنت کی روشنی میں استعمال ہوں، تو امت مسلمہ کے عروج کا زینہ بن سکتے ہیں
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز قرآن و سنت کی روشنی میں استعمال ہوں، تو امت مسلمہ کے عروج کا زینہ بن سکتے ہیں

عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کی بہ دولت دُنیا بَھر میں پھیلے انسانوں کا ایک دوسرے سے رابطہ نہایت سہل ہوچُکا ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال سے کسی بھی قسم کا تحریری، بصری اور سمعی مواد ایک لمحے میں دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ نیز، ان تیز ترین ذرائع ابلاغ نے افکار، عقائد اور رویّوں کی تشکیلِ نو بھی شروع کردی ہے، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سوشل میڈیا کی یہ غیر معمولی طاقت ہمیں خیر کی طرف لے کے جا رہی ہے یا شر کی جانب؟ 

زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح اسلامی تعلیمات ہمیں اس میدان میں بھی واضح رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ قرآنِ مجید کا فرمان ہے۔ ترجمہ: ’’اگر کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اُس کی تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ (سورۃ الحجرات) واضح رہے، یہ آیت محض آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل کا حُکم نہیں، بلکہ آج کی ہر وائرل پوسٹ، فیک نیوز اور پروپیگنڈا ویڈیو سے متعلق ابدی ہدایت بھی ہے۔ دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یا تو بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دَور میں ہمیں لغویات اور وقت کے زیاں سے بچنے کے لیے قرآن و احادیث کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ اس ضمن میں قرآنِ پاک کی یہ آیت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ترجمہ:’’اور وہی بندے رحمٰن کے ہیں، جو لغویات سے منہ پھیر لیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الفرقان، 72) اِسی طرح جدید ذرائع ابلاغ استعمال کرتے وقت ہمیں اس آیت کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ ’’اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟‘‘ (سورۃ الحجرات)

سوشل میڈیا کے مفید اور مثبت استعمال کے ضمن میں سیرتِ طیبہؐ بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’سچّائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنّت کی طرف۔ اور جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنّم کی طرف۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم) اِسی طرح مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجودگی کے دوران ہمیں ہمیشہ حُسنِ اخلاق کا مظاہرہ اور دیگر صارفین کی دل آزاری سے گریز کرنا چاہیے۔ 

آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جس کے اخلاق سب سے اچّھے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) اِسی طرح ایک موقعے پر حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“ (صحیح بخاری و مسلم) یاد رہے، نبیٔ اکرم ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہر ذریعۂ ابلاغ کو دعوتِ حق اور اخلاقی تربیت کے لیے استعمال کیا۔ آپ ﷺ کی جانب سے مختلف سربراہانِ ریاست کو بھیجے گئے خطوط اور صحابہ کرامؓ کے سامنے پیش کیے گئے خطبات حکمت، دلیل اور اخلاقیات کی روشنی سے معمور ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین کی تربیت، ریاست کی ذمّے داریاں

ریاستِ مدینہ کا ماڈل اس اَمر کی بہترین مثال ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سوشل میڈیا موجودہ دَور کی سب سے طاقت وَر ابلاغی قُوّت ہے، جو نوجوان نسل کی سوچ، کردار، اخلاق اور سماجی رویّوں کو براہِ راست متاثر کررہی ہے۔ 

سو، یہ ریاست کی ذمّے داری ہے کہ وہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں ایک ایسی پالیسی مرتّب کرے کہ جو سوشل میڈیا کو تعلیم و تربیت کے مثبت ذریعے میں ڈھالے اور اس کے منفی اثرات محدود کرے۔ اِس ضمن میں ذیل میں چند تجاویز پیش کی جارہی ہے۔

1۔ ضابطۂ اخلاق کی تیاری: سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میں ڈیجیٹل مواد سے متعلق ضابطۂ اخلاق تشکیل دیا جائے، جو جُھوٹ، فحاشی اور نفرت پرمبنی سرگرمیوں کا تدارک کرے۔ علاوہ ازیں، جعلی خبروں اور سائبر بُلنگ کے خلاف فوری ایکشن کا میکنزم بھی تشکیل دیا جائے۔

