• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی میں میکس پلینک انسٹیٹیوٹ آف بیالوجی کے سائنسدانوں نے دوکینسر کش ادویات کا اکھٹے استعمال کرکے چوہوں کی عمر پینتیس فیصد تک بڑھانے کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ انسانوں میں اگریہ ممکن ہو سکا تو جس شخص نے 70کا ہو کر مرنا تھا، وہ 95سال کی عمر پائے گا۔ چوہے نہ صرف دیر تک زندہ رہے بلکہ دل اور عضلات کی قوت سمیت بڑھاپے میں ان کی صحت بھی کافی بہتر رہی ۔ہو سکتاہے کہ یہ 35فیصد اضافہ تو محض ایک شروعات ہو ۔عمریں بڑھتی چلی جائیں ۔

تین ستمبر کو دوسری جنگِ عظیم کی یاد میں عالمی رہنما بیجنگ میں اکٹھے ہوئے۔ چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن گفتگو کر رہے تھے جو غلطی سے نشر ہو گئی ۔کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ وہ مذاق کر رہے تھے ۔1اعشاریہ9ارب افراد نے یہ گفتگو براہِ راست سنی اور چالیس کروڑ نے ٹی وی پر۔پیوٹن نے کہا: بائیو ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔ انسانی اعضا مسلسل عطیہ کیے جا سکتے ہیں ۔ جتنی زیادہ دیر آپ زندہ رہیں گے ، اتنے کم عمر ہوتے جائیں گے؛لہٰذا لافانی ہو جائیں گے ۔چینی صدر کا جواب اور بھی زیادہ چونکا دینے والا تھا۔ انہوں نے کہا:کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس صدی میں انسان ڈیڑھ سو سال کی عمر پا لے گا۔صدر پیوٹن نے بعد میں اس گفتگو کی تصدیق کی اور کہا : صحت اور میڈیکل سائنس بہتر ہو رہی ہے ۔ اعضا عطیہ کرنا آسان ہو رہا ہے ۔ امیدہے کہ صحت مند زندگی طویل ہوتی جائے گی ۔

ایک طرف تو انسانی عظمت کا عالم یہ ہے کہ عمریں بڑھائی جا رہی ہیں ۔ دوسری طرف پورا کرہ ارض انسان کی خوں ریزی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ فرشتوں نے جب خدا کا یہ حکم سنا کہ انسان کو وہ اپنا نائب بنانے لگا ہے تو انہوں نے کہا : انسان تو فساد کرتا ہے اورخون بہاتا ہے ۔سورۃ بقرہ 30۔

پھر چینی صدر نے باقاعدہ تقریر کی تو کہا : دنیا کو امن اور جنگ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ہائپر سونک میزائلوں اور دوسری جنگی ٹیکنالوجی کا معائنہ کیا، کسی لیبارٹری کا معائنہ نہیں کیا ۔ چینی اور روسی صدور نے بیس معاہدوں پہ دستخط کیے ۔نریندر مودی بھی وہاں موجود تھے لیکن محض ٹرمپ کے دھتکارے ہوئے کے طور پر ۔ شی جن پنگ اور پیوٹن کے ساتھ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن بھی موجود تھے ۔ امریکی جرنیلوں کے ہمراہ ٹی وی پر یہ سب دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ یقیناً تینوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر رہے ہوں گے ۔

برسبیلِ تذکرہ امریکی صدر بگرام ائیر بیس یوں مانگ رہے ہیں ، جیسے بچہ ٹافی مانگتا ہے ۔ بھائی ابھی کل ہی تو آپ وہاں سے ذلیل ہو کر نکلے ۔ نائن الیون کی جتنی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور انہیں پناہ دینے والے ملا عمر کی تھی ، اتنی ہی القاعدہ کی بنیاد رکھنے اور دنیا میں بے چینی پیدا کرنیوالے امریکہ کی بھی ۔ ٹرمپ ایک ایسا انوکھا صدر ہے ، جسکے خیال میں پچھلے صدور کے کیے گئے کسی اقدام کی کوئی حیثیت نہیں۔یہ کام پہلے کسی صدر نے نہیں کیا۔

