عدلیہ کی آزادی ہمارے مقبول اور پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بالخصوص عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر بات ہورہی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ جج صاحبان نے تو بطور سائل سپریم کورٹ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ عدلیہ آج بھی اتنی ہی آزاد ہے جتنی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ مثلاً ثاقب نثار اور عمر عطابندیال چیف جسٹس ہوں تو ازخود نوٹس پر کوئی قدغن نہیں، ایسی صورت میں چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر ہے، وہ جب جس مقدمہ کو چاہے سماعت کیلئے مقرر کرے، ہم خیال جج صاحبان کے ساتھ بیٹھ کر بنچ فکسنگ کرے اور ضروری ہو تو مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی گستاخ جج کو بنچ سے نکال باہر کرے، کوئی اعتراض نہیں۔ اگر انکی مطلق العنانیت ختم کرنے کیلئے قانون سازی ہو تو اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ سمجھا جائے لیکن اگر قاضی فائز عیسیٰ، یحییٰ آفریدی یا پھر سرفراز ڈوگر چیف جسٹس ہوں تو انکے اختیارات محدود کرنے سے ہی عدلیہ آزاد تصور ہوگی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سچ کہنے پر دفاع کا موقع دیئے بغیر برطرف کردیا جائے اور جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس بن جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر جسٹس محسن اختر کیانی کے بجائے جسٹس سرفراز ڈوگر چیف جسٹس کے منصب پر تعینات ہوجائیں تو عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا تو ٹھیک تھا مگر کسی جج کیخلاف جعلی ڈگری کی شکایت غلط ہے۔ 2017ء سے2022ء تک تو عدلیہ میں مداخلت جائز اور ضروری تھی مگر اب اس طرح کی کوشش ضمیر پر بوجھ ہے۔ ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل(ر)حفیظ الرحمان کی تقرری کالعدم قرار دی کیونکہ تعیناتی کے دوران قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں کی گئی۔یقیناً یہ فیصلہ میرٹ پر کیا گیا ہوگا مگر جب عمران خان وزیراعظم تھے تو جنوری 2019ء میں میجر جنرل عامر عظیم باجوہ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا چیئرمین بنایا گیاجسکے خلاف ایک شہری عامر حیدر چیمہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔یہ مقدمہ ان جج صاحب کے سامنے لگا جو آج سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنیوالے ججوں میں سب سے سینئر ہیں مگر انصاف پر مبنی فیصلہ نہ آیا اور میجر جنرل عامر عظیم باجوہ نے مدت ملازمت مکمل کی۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ عدلیہ کی آزادی موم کی ناک ہے اور حالات و واقعات کے علاوہ شخصیات کے مطابق اسکی تشریح و تعبیر بدلتی رہتی ہے۔سوال تو یہ ہے کہ اگر اعلیٰ عدالتوں میں براجمان جج صاحبان سائل بنکر کسی اور عدالت میں مقدمہ بازی کرتے رہیں گے تو پھر انصاف کے طلبگار کدھر جائینگے؟کیا جج عدالتوں کا بائیکاٹ کرکے ہڑتال پر جاسکتے ہیں؟کیا جج صاحبان کاجتھہ بندی کے ذریعے سیاست کرنا انکے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں؟کیا پانچ ججوں کا ایکا کرکے کسی تنظیم کی طرح مشترکہ لائحہ عمل اپنانا اور اپنے چیف جسٹس کیخلاف سپریم کورٹ میں جانا انکے منصب کے شایان شان ہے؟موجودہ چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران واضح کرچکے ہیں کہ جج کو سائل بنکر عدالتوں میں مقدمہ بازی نہیں کرنی چاہئے۔جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف پٹیشن دائر کی تھی تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے انکی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی اور اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ”جب کوئی شخص آئین کے تحت حلف اٹھاتا ہے تو وہ اپنے طرزِ عمل کے ذریعے آئین اور قانون کے تحت میسر تمام حقوق اور مراعات کو اُس رویّے کے تابع کر دیتا ہے جو ایک حاضر سروس جج سے ضابط ء اخلاق کے مطابق متوقع ہوتا ہے، خواہ وہ حقوق و مراعات اس رویّے کے منافی ہوں یا اُس سے ہم آہنگ نہ ہوں“۔
چلیں اگر جسٹس یحییٰ آفریدی کی رائے قابل قبول نہیں تو آپ کے ہم خیال منصف کا فیصلہ پیش خدمت ہے۔اکتوبر 2020ء میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے 42صفحات پر مشتمل ایک فیصلےمیں قرار دیا کہ کسی ہائیکورٹ کیخلاف رٹ جاری نہیں کی جاسکتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا ”ہمارے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ چیف جسٹس صاحبان یاہائیکورٹ کے جج صاحبان جب موجودہ معاملات کے تناظر میں اپنے انتظامی یا مشاورتی اختیارات استعمال کرتے ہیں تو وہ بطور ذاتی حیثیت (Persona designata) عمل نہیں کرتے بلکہ وہ آئین کے آرٹیکل 192میں دی گئی تعریف کے مطابق ہائیکورٹ کے طور پر اور اسی کے کہنے پر عمل کرتے ہیں“ لہٰذا جج صاحبان آئین کے آرٹیکل 199 (5)کے تحت ”اشخاص“ کے دائرہ کار میں نہیں آتے اور انکے خلاف رٹ جاری نہیں کی جاسکتی۔تو پھر عدالت عالیہ کے جج صاحبان کا اپنی ہی ہائیکورٹ کیخلاف رٹ جاری کرنے کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنیکا کیا مقصد ہے؟اگرچہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر جو اعتراضات اُٹھائے ہیں وہ درست ہیں مگر میری دانست میں سپریم کورٹ کو یہ اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے محولا بالا درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کرنی چاہئیں تاکہ کوئی واضح اصول وضع کیا جاسکے، اشکالات دور ہوسکیں اور یہ بھی معلوم ہوسکے کہ کیا جج صاحبان کی اسناد چیک کروانے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے؟