2۔ تعلیمی نصاب میں شمولیت: اسکولز اور کالجز کے تعلیمی نصاب میں نبیٔ اکرمﷺ کے ابلاغی اسلوب (صِدق، امانت، حِلم اور حکمت) کو بہ طور ماڈل شامل کیا جائے۔

3۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی نگرانی اور رہنمائی: ریاستی سطح پر ’’اسلامک ایجوکیشنل سوشل میڈیا چینلز‘‘ کا آغاز کیا جائے اور ان پر باقاعدگی سے سیرت کورسز، اخلاقی ویڈیوز اور اسلامی محقّقین کے لیکچرز اپ لوڈ کیے جائیں۔ والدین کی رہنمائی اور تربیت کے لیے ٹریننگ پروگرامز شروع کیے جائیں، تاکہ وہ بچّوں کے رویّوں اور طرزِعمل کو سمجھ سکیں۔

نوجوانوں کو اسلامی اقدار پر مبنی ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے کی تربیت فراہم کی جائے۔ حمد و نعت، اسلامی ڈراموں، کارٹونز اورانفوگرافکس کے مقابلے منعقد کروائے جائیں اور مثبت و مفید مواد شیئرکرنے والے نوجوانوں کو انعامات سے نوازا جائے، جب کہ سوشل میڈیا کا منفی استعمال روکنے کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنائے جائیں۔

4۔ تحقیق اور آگہی مہمّات: سوشل میڈیا کے اثرات پر سالانہ ریسرچ رپورٹس جاری کی جائیں۔ جامعات میں ’’سیرت النبی ﷺ اور ڈیجیٹل میڈیا ریسرچ چیئر‘‘ قائم کی جائے۔ سوشل میڈیا کو علم اور خدمتِ انسانیت کا ذریعہ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر آگہی مہمّات شروع کی جائیں۔ 

علاوہ ازیں، رمضان المبارک اور دیگر خاص مواقع پر ’’ڈیجیٹل اعتکاف پروگرامز‘‘ کا آغاز کیا جائے، جن میں نوجوانوں کے لیے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مختلف اسلامی تعلیمی سرگرمیاں شامل ہوں۔

5۔ ڈیجیٹل ڈپلومیسی: ریاستِ پاکستان دیگر اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ایک ’’سوشل میڈیا چارٹر‘‘ تشکیل دے، تاکہ ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے ذریعے دُنیا بَھر میں اُمّتِ مسلمہ کے حقیقی اور مثبت بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔

6۔ سوشل میڈیا پالیسی کاؤنسل :وزارتِ تعلیم، وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی مشترکہ کمیٹی یا سوشل میڈیا پالیسی کاؤنسل تشکیل دی جائے، جس میں علماء، ماہرینِ تعلیم، آئی ٹی اسپیشلسٹس، والدین اور نوجوانوں کےنمائندے شامل ہوں۔ 

اس پالیسی کو ہر سال نئی ریسرچ کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے اور اس کےاثرات کا جائزہ بھی لیا جائے۔ نیز، ہر تعلیمی ادارے میں ’’ڈیجیٹل اخلاقیات کلب‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے۔

مذکورہ بالا اقدامات کے متوقع نتائج میں سوشل میڈیا پر اخلاقی وعلمی مواد کی فراہمی میں اضافہ، نوجوانوں کے کردار اور سوچ میں مثبت تبدیلی، تعلیمی و تحقیقی میدان میں اسلامی اقدار پر مبنی ڈیجیٹل انقلاب اور عالمی سطح پر اسلام کا حقیقی چہرہ اُجاگر ہونا شامل ہے۔ 