ٹرمپ کی کل متاع چالاکی ہے اور بدزبانی ۔ ایک بلیک میلر بلکہ کن ٹٹا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ حکمت اور دانش چھو کر نہیں گزرسکی۔ ایلون مسک سے دوستی اوردشمنی اس طرح کی ، جیسے تھڑے باز ٹین ایجرز کرتے ہیں ۔ خوبی ایک یہ ہے کہ بزدل نہیں ۔ 79سالہ ٹرمپ بوڑھا ہو گیا ۔ اپنی آنکھوں سے اس نے امریکہ کو شکست کھاتے دیکھا مگر خبطِ عظمت قائم و دائم ہے ۔

لطیفہ یہ ہے کہ روس نے امریکہ کو جوہری ہتھیاروں پہ معاہدے کی پیشکش کی ۔ امریکہ کے پاس پانچ ہزار اور روس کے پاس ساڑھے پانچ ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں ۔ ایٹمی میزائلوں کی اصل تباہ کاری بعد میں ظاہر ہوتی ہے۔ آسمان راکھ سے اٹا ہوگا۔ روشنی نہیں ہوگی اور فصل نہیں اُگے گی ۔ ایک اندازے کے مطابق بڑی ایٹمی جنگ میں دو برسوں میں دنیا کے 63فیصد انسان مر جائیں گے ۔ زندہ رہ جانے والے سسکتی ہوئی زندگیاں بسر کریں گے ۔ روسی صدر کے الفاظ اپنی جگہ ایک بہت بڑا لطیفہ ہیں ۔ کہا : اگر امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں میں ایک سال کوئی اضافہ نہ کرے تو ہم بھی ایک سال کوئی اضافہ نہیں کرینگے ۔ شمالی کوریا نے اس سے بڑی پیشکش کی ۔ ٹرمپ کو کم جونگ اُن نے پیغام بھجوایا : امریکہ اگر شمالی کوریا سے یہ مطالبہ ترک کر دے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے تو امریکہ سے بات چیت ہو سکتی ہے ۔ٹرمپ نے کہا ہوگاکہ ایٹمی پروگرام اگر ترک نہیں کرنا تو بات چیت تربوز کی کاشت پر ہوگی ؟ کم جونگ اُن شاید ٹرمپ کا چیزہ لے رہا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ انسان عقل استعمال کرنے پہ آئے تو عمر پینتیس فیصد بڑھا سکتاہے ۔ انسان لیبارٹری میں سورج سے زیادہ درجہ ء حرارت پیدااور کنٹرول کر سکتاہے ۔ مسئلہ مگر ایک ہے کہ اس قتل وغارت کی سرشت پہ کیسے قابو پائے، جسے دیکھ کر فرشتوں نے یہ کہا تھا کہ انسان توفساد کرتا ، خون بہاتا ہے ۔ یہ کیسے خدا کا نائب بن سکتاہے ۔

اس دنیا میں آپ نے ترقی کرنی ہے تو جنگ روک دیں ۔ ویسے تو خیر ٹرمپ بھی بغلیں بجاتا پھر رہا ہے کہ میں نے بڑی جنگیں روکیں اور ساتھ ساتھ غزہ کے قتلِ عام میں سہولت کاری بھی کرتا جا رہا ہے ۔میری رائے میں سارے عالمی رہنمائوں کو جین ایڈیٹنگ سے گزار کر امن پسند بنایا جائے تو شاید یہ قتل و غارت رک سکے ورنہ

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری

جو لوگ زندگی اور فاسلز میں دلچسپی رکھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ سو نہیں ، لاکھ پشت سے ۔ یہ کرہ ء ارض، اسکی خشکی اور اسکے سمندر ایک ایسی لیبارٹری ہیں ، جس میں 54کروڑ برس کے ارتقا کا نتیجہ آج انسان کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔54 کروڑ برس بہت وقت ہے جنگ و جدل سمیت خوفناک حیوانی جبلتوں کے اتنا طاقتور ہونے میں ، جتنا ہمیں ٹرمپ، نیتن یاہو ، پیوٹن ، مودی اور شیخ حسینہ میں دکھائی دیتا ہے ۔ گستاخی معاف ، شریف لوگوں کی اکثریت بھی اسی لیے شریف ہے کہ ان میں بدمعاشی کی سکت ہی نہیں ورنہ ہمارے محلوں اور بازاروں میں بچوں سے جنسی زیادتی سمیت کیسا کیسا ظلم وقوع پذیر نہیں ہوتا ۔

تازہ ترین