پاکستان اور سعودی عرب گہرے تاریخی مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔برصغیر کے مسلمان حجاز مقدس کے ساتھ جس طرح کی عقیدت رکھتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سعودی عرب نے اسے تسلیم کر کے اس تعلق کی بنیاد رکھی اور یہ بنیاد آنیوالے برسوں میں مختلف قیادتوں کے ادوار میں مزید مضبوط ہوتی گئی۔
1970ء کی دہائی پاک سعودی تعلقات کے سنہری دور کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کی دوستی نے دونوں ممالک کو مزید قریب کر دیا۔ 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد دراصل اسی دوستی اور باہمی اعتماد کا ثمر تھا۔ اس کانفرنس نے پاکستان کو عالم اسلام میں ایک کلیدی کردار عطا کیا اور سعودی عرب نے بھرپور تعاون کے ساتھ اس کوشش کو کامیاب بنایا۔ شاہ فیصل کی شخصیت عالم اسلام میں اتحاد کی علامت سمجھی جاتی تھی اور ان کی شہادت پر پاکستان میں جس پیمانے پر سوگ منایا گیا، وہ اس تعلق کی گہرائی اور عوامی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں پاک سعودی تعلقات دفاعی اور تزویراتی پہلوؤں کے اعتبار سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئے۔ 1980ء کی دہائی میں جب افغانستان سوویت یونین کی یلغار کا شکار ہوا تو پاکستان اور سعودی عرب نے مل کر افغان عوام کی حمایت کی۔ سعودی عرب نے مالی وسائل فراہم کیے جبکہ پاکستان نے عملی میدان میں قیادت اور سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ اس اشتراک نے سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔اس حوالے سے یہ بحث اپنی جگہ پر ہمیشہ موجود رہے گی کہ امریکی جنگ کا آلہ کار بن کر پاکستان کو کیا ملا لیکن اس کے باوجود اس زمانے میں پاک سعودی تعلقات اپنے عروج پر دکھائی دیتے تھے۔ اس دور میں دونوں ممالک کے تعلقات محض سیاسی یا اقتصادی تعاون تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ ایک اسٹرٹیجک اتحاد میں ڈھل گئے جس کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس کیے گئے۔1990ء کی دہائی میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب عالمی پابندیوں نے معیشت کو مفلوج کر دیا تو سعودی عرب نے پاکستان کو تیل کی فراہمی ادھار اور مفت میں جاری رکھی۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی سطح پر پاکستان تنہا کھڑا دکھائی دیتا تھا لیکن سعودی عرب نے عملی تعاون سے پاکستان کو سہارا دیا۔ بعد ازاں 1999ء میں جب نواز شریف کو جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ان کے خاندان کو اپنے ملک میں پناہ دی، جو اس رشتے کی گہرائی کو مزید اجاگر کرتی ہے۔آج جنرل عاصم منیر کی عسکری قیادت اور موجودہ سیاسی حکومت کے ساتھ سعودی قیادت کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ حالیہ دفاعی اور اقتصادی معاہدات دونوں ممالک کی باہمی وابستگی کو نئی قوت دے رہے ہیں۔ سعودی سرمایہ کاری پاکستان کے معاشی استحکام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ عسکری تعاون خطے کے امن اور سلامتی کا ضامن بنتا جا رہا ہے۔مستقبل کے منظرنامے میں پاک سعودی تعلقات ایک نئے عالمی توازن کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کی وژن 2030 ءکے تحت اقتصادی تنوع اور ترقیاتی منصوبے اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور افرادی قوت، دونوں کو ایک دوسرے کا قدرتی شراکت دار بنا رہے ہیں۔ اگر یہ تعلقات اسی جذبے اور اعتماد کیساتھ آگے بڑھتے ہیں تو نہ صرف پاکستان کو معاشی استحکام اور ترقی کے نئے مواقع ملیں گے بلکہ سعودی عرب کو بھی دفاعی اور انسانی وسائل کے شعبوں میں ایک مضبوط پارٹنر دستیاب ہوگا۔ عالمی سطح پر مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کے پیشِ نظر یہ اتحاد ایک مشترکہ آواز کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے، جو امت کی اجتماعی طاقت اور وقار کی علامت ہوگا۔میں سمجھتا ہوں کہ پاک سعودی تعلقات کے اس نئے موڑ پر ہمیں ایک علمی اور ٹیکنالوجی کے نئے سفر کی بنیاد رکھنی چاہیے۔
آج کی دنیا میں ترقی کا اصل راز سائنس اور ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے، اسلئے پاکستان اور سعودی عرب کو چاہیے کہ اپنے دیرینہ تعلقات کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔سعودی عرب اپنے وسائل کا رخ ہتھیاروں کے بجائے جدید یونیورسٹیوں کے قیام پر خرچ کرے۔دنیا بھر کے لائق لوگ اپنے ملک میں اکٹھا کر کے ایسے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھے جو مستقبل کے جدید علوم کی دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر سکے۔ سعودی عرب میں اگر آکسفورڈ، ہارورڈ، یونیوسٹی آف کولمبیا جیسے جدید تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھ دی جائے تو علمی امامت بتدریج سعودی عرب کی طرف منتقل ہوگی۔بڑی عمارات،ایئرپورٹ،اسٹیڈیم بھی اپنی جگہ پر ضروری ہیں لیکن وسائل کا درست استعمال تو ماڈرن ایجوکیشن کے اداروں کے قیام میں مضمر ہے اگر دونوں ممالک مشترکہ تحقیقی ادارے قائم کریں، اعلیٰ تعلیم اور سائنسی تبادلوں کے پروگرام شروع کریں، ڈیجیٹل معیشت اور مصنوعی ذہانت جیسے نئے شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور توانائی، دفاعی پیداوار و صحت کے میدانوں میں صنعتی شراکت داری کو فروغ دیں تو یہ تعلق نئی وسعتیں اختیار کر سکتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کی سائنسی اور ٹیکنیکل تربیت پر توجہ دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، کیونکہ یہی نسل کل کو دونوں ملکوں کو جدید دنیا کے صفِ اوّل کے ممالک میں شامل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب نے اس سمت میں سنجیدہ پیش رفت کی تو یہ تعلق صرف روایتی تعاون تک محدود نہیں رہیگا بلکہ جدید دنیا میں ترقی، خود کفالت اور قیادت کی راہیں بھی کھولے گا، جو امت مسلمہ کیلئے ایک روشن مثال ثابت ہو سکتی ہے۔