یاد رہے، ہمیں سیرت النبی ﷺ سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ ہر نئی ایجاد اور ذریعۂ ابلاغ کو خیر، فلاح اور انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا ایک طاقت ہے اور طاقت ہمیشہ ذمّے داری کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ ریاست کی ذمّے داری ہے کہ وہ نوجوان نسل کو ایسی تعلیم و تربیت فراہم کرے کہ جو انہیں اس طاقت کو بھلائی، ترقّی اور خدمتِ انسانیت کے لیے بروئے کار لانے میں مدد دے۔ یہی وہ راستہ ہے، جو سیرت النبی ﷺ ہمیں دِکھاتی ہے۔

دوسری جانب ہمیں اپنے گھروں میں بھی ’’اسکرین ٹائم‘‘ کو محدود کرنا ہوگا، تاکہ اہلِ خانہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں سب سے بہترین وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔‘‘ یعنی اچّھائی یہ نہیں کہ ہم دُنیا کے ہزاروں لوگوں سے جُڑے ہوں، بلکہ بھلائی یہ ہے کہ ہم اپنے اہلِ خانہ کو وقت دیں۔ 

اِس ضمن میں والدین کو چاہیے کہ وہ روزانہ اپنے بچّوں کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکا لیں، چاہے وہ 15 منٹ ہی کیوں نہ ہو۔ بچّوں کے لیے مختص وقت کے دوران والدین موبائل فون ایک طرف رکھ دیں۔ بچّوں کے ساتھ بات چیت کریں، اُنہیں کہانیاں سُنائیں، اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلیں اور اسکول کا سبق یاد کرنے میں اُن کی مدد کریں۔ اِسی طرح بچّوں کو بھی چاہیے کہ وہ فیملی ٹائم کے دوران اسکریننگ ترک کر کے والدین کی جانب متوجّہ ہوجائیں۔ اُنہیں اپنے دن بَھرکےمعمولات کی رُوداد سُنائیں اور ان کے ساتھ ہنسیں، کھیلیں۔

علاوہ ازیں، ہم اپنے طور پر سوشل میڈیا کو آن لائن کورسزکرنے، لیکچرز سُننے، اسلامی مواد سے استفادہ کرنے، تحقیقی مضامین اور کُتب کا مطالعہ شیئر کرنے، دعوت و تبلیغ، قرآن و سُنّت کی ترویج اور مثبت سوچ کے فروغ کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ 

علاوہ ازیں، یہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہمیں آن لائن بزنس، مارکیٹنگ اور نِت نئی اِسکلز سیکھنے میں بھی مدد فراہم کرسکتے ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنے کیریئر اور کاروبار میں ترقّی حاصل کر سکتے ہیں۔ نیز، ان جدید ترین ذرائع ابلاغ کی مدد سے ہم اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے بھی ہمہ وقت رابطے میں رہ سکتے ہیں اور بہ وقتِ ضرورت ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں۔

مثبت استعمال کے لیے ضابطۂ اخلاق

٭ہمیشہ صداقت پرمبنی اور تصدیق شُدہ معلومات شیئر کریں۔ افواہیں یا جُھوٹی خبریں پھیلانے سے گریز کریں۔

٭ دیگر سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ شائستگی کا مظاہرہ کریں اور کبھی بھی اُن کی عزّتِ نفس مجروح نہ کریں۔ گالی گلوچ اور نفرت انگیز زبان ہرگز استعمال نہ کریں۔

٭ اپنی اور دوسروں کی پرائیویسی کا خیال رکھیں۔ حسّاس یا ذاتی معلومات کبھی شیئر نہ کریں۔

٭ غیر اخلاقی اور فحش مواد شیئر کرنے سے اجتناب برتیں۔

٭ سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ وقت نہ گزاریں۔ اس کے باعث مطالعے، عبادات اور گھریلو ذمّےداریوں کو ہرگز نظرانداز نہ کریں۔

٭ اگر کسی کی رائے سے اختلاف مقصود ہو، تو ردِعمل دیتے ہوئے شائستگی اور بُردباری کا مظاہرہ کریں۔

٭ سوشل میڈیا کےذریعے تعلیم، تحقیق اور دیگر تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دیں اور جس حد تک ممکن ہو، دوسروں کی مدد و رہنمائی کریں۔

