فیصل مبارک
ہم ایک ایسے دَور میں جی رہے ہیں کہ جس میں آسمانوں میں ایک خاموش مگر سخت جدوجہد جاری ہے۔ ایک طرف ترقّی کی چمک دمک ہے، تو دوسری جانب غلامی کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دُنیا کی معروف کاروباری شخصیت اور ’’ٹیسلا‘‘ کے بانی، ایلون مسک کا ’’اسٹار لنک نیٹ ورک‘‘ ایک جانب ناقابلِ یقین سہولتوں کا دعویٰ کرتا ہے، تو دوسری جانب کئی پریشان کُن سوالات بھی جنم دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسٹار لنک کی پیش کش نہایت دِل کش ہے، کیوں کہ دُنیا کے اُن علاقوں میں، جہاں کسی زمانے میں تیز ترین انٹرنیٹ محض ایک خواب تھا، یہ ٹیکنالوجی ایک انقلاب کی صورت جلوہ افروز ہو رہی ہے۔ ذرا تصوّر کیجیے، گلگت بلتستان کے طلبہ بین الاقوامی معیار کی حامل جامعات میں براہِ راست آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔
چترال کے ڈاکٹرز بیرونِ ملک موجود ماہرین سے ویڈیو کالز پر پیچیدہ امراض سے متعلق مشورے کر رہے ہیں۔ تھرپارکر کی خواتین موبائل فون کے ذریعے ای- کامرس پلیٹ فارمز پر اپنی دست کاری پر مبنی مصنوعات فروخت کر رہی ہیں اور بلوچستان کے کسان بین الاقوامی موسمیاتی اعدادوشمار کی بنیاد پر اپنی فصلوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یہ ایک طلسماتی اور قابلِ فخر تبدیلی ہے۔ اب ایک ایسی دُنیا کا دروازہ کُھل رہا ہے کہ جہاں علم اور معلومات کسی کے لیے مخصوص نہیں ، جب کہ انٹرنیٹ ایک ایسے سمندر کی مانند ہے کہ جس میں سے ہر شخص اپنا من پسند گوہر تلاش کر سکتا ہے۔ آج ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل فون ہمیں دُنیا کی بہترین تعلیم تک رسائی دے سکتا ہے، حتیٰ کہ ہم اس کی مدد سے پی ایچ ڈی بھی کر سکتے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نہیں بُھولنا چاہیے کہ اس دُنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا اور اگر کوئی سہولت ہمیں بِلا قیمت دی جا رہی ہو، تو سمجھ لیں کہ ’’پراڈ کٹ‘‘ ہم خود ہیں۔ مثال کے طور پر یہی اسٹار لنک نیٹ ورک، جو فی الحال ہمیں تیز رفتار انٹرنیٹ، آن لائن تفریح کے مواقع اور معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے، اگر تخریبی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے لگے، تو دُنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے اور روس، یوکرین جنگ اس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے، جہاں اسٹارلنک نہ صرف انٹرنیٹ کی سہولت بلکہ فوجی رابطہ کاری، ڈرون کنٹرولنگ اور فوجیوں کی لوکیشن ٹریکنگ کا ذریعہ بھی بنا۔ یعنی، یہ نیٹ ورک صرف سہولت نہیں، بلکہ طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کا مؤثر ہتھیار بھی ہے۔
دوسری جانب ایلون مسک کا یہ اعتراف کہ وہ جانتے تھے کہ ایران میں کون سے ٹرمینلز فعال ہیں، اس نظام کی وسعت اور باخبر نگرانی کی صلاحیت کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ اور اگر کسی مُلک کا بنیادی مواصلاتی ڈھانچا ایک غیر مُلکی نجی ادارے کے کنٹرول میں ہو، تو یہ سوال اُٹھانا بالکل بجا ہے کہ ’’کیا وہ مُلک واقعی خود مختار ہے؟‘‘
یہی وجہ ہے کہ رُوس اور چین نے اپنے مُلک میں اسٹار لنک پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، کیوں کہ وہ اپنی ڈیجیٹل خودمختاری پر سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہیں۔ لہٰذا، پاکستان جیسے ممالک کو بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ترقّی کی دوڑ میں کہیں ہم اپنی آزادی، خود مختاری اور قومی سلامتی کو تو داؤ پر نہیں لگا رہے؟
واضح رہے، یہ محض ٹیکنالوجی کا معاملہ نہیں، بلکہ آزادی، خودمختاری اور اقتدار کا امتحان ہے۔ آنے والے دَور میں انٹرنیٹ صرف ڈیٹا کی ترسیل کا ذریعہ نہیں ہو گا، بلکہ یہ قوموں کی تقدیر کا بھی فیصلہ کرے گا۔ بہ قول اقبال؎حادثہ وہ جو ابھی پردۂ ٔافلاک میں ہے …عکس اِس کا مِرے آئینۂ ادراک میں ہے۔
ہمیں آج خود سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا ہم تیز رفتار کنیکٹیویٹی کے بدلے اپنی آزادی کا سودا کرنے جا رہے ہیں؟ ہمیں آج ہی فیصلہ کرنا ہے، کیوں کہ کل کا اقتدار انہی کے پاس ہوگا، جو آج معلومات کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
ناقابل اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭ ظاہری شان و شوکت ، جھیل سیف الملوک، سجی کوٹ آب شار (مبشّرہ خالد) ٭ اپنے پیدا کردہ مسائل (افروز عنایت) ٭ کام یاب زندگی کی راہ (نام نہیں لکھا)٭ لوگو،کچھ سوچو(ثمینہ اقبال) ٭ اجدادِ مصطفیٰﷺ ، حضرت عبّاس بن عبدالمطلب، کشمیر کے حل میں کردار،عالمی یومِ ماحولیات (ارسلان اللہ خان ، حیدرآباد) ٭ صحابۂ کرامؓ اور دولت و ثروت(اکرام الحق چوہدری)٭بینکرز نائٹ، ووٹرز ٹرن آئوٹ(خواجہ تجمّل حسین، کراچی) ٭ چوپال ، بیٹھک (عبدالستار) ٭ پانی پت کی تیسری لڑائی (حمید انصاری)٭رائٹ اپ (مشعل فاطمہ) ٭سائیکلیں (محمدعادل نائیک ایڈوکیٹ)٭ سردیوں سے کہو ، ہم ہوئے پرانے(امجد محمود چشتی)٭ شعبۂ تعلیم ، تجربہ گاہ( پروفیسر مددعلی جھتیال) ٭ حبیب جالب (حیات الحسینی) ٭غزوہ ٔاحد، نے ہاتھ باگ پر ہے (بنتِ صدیق کاندھلوی)٭ قربانی کا دوسرا نام ، عورت (طوبیٰ سعید، لاہور) ٭ کھیلوں میں پاک فوج کا کردار،تعلیم میں کردار ، دفاعی بجٹ میں اضافہ (عبدالباسط علوی) ٭ محبوبہ کی ناراضی(محمد عبّاس)زمانے میں معزّز تھے (شیراز عالم مری) ٭میڈیا(عندلیب زہرہ ، راولپنڈی) ٭ میں کراچی ہوں (رابعہ محمد عثمان) ٭ آزاد کشمیر کی پہلی خاتون بیورو کریٹ(ظفر مغل) ٭ قائد اعظم اور فلسطین(ریطہ فرحت) ٭ ذوالفقار علی بھٹو(مختار ظفر ،ملتان) ادا جعفری (شجاعت الحمید بدایونی)٭ مومنین کی خصوصایت، اللہ سے مناجات (مصباح طیب ، سرگودھا) ٭ فلسطین سلگ رہا ہے (نازلی فیصل ، ڈیفینس ، لاہور) ٭موسم سرما، ہُن آرام اے(جمیل ادیب سیّد،کراچی) ٭ مسلمان حکمران کے فرائض ، مکہ ٹاور، منشور انسانیت، بابا گرونانک ، یوم باب الاسلام، منوڑا کا لائٹ ہاؤس،صلیبی جنگیں، داستانِ کربلا،دواہم کردار (بابرسلیم خان ، سلامت پورہ ، لاہور) ٭ ای او بی آئی (محمد شبیر خان ، لاہور)٭ عمادالدین زنگی (الطاف حسین صدیقی)٭اشرف عباس (ذوالفقار حسین نقوی) ٭سوشل میڈیا، کردار کُشی کا اکھاڑا، موجوں میں ڈوبی آخری مسکراہٹ (عبدالصمد حقیار) ٭حضرت مولانا قاری احمد پیلی بھیتی (کھتری عصمت علی پٹیل) ٭سماج اور پس ماندہ طبقات (بشریٰ امان ورک)٭ ایران، اسرائیل تناؤ (نصرت عباس داسو) ٭تنہائی، یک سانیت (ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی) ٭ہردل عزیز، طارق عزیز( آصف اشرف، راولا کوٹ، کشمیر)۔