سوشل میڈیا …میدانِ کارزار، غزہ کے مظلوم عوام کی پکار

یاد رہے، سوشل میڈیا ایک نہایت طاقت وَر ہتھیار ہے اور اس کے استعمال کے ضمن میں ریاست اور صارفین پر بھاری ذمّے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ تُرکی میں 2016ء میں فوجی بغاوت کو ناکام بنانے میں سوشل میڈیا نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ تب تُرک فوج کے بعض باغی دستوں نے اقتدار پرقبضے کی کوشش کی، لیکن تُرک عوام نے اپنے صدر، رجب طیّب اردوان کی فوری اپیل پر سڑکوں پر نکل کر بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ 

تُرک صدر نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو ہدایت دی کہ وہ بغاوت کا مقابلہ کریں۔ یوں عوامی رابطےاورمنظّم مزاحمت میں سوشل میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اِسی طرح آج سوشل میڈیا غزہ کے مظلوموں کی پُکار بن چُکا ہے۔ آج جب کہ بڑی عالمی طاقتیں فلسطین میں جاری وحشیانہ اسرائیلی مظالم کو چُھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، یہی سوشل میڈیا غزہ کے بچّوں کی دردناک چیخیں اور ماؤں کی آہ و بکا نہ صرف عالمِ انسانیت تک پہنچا رہا ہے، بلکہ عالمی ضمیربھی جھنجھوڑ رہا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج دُنیا بَھر میں موجود انسان دوست اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے FreePalestine#، GazaUnderAttack# اور StandWithGaza# کی صدائیں بلند کررہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا اہلِ غزہ کے لیے صرف ذریعۂ اظہارنہیں، بلکہ اُن کی آخری اُمید ہے۔ تو آئیے، ہم بھی اپنے الفاظ، پوسٹس اور ہیش ٹیگز سے ظلم کے اندھیرے کو چیرنے والی روشنی بنیں۔ ہم بھی مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، کیوں کہ خاموشی ظالم کی حمایت کے مترادف ہے اور جب تک ہم آوازبلند کرتے رہیں گے، ظالم کبھی کام یاب نہیں ہوگا۔ 

یاد رہے، آج سوشل میڈیا کھیل نہیں رہا، بلکہ میدانِ کارزار بن چُکا ہے، جہاں ’’کلک‘‘ اور ’’شیئر‘‘ سے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے سوشل میڈیا کو سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں خیر کے لیے استعمال کیا، تو یہ ہماری اُمّت کے عروج کا زینہ بن سکتا ہے اور اگر اس کے استعمال میں بے احتیاطی اور غفلت کا مظاہرہ کیا، تو یہ ہماری نسلوں کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ تو آئیں، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم سوشل میڈیا کو دعوت و تبلیغ، تعلیم اور خیر کے فروغ کا ذریعہ بنائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کہنے، سچ پھیلانے اور فتنوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ؎ اے خالق ِوقت! اتنا بتا… کیا وہ لمحہ بھی تیری ہی تخلیق تھا… جس گھڑی میرے شہروں کی بستی ہوئی بستیاں… قتل کردی گئیں، خُوں سے بَھر دی گئیں… اور اے لامکانوں کے تنہا مکیں تیرے گھر کو گرانے جو آیا کوئی… تو پرندے پیام ِاجل بن گئے… ابرہہ اور اس کے سبھی لشکری… تیرے در سے جو ناکام لوٹے تو کیا… میرے شہروں پہ یوں آ کے وارد ہوئے… ہم زمیں زاد لوگوں کے گھر لُٹ گئے… آشیاں گرپڑے اور شجر لُٹ گئے… ربِّ کعبہ! تجھے تیرے گھر کی قسم… جو سلامت رہا اور سلامت رہے… تاقیامت رہے… میرے برباد شہروں کی فریاد سُن… ابرہہ کا وہی لشکرِ فِیل ہے… ہم کو پھر انتظارِ ابابیل ہے… ہم کو پھر انتظارِ ابابیل ہے۔